16 دسمبر سے 27 دسمبر تک
دسمبر کا سرد مہینہ ہماری قومی زندگی میں بعض المناک یادوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
دسمبر کا سرد مہینہ ہماری قومی زندگی میں بعض المناک یادوں کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 25 دسمبر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے جنم دن کے حوالے سے اہم تاریخ ہے۔
وہ قائد جس نے اپنی ولولہ انگیز قیادت، سچی لگن، خلوص نیت اور ہمالیاتی و غیر متزلزل قوت ارادی کے طفیل برصغیر کی سیاسی تاریخ کا دھارا بدلتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ایک بے مثال و تاریخی جدوجہد کے ذریعے ایک آزاد ریاست ''پاکستان'' حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دے کر ایک آزاد نو مسلم وطن کی جانب یہ سوچ کر ہجرت کے دکھ اٹھائے کہ ''اپنے وطن'' میں انھیں ہر طرح کی سہولتیں، آسانیاں اور اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ''آزادی'' حاصل ہو گی جہاں رنگ، نسل، مذہب، عقیدے، مسلک اور زبان کی بنیاد پر ہندو مسلم فسادات، خون آشام سانحات رونما نہیں ہوں گے۔
سب ہم وطن ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر عزت و آبرو کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کریں گے لیکن افسوس کہ قائد اعظم کی جدوجہد کے صلے میں ملنے والے پاکستان میں ان کے نظریات، اصولوں اور فرمودات پر عمل پیرا ہو کر امور مملکت چلانے کے بجائے اس ملک کے ارباب اختیار نے قائد اعظم کی امانت پاکستان کا وہ حال کیا کہ سیاست سے لے کر قیادت تک اور معیشت سے لے کر معاشرت تک اور ایوان انصاف سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں خود غرضی، لالچ، طمع، بدنظمی، بدانتظامی، لوٹ کھسوٹ، ناانصافی، حق تلفی، بددیانتی، رشوت ستانی، کرپشن، مسلکی لسانی و صوبائی تفریق و نفرتوں جیسے ناسور نے اپنی جڑیں اس قدر پختہ کر لیں کہ سیاست پر آمریت غالب آ گئی اور عدل پر ''نظریہ ضرورت'' قابض ہو گیا۔
جس کا نتیجہ 16 دسمبر 1971ء کی صورت میں سامنے آیا اور پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا۔ 16 دسمبر ہماری قومی زندگی کا سیاہ ترین اور الم انگیز دن ہے، یہ ایسا ناسور ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اس سے لہو رس رہا ہے۔
پوری قوم ہر سال 16 دسمبر 1971ء کی یاد مناتے ہوئے سخت افسردہ ہو جاتی ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں سقوط بنگال کے دلخراش واقعات نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ اخبارات 16 دسمبر کے حوالے سے خصوصی صفحات شایع کرتے ہیں، پورے ملک میں مذاکرے اور سیمینار منعقد ہوتے ہیں کراچی میں تحریک محصورین مشرقی پاکستان کے روح رواں حیدر علی حیدر ہر سال باقاعدگی سے تقریب کا اہتمام کرتے چلے آ رہے ہیں جس میں عمائدین شہر اور محصورین کے عزیز و اقارب بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اس مرتبہ حیدر علی حیدر نے مذاکرے کا عنوان سقوط بنگال مقام عبرت یا ندامت رکھا تھا۔ جس پر مقررین نے سیر حاصل گفتگو کی۔
سوال یہ ہے کہ قوم اور سقوط بنگال کے ذمے داران نے واقعی اس سانحے سے کوئی عبرت حاصل کی یا نہیں اور انھیں کوئی ندامت ہے یا نہیں! مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہماری ندامت و شرمندگی کا احساس ماہ و سال کی گردشوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 16 دسمبر1971ء کے بعد اس ملک کو آمریت کے ہاتھوں یرغمال نہ بننا پڑتا۔ نظریہ ضرورت پھر زندہ نہ ہوتا۔ عوام کا مقبول ترین لیڈر پھانسی نہ چڑھتا۔
مذہب، عقیدے اور مسلک کے نام پر انتہا پسندی، بربریت اور دہشت گردی پروان نہ چڑھتی، طالبان کا جنم نہ ہوتا خودکش حملے و بم دھماکے ہماری پہنچان نہ بنتے، ہماری قومی تنصیبات، اہم شخصیات و ادارے اور عسکری و سیکیورٹی اہلکار اور عوام الناس دہشت گردوں کے نشانے پر نہ ہوتے، عالمی امن کے ٹھیکے دار ہم سے ''ڈو مور'' کا مطالبہ نہ کرتے اور نہ ہی ہمیں ایک اور 16 دسمبر 2014ء کے المناک دن کا سامنا کرنا پڑتا کہ جب دہشتگردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے مستقبل کے معماروں اور گلشن علم کی مہکتی 144 کلیوں کو پل بھر میں لہو لہان کر کے ارباب حل و عقد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ایک میز پر سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور وطن عزیز کو دہشتگردوں سے نجات دلانے کے لیے ''آپریشن ضرب عضب'' شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا پوری قوم متحد ہو کر پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔ ضرب عضب بلاشبہ کامیابی سے جاری ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بذات خود آپریشن کو ''لیڈ'' کر رہے ہیں۔ متعدد علاقے ''کلیئر'' کرا لیے گئے۔ 50 فیصد سے زائد دہشت گردی ختم ہو چکی ہے۔
جنرل راحیل شریف کا عزم ہے کہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔ قوم کو یقین ہے کہ پاک فوج جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشتگردوں کے خلاف جنگ ''آپریشن ضرب عضب'' کو منطقی انجام تک پہنچانے اور پورے ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دہشتگردوں کے مائنڈ سیٹ کو مہمیز کرنیوالے پس پردہ عوامل اور ان کی ترویج کرنیوالے عناصر کا بھی خاتمہ کیا جائے گا؟ ارباب اختیار کو اس ضمن میں غور و فکر کرنا ہو گا۔ ہمیں اندرون و بیرون وطن ہر دو محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے۔
جنگ طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ آنیوالی نسلوں کو دہشت گردی سے پاک، محفوظ اور پرامن پاکستان دینے کے لیے ہمیں من حیث القوم سنجیدہ اور ٹھوس فیصلے کرنا ہوں گے۔ماہ رواں کی ایک اور تاریخ 27 دسمبر ہے یہ وہ دن ہے جب اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ ختم کر کے واپس جاتے ہوئے دہشت گردوں کا نشانہ بن گئیں۔
محترمہ کی اچانک شہادت پر پورا ملک آنسوؤں اور سوگ میں ڈوب گیا۔ ملک کے کروڑوں غریبوں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں، مزدوروں اور پسماندہ طبقے کی نمایندہ آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ محترمہ نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آمریت کے آگے سر نہیں جھکایا۔ جلاوطنی اور صعوبتوں کے عذاب جھیلے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے بے مثال جدوجہد کی دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں ان کی شہادت سے عوام اور جمہوریت کو نقصان پہنچا۔ 27 دسمبر محترمہ کا یوم شہادت ہے۔ خدا میرے وطن کو دسمبر جیسے المناک سانحات سے محفوظ رکھے۔ (آمین)