عورتوں کے حقوق کی پامالی

ہرچند کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے


Shabbir Ahmed Arman December 29, 2015
[email protected]

ہرچند کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق اور مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس دن کے مناسبت سے خواتین کے لیے تقاریب، مجالس مذاکرہ اور مظاہرے کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے ہمت و عزم سے کام لے کر جدوجہد تیز کرنی ہو گی۔ یہ اچھی بات ہے، جسے سراہا جاتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور بلاشبہ دین اسلام نے سب سے زیادہ حقوق خواتین کو دیے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں جو انھیں دین اسلام نے دے رکھے ہیں۔ یہاں ہم ان حقوق کی بات نہیں کرتے جو خواتین کو بے پردگی اور بے راہ روی کی جانب گامزن کرتے ہیں۔

ہم صرف اسلامی نقطہ نگاہ کے حوالے سے خواتین کی ان حقوق کی بات کرتے ہیں جو انھیں دین اسلام کے دائرے میں حاصل ہیں۔ مغرب کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنا نقطہ نگاہ ہے اور ان میں دہرا معیار بھی سامنے آتا رہتا ہے۔ پاکستان میں موجود مغرب زدہ خواتین کا حلقہ اگرچہ خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ یہ صرف مغرب کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہیں۔ اس طرح ان کا انسانیت دوست نعرہ اس وقت دم توڑ دیتا ہے جب امریکا میں قید پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کا معاملہ آتا ہے۔ سچ پوچھیں کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انھیں جس بابت فنڈز ملتے ہیں وہ انھیں حلال کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک عرصے سے دیکھا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں موجود بعض مغربی و مغرب زدہ این جی اوز نے عورتوں کو ماڈل اور پبلسٹی کا ذریعہ بنا دیا ہے، ایک لحاظ سے عورت کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح خواتین کے حقوق کے نام نہاد علمبردار خواتین کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔ آج کل شہر کراچی میں عورتوں کے حقوق کو اجاگر کرنے کے بہانے عورتوں کو نچوایا جا رہا ہے یعنی عورتوں کی کہانیوں پر مبنی رقص و سرور کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں جب کہ ان کہانیوں کو مہذب طریقے سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے نہ کہ آزاد خیالی کی آڑ میں عورت کی تذلیل کی جائے۔

کسی حد تک ہماری ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی آزاد خیال ہوتے جا رہے ہیں فی الوقت آزاد خیالی میں بھارت کی فلم انڈسٹری کو فحاشی پھیلانے کا عالمی سرٹیفکیٹ مل گیا ہے۔ خواتین کے حقوق اور دنیا بھر کی فلم انڈسٹری میں خواتین کے کرداروں پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ''دی راک فیلر فاؤنڈیشن'' کا کہنا ہے کہ فحاشی سے فلموں کی تشہیر میں بھارتی فلم انڈسٹری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ جہاں خواتین کو بے باکانہ انداز میں پیش کرنے کا رجحان عام ہے جب کہ بھارت میں خواتین کو مثبت انداز میں پیش کرنے کا رجحان انتہائی کم ہے اور انھیں فلموں میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنس دانوں کے کرداروں میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔

دنیا بھر کی آبادی کا نصف ہونے کے باوجود خواتین کو بھارتی فلم میں ایک تہائی سے بھی کم کردار دیے جاتے ہیں اور یہ واضح تقسیم ہے۔ خواتین کو مختصر ترین لباس میں پیش کرنے کی درجہ بندی میں بھارتی فلم انڈسٹری آسٹریلیا اور جرمنی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے اور بالی ووڈ میں جنسی طور پر پرکشش خواتین پیش کرنے کا رجحان 2.25 فیصد ہے، یہاں خواتین اداکاراؤں کو دیے گئے 35 فیصد کرداروں میں انتہائی بولڈ مناظر فلم بند کرانا پڑتے ہیں۔ اس طرح فلموں میں بھی خواتین کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، ان کا عکس بند استحصال جاری ہے جس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔

جہاں تک پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال کا تعلق ہے وہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جنوری سے جون 2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق خواتین پر تشدد کے کل 3132 کیسز رپورٹ ہوئے، قتل کے 432، زیادتی کے 110، اجتماعی زیادتی کے 89 کیسز اور 197 خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جب کہ 533 کیسز میں خواتین پر تشدد کیا گیا۔ 104 خواتین کو کاروکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، 125 خواتین کو جلا دیا گیا، 417 پولیس کے تشدد کا نشانہ بنیں، 303 نے خودکشی کی، 97 خواتین انسانی اسمگلنگ، 91 ونی جیسی قبیح رسم کا شکار ہوئیں، جبری شادیوں کے 201 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ خواتین پر تشدد کے 3132 واقعات چاروں صوبوں سے درج ہوئے تھے ان میں سے پنجاب میں 1375، سندھ میں 878، خیبر پختونخوا میں 527 اور بلوچستان میں 352 تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

سال 2013ء میں صرف شہر کراچی میں 153 خواتین ہلاک ہو گئی تھیں ان میں سے 67 خواتین کو ان کے رشتے داروں نے مارا تھا۔ جنوری 2014ء سے دسمبر 2014ء تک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 314 عورتوں کے ساتھ زیادتی اور 173 کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، 2569 عورتوں پر تشدد ہوا جن میں سے 930 خواتین پولیس تشدد کا شکار ہوئیں، 595 عورتیں اغوا ہوئیں، 329 کی جبری شادی کی گئی جن میں ونی کی گئی 133 بچیاں بھی شامل ہیں۔ 187 عورتیں زیادتی کے بعد قتل کر دی گئیں، 297 عورتوں کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیا گیا اور 956 عورتوں کو مختلف وجوہات پر قتل کیا گیا، 548 عورتوں نے خودکشی کی، 191 عورتیں جلائی گئیں، 259 عورتوں کی اسمگلنگ کی گئی، 202 خواتین مختلف وجوہات کے باعث گھر سے بھاگیں، 2014ء میں ملک بھر میں عورتوں کے خلاف 6338 واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ 2564 واقعات پنجاب میں ریکارڈ کیے گئے، سندھ میں 1864، خیبر پختونخوا میں 1092، اور بلوچستان میں 818 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ یہ تعداد صرف ان واقعات کی ہے جو درج ہوسکے ہیں۔ علاوہ ازیں لاڑکانہ کے اضلاع جیکب آباد، لاڑکانہ، شکارپور اور کشمور میں سن دو ہزار سے دو ہزار نو تک غیرت کے نام پر 327 خواتین اور 204 مرد قتل کیے گئے تھے۔ 2012 میں 1636 قتل غیرت کے نام پر ہوئے تھے جس میں اکثریت خواتین کی تھی۔ 2014ء میں پاکستان میں 92 خواتین اور 13 بچوں پر تیزاب پھینکا گیا جن میں سے 7 خواتین جاں بحق ہو گئی تھیں۔

ماہرین کے مطابق جب تک خواتین پر تشدد کے خلاف بننے والے قوانین کو کتابوں سے نکال کر معاشرے میں نافذ نہیں کیا جاتا اس وقت تک خواتین سے زیادتی، تشدد، جبری شادی اور قتل کے واقعات کو روکنا ناممکن ہے، خواتین کے حقوق کے لیے بنائے گئے نئے قوانین کی آگہی کے حوالے سے پولیس کی تربیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پولیس بہت سے نئے قوانین سے متعلق آگاہی نہیں رکھتی، اسی لیے وہ متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی میں ناکام رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں