کیا نوجوان نسل خودسر ہوگئی ہے
کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ اس میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں
GENEVA/UNITED NATIONS:
کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ اس میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں، اس ضمن میں ہمیں اپنے آپ کو جاننے کی ضرورت پڑتی ہے، اگر اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے تو آپ کو اپنی ذات کے بارے میں بہت انکشافات ہوسکتے ہیں۔ آپ اپنی خوبیوں کو جان کر خوش بھی ہوسکتے ہیں لیکن خامیاں جاننے کے بعد افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ قدرت نے آپ کو اشرف المخلوقات بناکر بھیجا ہے اور آپ اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔
ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔ بعض نوجوانوں میں بہت سی صلاحیتیں چھپی ہوتی ہیں جنھیں وہ تلاش ہی نہیں کرتے، حالانکہ زندگی تو جستجو کا دوسرا نام ہے، جہاں آپ کی کھوج ختم ہوئی وہیں آپ ساکت ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ غیر متحرک ہوجانا بہادری کی نہیں بلکہ بزدلی کی علامت ہے۔
ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ بعض نوجوان اپنے ماحول کی وجہ سے خاصے خودسر اور ضدی ہوجاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت ابتدا سے ہی درست خطوط پر کی جائے تو مستقبل میں ان کی شخصیت اچھی عادات و اطوار سے پر ہوگی اور وہ زندگی کے چھوٹے موٹے مسائل بغیر کسی پریشانی کے حل کرنے کے قابل بن جائیںگے۔
ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ بہت سے والدین اولاد کی خوراک، لباس اور تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں لیکن ان میں مثبت احساسات، رجحانات اور اعلیٰ سوچ پیدا کرنے کی سعی نہیں کرپاتے۔ جب کہ ان میں معاف کرنے اور شکریہ کہنے کی عادت ڈالنا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ کل اچھے انسان بن سکیں۔
بچپن ہی سے سماجی تعلیم اور تربیت کے فقدان کے باعث آج ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار نظر آتا ہے، والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر کے لیے ابتدائی عمر ہی سے اقدامات کریں، تین سے چار سال کی عمر میں ہی بچے میں مثبت اور منفی عادتیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں لیکن اولاد کو محض بچہ سمجھ کر اس کی خامیوں اور خوبیوں پر نظر نہ رکھنا بڑی غلطی ہے۔ ماہرین نفسیات کی رائے کے مطابق ابتدائی دور ہی سے بچے کی اخلاقی تربیت کا آغاز کردینا چاہیے۔
ہمارے ہاں بہت کم والدین جانتے ہیں کہ نوجوانوں میں ضد اور غصے کی وجوہات بہت گہری ہوتی ہیں۔ بچپن میں ان عادات کو نظر اندازکرنا ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جب کہ بعض والدین بچوں کی ان عادات پر سزا دیتے ہیں، اس طرح ان کی عادات تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ان کے مزاج میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے بچے جنھیں والدین کی محبتوں کے ساتھ تھوڑی بہت سختی بھی ملی ہو اور ان کے مزاج میں توازن پیدا ہوجاتا ہے، بچوں کی بری عادات کو یکسر نظر انداز کردینا یا ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا دونوں صورتیں انھیں غیر مہذب بنادیتی ہے۔
ماہرین نفسیات بچوں میں سماجی شعورکی پختگی پر بہت زور دیتے ہیں۔ بہت چھوٹی عمر سے بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ہمدردی کرنے غلطی پر معافی مانگنے اور اپنے کھلونوں کو بانٹ کر کھیلنے کی عادات ڈالنا والدین کا اولین فریضہ ہے، ان کے ساتھ متوازن رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی بری عادات میں پختگی آجاتی ہے اور جب وہ نوجوان ہوجاتے ہیں تو ان کی عادتیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئی نسل کے نوجوانوں کی بڑی تعداد خودسر، بدتمیز اور بدلحاظ ہوتی جارہی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے، آج تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی عزت و احترام ختم ہوگیا ہے، اکثر نوجوان اپنی من مانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اساتذہ کی عزت واحترام کرنے کے بجائے چاہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتے رہیں اساتذہ کی طرف سے ان پر سختی نہ برتی جائے۔
بصورت دیگر بعض تو ان سے بدتمیزی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بعض گھروں میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے نوجوان نسل جن میں نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی شامل ہیں، اپنے والدین کا کہنا نہیں مانتے، اگر ان کے والدین انھیں کسی غلط کام سے منع کررہے ہوتے ہیں تو بجائے اس کے وہ ان کے حکم کی تعمیل کریں، ان سے زبان درازی کرتے ہیں اور انھیں یہ باور کراتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے اور وہ جو کچھ کررہے ہیں وہی ٹھیک ہے۔
آپ نے کبھی اس بات پر غورکیا ہے کہ نوجوان نسل کی خودسری کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک تعلیم سے دوری بھی ہے۔ آج بہت سے نوجوانوں کا رجحان حصول علم کے بجائے دیگر تفریح کے کاموں کی جانب بڑھ رہا ہے، شاید اسی لیے کہ دور حاضر میں نوجوان نسل کی تفریح فراہم کرنے کے لیے بہت سے مواقعے میسر ہیں، کئی ایسی ایجادات ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں جو لوگ بحیثیت تفریح استعمال کرتے ہیں۔
جن میں موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اکثر نوجوان ان ایجادات کو تفریح حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اگر ان کے والدین، بزرگ انھیں تعلیم پر توجہ دینے کو کہتے ہیں تو وہ بجائے اپنے بزرگوں کی باتوں کو صحیح جان کر اس پر عمل کرنے کے، ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ غلط نہیں ہے۔
تمام والدین کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے، اپنی ایسی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ اپنی اولاد پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتے ہیں اور روک ٹوک کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے قیمتی وقت کو فضول کاموں پر ضایع کرنے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں جب کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کی ایسی بے جا روک ٹوک کی وجہ سے ان کی اولاد تعلیم سے بددل بھی ہوسکتی ہے۔ زیادہ لاڈ پیار اور آزادی بھی نوجوانوں کو خودسر بنادیتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو وہ ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش کریں جو ان کا حق ہے اور انھیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تفریح کے مواقع بھی فراہم کریں تاکہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہو۔ نوجوانوں کو باغی بنانے میں میڈیا کا کردار بھی بڑی حد تک نمایاں ہے۔
آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں اکثر لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے تعلقات استوار کرتے ہیں اور مطلب پورا ہوجانے کی صورت میں ان کے رویوں میں تبدیلی آجاتی ہے، اسی طرح کے بدلتے رویے سے حساس طبیعت کے نوجوان بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جب کوئی انسان اپنے دوست ساتھی، رشتے دار سے خلوص کے ساتھ ملتا ہے تو اس کے دل میں ان کے لیے اپنائیت کے جذبات ہوتے ہیں لیکن جب دوسری جانب سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے تو اس کا اعتبار ان پر سے جاتا رہتا ہے اسی طرح وہ کسی پر بھی اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
آج نوجوانوں کی اکثریت صبر و تحمل سے کام نہیں لیتی اور ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے، وہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا صبر و تحمل سے سامنا کرنے کے بجائے فوراً طیش میں آجاتے ہیں اور جذباتی ہوکر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
نوجوان نسل کو خودسر بنانے میں سب سے بڑی اور اہم وجہ بیروزگاری ہے، بیشتر نوجوان مکمل تعلیم کرنے کے باوجود بھی روزگار سے محروم ہیں، وہ ہر صبح اس امید کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں کہ شاید آج انھیں اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوجائے لیکن جب وہ ہر جگہ سے مایوس ہوکر لوٹتے ہیں تو ان کے مزاج میں تلخی آجاتی ہے، اس مسئلے کا حل صرف اور صرف معاشرے کے پاس ہے۔ معاشرہ نوجوان کو وہ شعور دینے سے قاصر ہے جس کی اسے عملی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔