پروٹوکول سیکیورٹی اور بنیادی شہری حقوق
پروٹوکول، اور دکھاوا ہمارا نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے۔
بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ کی سول اسپتال میں آمد کے موقع پر وی وی آئی پی پروٹوکول اور سخت سیکیورٹی کے باعث خسرہ و بخار میں مبتلا 10 ماہ کی بچی بسمہ بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث اپنے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی۔ بیمار بچی کا باپ گھنٹوں ایمرجنسی گیٹ پر کھڑا سیکیورٹی عملے کی منت سماجت کرتا رہا کہ اسے بچی کی طبی امداد کے لیے اسپتال کے اندر جانے دیا جائے مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر بچی کو10 منٹ قبل لے آیا جاتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔
بچی کی ہلاکت پر میڈیا میں شور اٹھا اور حسب روایت اس کے والدین سے ہمدردی و یکجہتی سے زیادہ پوائنٹ اسکورننگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تحریک انصاف نے بچی کی ہلاکت کی ذمے داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے چیف جسٹس سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کے پی کے میں وی آئی پی پروٹوکول ختم کرنے کا اعلان بھی کر ڈالا۔ عوامی تحریک نے واقعے کو مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے اس کا مقدمہ پی پی پی کی قیادت کے خلاف درج کرنے کا مطالبہ کر دیا جب کہ متحدہ نے بچی کی ہلاکت پر سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
وزیراعظم نے بچی کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کے لیے ایک لاکھ روپے کی امداد کا اعلان فرما دیا۔ بلاول بھٹو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کر دی اور حکومت کی طرف سے بچی کے والد کے لیے سرکاری ملازمت اور امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔
جب کہ سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاول سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے خاندان کو سیکیورٹی خدشات ہیں، واقعے پر شر انگیزی نہ کی جائے۔ بچی کے والد نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے، ان کی بیٹی کی موت پروٹوکول کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اسپتال کے ایم ایس جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ سے ذاتی مراسم رکھنے کی بنا پر گزشتہ 7 سال سے اس عہدے پر متمکن ہیں، نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ کر لیا ہے کہ ایمرجنسی کے گیٹ کھلے ہوئے تھے، موت پروٹوکول کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی، چاہتے تو ایمرجنسی سے پہنچ سکتے تھے۔ راستے وہ بھی بند تھے۔
اس موقع پر برطانیہ کے وزیراعظم کا واقعہ یاد آ رہا ہے جب وہ ملاقات کے اوقات کے علاوہ اسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے انھیں یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ آپ ملاقات کے اوقات میں تشریف لائیں۔ چند دن قبل کی خبر ہے کہ انڈین ایئرلائن کے ایک پائلٹ نے صوبہ کیرالہ کے گورنر اور سابق چیف جسٹس انڈین سپریم کورٹ کو جہاز میں سوار کرانے کی ہدایت ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ تاخیر سے ایئرپورٹ آئے ہیں۔
لیکن ہماری سول ایوی ایشن کا ڈی جی تو بغیر ٹکٹ اور پاسپورٹ کے جہاز میں سوار ہو جاتا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رئیسانی کے دور حکومت میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے دوران ٹریفک جام میں پھنسی ایک خاتون رکشے میں بچہ کو جنم دے دیتی ہے تو موصوف فرماتے ہیں بچہ تو رکشے میں بھی ہو سکتا ہے اور ٹرین و ہوائی جہاز میں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
پروٹوکول، اور دکھاوا ہمارا نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے۔ شہریوں کو مصائب و پریشانیاں اور ہلاکتیں صرف وی آئی پی موومنٹ سے ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ سیاسی، سماجی، مذہبی و لسانی تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے جلسے جلوس، دھرنے، احتجاج، ریلیاں اور مظاہرے ہفتے میں کئی کئی دن شہر کے ٹریفک کو درہم برہم کیے رکھتے ہیں جن کی وجہ سے شہری گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، ایمبولینس میں مریض تڑپ رہے ہوتے ہیں، گاڑیوں کے پٹرول ختم ہو جاتے ہیں، ہوائی جہاز و ٹرینیں نکل جاتی ہیں۔
مریضوں کے آپریشن رہ جاتے ہیں، براتیں لیٹ ہو جاتی ہیں، اسی دوران بڑی شاہراہوں پر بھی ٹریفک میں پھنسے شہریوں سے کھلے عام لوٹ مار کے واقعات ہوتے ہیں۔ دس بیس افراد جب جی چاہے کوئی بھی جھنڈا یا بینر اٹھا کر روڈ کے بیچ میں آ جائیں یا چند افراد مین شاہراہوں پر موٹرسائیکل لگا کر ٹریفک روکنا شروع کر دیں، انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، بلکہ پولیس خود ٹریفک کو متبادل راستہ اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس سب کو انتظامیہ کی غفلت، نااہلی یا بے حسی کے سوا دوسرا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
بلاول بھٹو کی حفاظت پر 20 سے زائد گاڑیاں مستعد و مامور رہتی ہیں، کہیں سے گزرنے سے گھنٹوں پہلے متعلقہ مقام سیکیورٹی کے نام پر بند کر دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کے ٹھاٹھ باٹھ تحریک انصاف کے چیئرمین کے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جنھوں نے بسمہ کی ہلاکت کے واقعے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو جان کا اتنا خطرہ ہے تو وہ گھر میں بیٹھے۔ انھوں نے کے پی کے سے وی آئی پی پروٹوکول ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
ہمارے سیاستداں اور حکمراں جب انتخابی مہمات میں ہوتے ہیں تو انسانیت اور عوام دوستی کا پرچار کرتے ہیں، پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر کے سادگی وکفایت شعاری اپنانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں پر براجمان ہونے کے بعد اپنی رہائش گاہوں اور دفاتر کے آس پاس کی شاہرائیں اور علاقوں کو حفاظتی انتظامات کا نام دے کر حصار قائم کرلیتے ہیں۔ حکومت سندھ سیاسی، مذہبی اور اتحادی جماعتوں کے افراد کی سیکیورٹی پر ماہانہ 23 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے بعض مذہبی سیاسی، لسانی رہنماؤں کی سیاست اور روزی روٹی ہی اختلاف اور انتشار پر چل رہی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ہماری بہت سے جماعتوں کی غیر منتخب شخصیات و سربراہان ایوانوں سے باہر بیٹھ کر وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر اور بیوروکریسی کو احکامات و ہدایات جاری کرتے ہیں، جب جی چاہتا ہے ان سرکاری شخصیات کو اندرون و بیرون ملک طلب کر کے میٹنگ اور اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ قومی فیصلوں اور پالیسیوں میں ان غیر حکومتی شخصیات کا عمل دخل اور اثر و رسوخ زیادہ نظر آتا ہے۔ کیا ایک اسلامی یا جمہوری مملکت کی یہ ہی خصوصیات ہوتی ہیں؟ بسمہ کی موت عین جشن عید میلاد النبیؐ کے موقع پر ہوئی۔
رسولؐ اللہ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ راستے میں پڑے کنکر یا کانٹے کو بھی ہٹا دیا جائے تا کہ کسی گزرنے والے کو دشواری یا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، کوئی ایسا عمل نہ کیا جائے جس سے مخلوق خدا کو ایذا و پریشانی لاحق ہو۔ صحابہ کی درخشندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ کوئی دیومالائی کہانیاں نہیں ہیں۔
حضرت عمرؓ جن کی حدود خلافت پاکستان کے کل رقبے سے سات گنا زیادہ بڑی تھی ان کے رفاہی نظام حکومت میں مثالی جمہوریت اور اسلامی تعلیمات کی تمام خوبیاں موجود تھیں، کیونکہ ان حکمران نے آپؐ کی ذات کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنے آپ کو حب جاہ اور تمام دنیاوی آسائشوں اور راحتوں سے مبرا کرنے کے بعد اپنے گورنروں کو پابند کیا تھا کہ وہ نہ اعلیٰ نسل کے گھوڑے، نفیس لباس اور چھنا ہوا آٹا استعمال کریں گے، نہ ہی اپنے گھر کے دروازے پر چوکیدار رکھیں گے۔
اسوہ حسنہ کی کچھ جھلک ہمیں مغربی جمہوریت میں تو نظر آتی ہے لیکن ہم اس سے بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ اکابرین پاکستان کی کچھ مثالیں ہمارے سامنے ہیں، خان لیاقت علی خان کی سادگی، کفایت شعاری اور ایثار کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس شہر کے لوگوں نے گورنر حسین ہارون کو بغیر پروٹوکول اپنی گاڑی خود چلاتے دیکھا۔ وزیراعظم ملک معراج خالد کو فٹ پاتھ پر چلتے دیکھا ہے۔ حکیم سعید تو گورنر ہونے کے باوجود بچوں کے چھوٹے موٹے پروگراموں میں شرکت کرتے، اسٹول پر بیٹھ جاتے تھے، باقاعدگی سے اپنے مریضوں کا خود علاج معالجہ کرتے تھے۔
یہ سب دور کی مثالیں نہیں ہیں، عوام کے دکھوں کی دہائی دینے والے حکمران، سیاستدان اور بیورو کریٹس اگر اپنے غیر ضروری پروٹوکول اور سیکیورٹی کے لوازمات ختم کر دیں تو اس سے شہریوں کے بہت سے مصائب و تکالیف کا ازالہ ہو سکتا ہے اور اربوں روپے کی بچت بھی جسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
وی آئی پی موومنٹ اور پروٹوکول کے نام پر شہریوں کے انسانی حقوق سلب کر لینا یا سیکیورٹی کے نام پر عوامی مقامات پر فصیلیں قائم کر لینا نہ صرف انسانیت کی تذلیل ہے، بلکہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی اور بے وقعتی بھی ہے جس کی مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں بنتی۔