کیا الفاظ بھی صلیب پر چڑھتے ہیں
شیخ ایاز سندھی ادب کے افق پر چمکتا ہوا ماہتاب ہے۔ جس کی روشنی ہر دور محسوس کرتا رہے گا۔
شیخ ایاز سندھی ادب کے افق پر چمکتا ہوا ماہتاب ہے۔ جس کی روشنی ہر دور محسوس کرتا رہے گا۔ ایاز اپنے لوک ورثے، ادب اور پانچ ہزار سال کی تاریخی طاقت سے واقف تھے۔ شیخ ایاز نے اپنی شاعری و نثر کے توسط سے فطرت کے ساتھ رومانٹسزم کا انوکھا تصور دیا۔ شیخ ایاز کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا۔ ہندی، فارسی انگریزی و اردو ادب پر انھیں عبور تھا۔ سیاسی شعور و بصیرت شیخ ایاز کے شعر و نثر سے جھلکتی تھی۔ تاریخ کے غیر انسانی باب اور پامال پھرتی قدریں جا بجا ان کی تحریروں سے عیاں ہیں۔ اٹلی و جرمنی و جہان کی درندگی۔ روس کا انقلاب، یو ایس ایس آر کا انتشار اور اسی اثنا میں دو ملین انسانوں کا قتل عام اور اسی تناظر میں آمریت کی تاریخ سے بہرہ ور تھے۔
کیا الفاظ بھی صلیب پر چڑھتے ہیں؟
اگر ہاں تو پھر میری شاعری پڑھ کر دیکھو
شیخ ایاز نے ایک وکیل کی حیثیت سے اپنے پیشے کا آغاز کیا۔ وکالت کی یہ جھلک ان کی نثر و شعر میں ملتی ہے۔ دھرتی کا کیس جس طرح ایاز لڑتے رہے ہیں شاید وہ انداز کسی اور شاعر کا خاصا نہ رہا ہو۔ شیخ ایاز کا وسیع ادبی حلقہ تھا۔ جو سندھ سے ہوتا ہوا پورے پاکستان پر محیط تھا۔ سندھ کا خمیر ان کے ہر لفظ میں روح بن کے دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔
جن خیالات کی جڑیں دھرتی میں نہیں ہوتیں
وہ اس امر بیل کی طرح ہوتے ہیں
جو ہرے بھرے درخت سکھا دیتی ہیں
شاہ لطیف کی شاعری کا ترجمہ کرنے والے شیخ ایاز کہتے ہیں ''شاہ لطیف عوامی شاعر نہیں تھے۔ انھیں خاص لوگوں نے پڑھا اور ان کی ترجمانی کی۔'' یہ حقیقت ہے کہ شاہ لطیف کو بہت اعلیٰ پائے کے مترجم جیسے نقاد و ترجمہ نگاروں نے شاہ لطیف کی شاعری کو ایک نیا رخ عطا کیا۔ شاہ لطیف کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ پائے کی سمجھ، وجدانی کیفیت کی ضرورت ہے۔ مگر شاہ کی شاعری کی جڑیں دھرتی کی گہرائی میں پیوستہ ہیں۔ یہ عوامی شاعر کی پہچان ہے اور اس شاعری کی سمجھ کے لیے کسی کا فلسفی ہونا ضروری نہیں ہے۔
شیخ ایاز سے ذوالفقار علی بھٹو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یورپ سے انھیں اچھا انگریز مترجم ارینج کر کے دیں گے مگر انھیں زندگی نے مہلت نہ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ رومی، عمر خیام کو انگریز ترجمہ نگاروں نے جاوداں کر دیا، کیونکہ ترجمہ ایک فن ہے، جو ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ شعر کے ضوابط و قواعد میں تخلیقی خیال متاثر ہوتا ہے۔
شیخ ایاز کی کتابیں 'حلقہ میری زنجیر کا، دنیا ساری خواب، بوئے گل نالۂ دل' اردو ترجمے کے ساتھ دستیاب ہیں۔
شیخ ایاز نہ فقط سندھ، برصغیر بلکہ ایشیا تک کوئی دوسرا ان کے ہم پلہ شاعر دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا شاعر جو اپنے عہد کی تاریخ، ثقافت کے ساتھ دنیاوی تاریخ سے بخوبی واقف ہو۔ جس نے مشرقی و مغربی فن و فکر، ادب اور تاریخ کا اس قدر گہرائی میں جا کر مطالعہ کیا ہو۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی کے ''شیخ ایاز اپنے عصر کی آواز تھے اور انھوں نے اس آواز کو آفاقی آواز کے ساتھ اس طرح ہمکنار کر دیا کہ زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدلے، ان کی آواز ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔''
شیخ ایاز سکھر میں رہائش پذیر تھے۔ جہاں دریائے سندھ کے اندر سادھ بیلا اپنے قدیم حسن سمیت موجود ہے۔ جس کا ذکر شیخ ایاز نے اپنی کتاب ''کاک ککوریا کاپڑی'' میں کیا ہے۔ ایاز کی شاعری نے فطرت سے خوبصورت رنگ مستعار لیے ہیں۔ شاعر اگر فطرت کے ساتھ جذباتی طور پر ہم آہنگی محسوس کرتا رہے تو اس کا فن امر ہو جاتا ہے۔
یہ کائنات ایک آئینے کی طرح ہے
اس میں تم اپنا چہرہ
جتنی بار دیکھو گے اکتاؤ گے نہیں
شاعر کا فن اس وقت نکھرتا ہے جب اس پر زیادہ سے زیادہ لکھا جائے، اسے فن کی پہچان کے لیے اعلیٰ پائے کے نقادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سندھی ادب میں تنقید نگاری کی طرف توجہ کم رہی ہے۔ نقاد نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو موجود ہیں وہ دوستیاں نبھا رہے ہیں۔
ہم عصر جب تمہارے ہم اثر نہ ہو
تو دشمن بن جاتے ہیں
یہ حقیقت ہے کہ سچ و حق کی پہچان ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ جس آنکھ، دل و روح پر دنیا داری کی دھول جمی ہو۔ وہ کبھی سچے فن کو نہیں سمجھ سکتی۔ یہی رویے ہیں منافقانہ جنھوں نے ایاز کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ:
اگر کتا لومڑی کی کھال پہن لے تو کیا اس کی شناخت نہ ہو سکے گی۔
اظہار کی بے ساختگی، سچائی اور بے خوفی ان کے لیے، دو تین بار جیل جانے کا سبب بنی۔کیا سچ بھی مردہ ہو جاتا ہے،اور اسے بھی صور اسرافیل کی ضرورت پڑتی ہے۔
ایاز نے آٹھ سالوں کے عرصے پر محیط اردو شاعری کی۔ اردو کے قدیم و جدید شعرا کے فن و فکر سے بخوبی واقف ایاز نے اردو شاعری میں منفرد احساس کے ان گنت پھول کھلائے۔ مگر پھر انھیں احساس ہوا کہ جو سندھی کا رچاؤ ان کے احساس میں بسا ہوا ہے۔ وہ اس سے کہیں دور نہیں جا سکتے۔ حالانکہ اردو کا حلقہ وسیع ہے۔ پہچان اور پہنچ بھی لامحدود ہے۔ مگر ایاز نے دوبارہ سندھی میں شعر کہنے کا آغاز کیا اور ان پر اشعار کی بارش برسنے لگی۔ عمر کے آخری دور تک بے ساختہ لکھتے رہے۔
وومن ایکشن فورم نے کچھ عرصے پہلے خانہ بدوش کیفے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس فورم کے تحت سندھی، اردو اور غیر ملکی ادب پر جابجا مذاکرے ہوتے رہے ہیں۔ خانہ بدوش کی ٹیم کی کوششوں و کاوشوں کی بدولت حیدر آباد میں آٹھ دنوں پر مشتمل ایاز میلہ ختم ہوا ہے۔
اس میلے کے تحت ایک سیشن میں ایاز کے خاندان کے افراد نے پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ ماضی کے اوراق کھلے تو ایاز کے مداحوں کے سامنے کئی چھپے ہوئے رخ سامنے آئے۔ ایاز کی بیٹی ڈاکٹر روحی نے والد کی سی بے باکی سے سچی کھری باتیں کر کے سردی کے موسم کو شعلہ جوالا بنا دیا۔ ان کی بیٹی یاسمین اور فرزند مونس ایاز نے بھی شبنمی لہجے میں والد کو خراج عقیدت پیش کیا۔
سندھ میں جدید شاعری کی بنیاد ڈالنے والے اس شاعر نے منفرد موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ سندھ اور شیخ ایاز کا حوالہ لازم و ملزوم ہے۔ سندھ کے نئی نسل کے نمایندہ شاعر آج ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اہل سندھ، ان کی شاعری و نثر کے توسط سے پوری دنیا سے متعارف ہوئے ہیں۔ ایک روایتی ماحول میں انھوں نے بین الاقوامی مناظر کی طرف کھڑکی کھول کے سندھ کی کئی نسلوں کو ہمہ جہت سوچ عطا کی ہے۔
رگ وید میں لکھا ہے کہ
''اے سندھو! اورن دیوتا نے
تیرے بہاؤ کے لیے
کئی راستے بنائے ہیں
اور ہاں ان میں سے ایک
راستہ میری شاعری بھی ہے