ایک گٹکاخور کا نوحہ

گٹکا کھانے سے یادداشت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (جیب پر ہلکا سا اثر پڑتا ہے، اپنی نہیں دوسروں کی) انسان نارمل رہتا ہے۔


شکیل صدیقی January 01, 2016

KARACHI: لوگوں کو تو بات کا بتنگڑ بنانے کا شوق ہوتا ہے۔ ذرا سا کچھ ہوا، لے کر اڑنے لگے۔ اب گٹکے کو ہی لے لیجیے۔ میں جان محمد، عرف جانو گٹکا کھانے کا شوقین ہوں۔ اسے کھانے سے دماغ کھویا کھویا سا رہتا ہے۔ مدہوشی طاری رہتی ہے اور میں تھوڑی دیر بعد اپنے غموں کو پیچھے چھوڑ کر دوسری دنیا میں پہنچ جاتا ہوں۔

جہاں کی ہر چیز انوکھی اور ناقابلِ بیان ہے۔ مجھ پر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے جو اس وقت تک نہیں اترتا جب تک منہ میں دبا ہوا گٹکا ختم نہیں ہو جاتا یا ماں پیٹھ پر چمٹا مار کر یہ نہیں کہتی کہ جا کر پودینہ اور املی لے آ۔ آج کھچڑی بنانی ہے۔ میں ہڑبڑا کر اپنی جنت سے اسی جہنم میں واپس آ جاتا ہوں۔

ماں کہتی ہے کہ میں گٹکا نہ کھایا کروں، دیکھنے والوں کو دانت خراب لگتے ہیں، میری دوسری چیزیں کون سی اچھی ہیں، پھر دانتوں کا کیا غم؟ ویسے بھی مجھے کوئی فلمی اداکار نہیں بننا ہے۔ دراصل وہ میری شادی کی فکر میں رہتی ہیں۔ رشتے لگائے گئے، لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وجہ میری پرسنالٹی تھی۔ میں کرتا پاجامے میں رہتا تھا، جس سے پرسنالٹی پر اثر پڑتا تھا۔

باقی داغ دھبے گٹکے سے پڑ جاتے تھے، مگر مجھے کوئی فکر نہ تھی۔ اس لیے کہ میں کارپوریشن میں کلرک تھا اور دن بھر فائلیں سرکاتا رہتا، چائے پیتا اور گٹکا کھاتا رہتا تھا۔ قسم لے لیجیے جو اپنے پیسوں سے گٹکا کھایا ہو۔ یہ جو فائلیں سرکانے میں جو کچھ مل جاتا ہے وہی کام آتا ہے۔ سرکاری آفس میں کلرک جو فائلیں سرکاتا ہے اس کی بھی تو حصے داری ہوتی ہے۔

بات تو آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ اس لیے میں اپنی بک بک کو طوالت نہیں دینا چاہتا۔بستی کے دوسرے آوارہ گرد لونڈوں کی طرح کچی (ٹھّرا) میں نہیں پیتا، افیون سے مجھے شوق نہیں ہے، ایل ایس ڈی میں نہیں لیتا، گانجا اور چرس سے میں دور رہتا ہوں۔ اگر دل بہلانے اور خود پر سرور طاری رکھنے کے لیے گٹکا کھا لیتا ہوں تو تعزیرات ِپاکستان کی کس دفعہ کے تحت میں جرم کرتا ہوں؟ مجھ میں اور میرے ان ساتھیوں میں کیا برائی ہے جو گٹکا کھاتے ہیں؟ گٹکا اتنا نشہ آور نہیںہوتا کہ برائی اور اچھائی کی تمیز ختم ہو جائے۔ آدمی اپنے آپے میں نہ رہے۔ میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے دوسروں کی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگوں۔

بات تو آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ تو پھر گٹکا خوروں کو گھگو گھوڑا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ انھیں بھی معاشرے میں اتنی ہی جگہ ملنی چاہیے جتنی چسکی لگانے والوں کو۔میں قانون کے محافظوں سے نالاں نہیں ہوں۔ ان سے تو بہرحال سب کو بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔ گٹکا کھانے والوں کو کوئی گرفتار بھی نہیں کرتا، البتہ گٹکا فیکٹریوں پر وہ آئے دن چھاپہ مارتے رہتے ہیں اور انھیں بند کر دیتے ہیں۔ ایک دو نہیں، درجنوں۔ بستی کے باہر فیکٹریاں اسی لیے لگائی جاتی ہیں کہ اگر یہ کوئی غیرقانونی بات ہے تو شہری قوانین کا اطلاق وہاں نہ ہو۔ بہرحال گٹکا میکر بھی تھوڑی سی عقل و خرد کے مالک ہیں۔ وردی والوں سے ان کی اٹی شٹی ہے۔

وہ ان کی جیبوں میں ان کا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوتی۔ چھپا پڑتا ہے تو مجرم'' فرار'' ہو جاتے ہیں (یا کرا دیے جاتے ہیں۔ واللہ ہو عالم بصواب)۔پھر مجھے یا مجھ جیسوں کو کیا پریشانی ہے؟ مجھے نوحہ سنانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ دراصل جتنے دنوں کے لیے فیکٹریاں بند رہتی ہیں۔ دماغ بند بند سا ہو جاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ سامنے والا بات کرتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے۔ آواز سماعت تک تو پہنچتی ہے، لیکن دماغ مفہوم اخذ نہیں کر پاتا۔ گٹکا دماغ کو چالو رکھتا ہے، بلکہ پھرکنی بنائے رکھتا ہے۔

اب آپ سے کیا پردہ کہ سارے اعصاب ہی چوکنا ہو جاتے ہیں۔ ہاتھوں پیروں میں مستعدی رہتی ہے اور انسان متحرک رہتا ہے، کیونکہ گٹکا اسے تحریک دیتا رہتا ہے۔ آنکھیں پھٹی پھٹی سی رہتی ہیں اور کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوتا ہے۔اب آپ گٹکے کو لیبارٹری میں لے جا کر ٹیسٹ نہ کرنے بیٹھ جایے گا۔ وہاں سے تو پہلے ہی ہولناک بلکہ ہلاکت خیز رپورٹیں آ رہی ہیں کہ اس میں کیڑے والی چھالیا، جانوروں کا خون، بیٹری کا پانی (کون سی بیٹری؟ جس سے کاریں اور لوڈنگ ٹرک چلتے ہیں) مضر صحت تمباکو، زبان کو کاٹنے والا چونا اورگھٹیا درجے کا کتھا اور ایسی ویسی چیزیں استعمال ہوتی ہیں، جو جانداروں کے کھانے کے لائق نہیں ہوتیں، وغیرہ۔

بات تو آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ یہ ساری نامعقولانہ باتیں اس لیے پھیلائی جاتی ہیں کہ عام آدمی گٹکے کی طرف نہ جائے اور اسے ترک کر بیٹھے۔ اپنا دماغ تو اسے چوکنا رکھنا ہے۔ وہ دوسری طرف چلا جائے گا یعنی کچی کی تلاش میں رہے گا اور پھیپھڑے تباہ کر ڈالے گا۔

یہ بات توآپ کے علم میں بھی ہو گی کہ گٹکا کھانے والوں کو کوئی ''بڑی'' بیماری نہیں ہوتی۔ دوسروں کی طرح وہ خوش و خرم رہتے ہیں (بلکہ چاق وچوبند بھی) لیکن کچی (ٹھّرا) پینے والوں کے پھیپھڑے متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ وقت سے پہلے دنیا سے ٹہل جاتے ہیں۔ ان کے والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ کبھی اچھے طالب علم نہیں رہے اور انھوں نے اچھے تو کیا برے نمبروں سے دسواں پاس نہیں کیا۔ جب کہ گٹکا کھانے والوں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔

گٹکا کھانے سے یادداشت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (جیب پر ہلکا سا اثر پڑتا ہے، اپنی نہیں دوسروں کی) انسان نارمل رہتا ہے۔ کچی پینے والوں کو معاشرے میں کوئی جگہ نہیں دیتا۔ سب حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اپنے پاس کوئی نہیں بٹھاتا۔ ایل ایس ڈی، راکٹ اور ہیروئین پینے والوں کے بارے میں بھی آپ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے۔نشہ کر کے نشیڑی ندی کے کنارے پڑے رہتے ہیں۔

دلیل و منطق سے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کیوں لگا ہوا ہوں کہ باقی چیزیں نشہ ہیں اور گٹکا نشہ نہیں ہے۔ ممکن ہے مضر صحت ہو، مگر اس بارے میں کوئی ہولناک رپورٹ میں نے اردو میں نہیں پڑھی۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ گٹکا کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا تو پھر اس کی فیکٹریوں پر چھاپا کیوں مارا جاتا ہے؟ اور ہم گٹکا خوروں کو اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے؟

گٹکا خوروں کو گھگو گھوڑاسمجھنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ برے معنوں میں ایسے لوگوں کی کوئی تصویر اخباروں میں نہیں دکھا سکتے۔ یہ خبر نہیں پڑھوا سکتے کہ چارگٹکا خوروں کو پولیس نے گرفتارکر لیا ان کے پاس سے وافر مقدار میں گٹکا برآمد ہوا۔ البتہ نشے بازوں کی تصاویر آئے دن شایع ہوتی رہتی ہیں۔ بوتلوں کی تصاویر اس لیے شایع نہیں ہوتیں کہ محکمۂ انسداد مئے فروشاں کے عہدے داروں کا کلیجہ گرم کرنے کے کام آ جاتی ہیں۔

......

یہ مضمون پڑھتے وقت یقیناً آپ کو خیال آ رہا ہو گا کہ میں گٹکا خوروں کا کوئی ایجنٹ ہوں اور ان کی مشہوری کے لیے میدان عمل میں آ گیا ہوں یا پھر میں نے ان سے کچھ پیسے پکڑ لیے ہیںاور ان کی پبلسٹی کر رہا ہوں، اس لیے کہ بستی آفت نگر میں مجھ جتنا پڑھا لکھا کوئی ہے ہی نہیں۔ آپ کے سر عزیز کی قسم ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میری شادی نہ ہونے پر اماں چونکہ ہر وقت پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں، اس لیے انھیں سمجھانے کی غرض سے میںاپنی عرض شایع کرا رہا ہوں۔

چلتے چلتے ایک خوش خبری سنتے جائیے کہ میرا رشتہ اچھے لوگوں میں ہو گیا ہے۔ کماتے کھاتے ہیں۔ انھوں نے جب یہ سنا کہ میں سرکاری ملازم ہوں تو فوراً تیار ہو گئے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے مٹھائی منگوا کر سب کا منہ میٹھا کروا دیا اور بات پکی کر دی ۔ اماں سے کہتے گئے کہ آیندہ چاند برات لے کر آ جائیے گا۔ اس کو اسے کہتے ہیں ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آ گیا۔ تھوڑی سی حیرت آپ کو بھی ہو رہی ہو گی اور دم بخود ہوں گے۔ ٹھیریے میں سسپنس ختم کیے دیتا ہوں۔ دراصل لڑکی کے ابا کی دو گٹکا فیکٹریاں ہیں اور وہ گٹکا کھانے والوں کو ضرورت سے زیادہ عزت دیتے ہیں اور گھگو گھوڑا بھی نہیں سمجھتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں