2016 کے لیے عزائم

آپریشن ضرب عضب جو ہم نے 2015ء میں شروع کیا تا کہ معاشرے کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائی جا سکے۔


اکرام سہگل January 02, 2016

آپریشن ضرب عضب جو ہم نے 2015ء میں شروع کیا تا کہ معاشرے کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائی جا سکے۔ کراچی میں عسکریت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا جب کہ 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں ہونیوالے دہشت گردی کے ہولناک واقعے کے ہمارے ذہن پر اثرات اب بھی موجود ہیں۔

ہم نے 2015ء کا سال اس امید کے ساتھ ختم کیا ہے کہ اب اس اندھیری سرنگ سے باہر نکل آئیں گے جو ہماری سال ہا سال کی غلط پالیسیوں اور بری گورننس کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ ہم گوناگوں مصائب کے اس چنگل سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔

یہاں مجھے امریکی دانشور رابرٹ فراسٹ کا یہ جملہ یاد آ رہا ہے کہ ''ہمیں ابھی خاصہ طویل سفر طے کرنا ہے اور دہشت گردی کی تمام اشکال کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر سختی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔'' مسلح افواج اپنے اس عزم پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ ہر قسم کی عسکریت پسندی خواہ وہ سیاست کے لبادے میں ہو یا مذہب کی آڑ میں اس کا پوری قوت سے قلع قمع کرنا ہے۔ اب نئے سال 2016ء کے آغاز پر اپنی آئینی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے تو جنرل مشرف نے اپنا بدنام زمانہ این آر او نافذ کیا جس کو زرداری کے صدارتی عرصے نے مزید تقویت دی۔

کرپشن کا منظم جرائم اور دہشت گردی سے گٹھ جوڑ ایک حقیقت ہے۔ دہشت گردی کے لیے مالی امداد فلاحی سرگرمیوں کے بھیس میں بھی دی جاتی ہے تا کہ ظاہری طور پر ایسا نظر آئے جیسے یہ رقوم صنعت و تجارت کے منافع میں حاصل کی جا رہی ہے۔ ہمیں ان حاصل ہونے والی رقوم کو کرپشن کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر حاصل ہونے والی رقم سے علیحدہ رکھنا ہو گا۔

جن رقوم سے دہشت گردی کو ہوا دی جاتی ہے ان کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کا خون بہتا ہے لہٰذا انھیں ''صوبائی خود مختاری'' کے نام پر ہر گز قانونی شکل دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے اعلیٰ سوسائٹی کے تمام اثاثوں کا بھی غیر جانبدارانہ طور پر احتساب ہونا چاہیے اور اس ضمن میں کسی سے کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے۔

اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی کی دولت دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اسے ضبط کر لینا چاہیے۔ ہمارے جو منتخب نمایندے اس قسم کے احتساب کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل جمہوری بیہودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو عوامی خواہشات کا نمایندہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے انصاف کے مناصب پر بیٹھنے والے اس جانب سے چشم پوشی کر سکتے ہیں؟ سرکاری عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا دائیں بائیں جھولنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ ن نے اس بات کا عزم کر رکھا ہے کہ وہ اس قسم کے معاملات کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے دونوں بڑی سیاسی طاقتوں کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ باری باری اقتدار میں آتی ہیں تاہم اب یہ بات ماضی کا حصہ بن جائے گی۔ مسلم لیگ ن نے چونکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کر رکھا ہے لہٰذا انھیں اس عزم کو کسی صورت ترک نہیں کرنا چاہیے خواہ اس میں ان کے اپنے لوگ بھی کیوں نہ شامل ہوں۔

عوام کے شکوک و شبہات تب ہی رفع ہونگے جب غلط کاروں کے خلاف سخت کارروائی لوگوں کو نظر آئے گی۔ اس ضمن میں تاخیری حربے ہر گز استعمال نہیں کیے جانے چاہیں۔ فی الوقت سول ملٹری تعلقات بہت شاندار ہیں جن کو قائم رکھا جانا چاہیے جو کہ جمہوری عمل کے لیے ضروری ہے۔ اس بارے میں اگر کوئی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں تو ان تعلقات میں دراڑ آ سکتی ہے۔

آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہم ایک پائیدار جمہوریت قائم کر سکتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اور آرمی کو قوم کی بھلائی کے لیے خود کو بے رحم احتساب کی راہ سے گزارنا چاہیے تا کہ ان کو اعلیٰ اخلاقی درجہ حاصل ہو سکے جو کہ کرپشن کے خلاف جاری عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک بدعنوان شخص خواہ وہ کسی منصب پر فائز ہو اس کو غلط اقدامات کا ذمے دار ٹھہرانا چاہیے اور صرف اس وجہ سے اسے بچ کر نکلنے کے لیے راستہ نہیں دینا چاہیے کہ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

ان مجرمانہ کردار کے لوگوں کے پاس ایسے ذرایع اور طریقے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو صاف شفاف بنا کر پیش کر سکتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو آخر میں ایک نئی سیاسی پارٹی بھی قائم کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کے احتساب کے لیے سالوں پیچھے جا کر ان کی چھان بین کی جانی چاہیے کیونکہ صرف موجودہ حالات سے ان کا صحیح تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔

چین کے ساتھ ہمارا تعلق بہت مضبوط ہے۔ بیرونی قومی سلامتی کے معاملات پر سول اور ملٹری لیڈر شپ ایک ہی صفحے پر ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ بھارت' افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی ان کی سوچ یکساں ہے۔ جہاں تک امریکا' روس اور دیگر عالمی طاقتوں کا ذکر ہے تو اس بارے میں بھی خیالات میں مکمل یکسانیت ہے۔ بزعم خویش دانشوری کا دعوی کرنے والے اگر مختلف اور متضاد خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ہمیں آنکھیں بند کر کے ان کے تجزیوں کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

اس میں بعض متکبر سابق سفارتکار بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ملازمت کے دوران اپنے آقاؤں کی غلامانہ انداز میں خدمت کی لیکن اب وہ خارجہ پالیسی کے ناقد بنے ہوئے ہیں حالانکہ ہماری حالیہ خارجہ پالیسی کی کامیابی اظہر من الشمس ہے جس سے ظاہر ہو گیا ہے کہ جراتمندانہ فیصلوں کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے۔ 1971ء کے سقوط ڈھاکا کے بعد لوگ صوبوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہو گئے ہیں حالانکہ یہ ملک کرپشن کی وجہ سے نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کی وجہ حقوق دینے سے انکار اور امتیازی سلوک تھا۔ دنیا کا کوئی آئین کرپشن کو تحفظ نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کرپٹ شخص کو وفاق کی یک جہتی کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔

جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے حوالے سے بعض قانونی ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد غلط حکمرانی کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے جو لوگ صوبائی خود مختاری کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے قائل نہیں ہیں وہ سب کچھ خود حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے ساتھ ہی دبئی میں عالیشان بنگلے اور لندن اور نیو یارک میں قیمتی رہائش گاہیں بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ اختیارات کی مرکزیت ختم کر کے اختیارات کو عام شہریوں تک پہنچانا چاہیے تا کہ اپنے فیصلے وہ خود کر سکیں اور مقامی تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل کر سکیں۔

ہر جرم کا قانون کتابوں میں نہیں لکھا جا سکتا۔ کیا مردم خوروں کے بارے میں کوئی قانون موجود ہے؟ کیونکہ یہ ناقابل تصور جرم ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ اہمیت قانون کی حکمرانی کو دینی چاہیے۔ ہر نیا سال اپنے ساتھ امیدیں لے کر آتا ہے جیسے تازہ ہوا کا جھونکا۔ ہمیں اپنی امیدوں کی بھی حفاظت کرنی چاہیے اور مایوسی کا ہر گز شکار نہیں ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں