ادب سیاست اور شرافت
اس تقریب کے مہمان خصوصی نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل راجہ علی اعجاز ہوں گے
آج جو شخصیت میرے کالم کا مقصد ہے وہ ذرا فلم سے ہٹ کر ہے۔اس شخصیت کا تعلق سب سے پہلے تو فن خطابت سے ہے پھر سیاست اور پھر علم و ادب سے ہے اور علم وادب بھی اب فلم سے لاتعلق نہیں ہے ۔
بات جس شخصیت کی ہو رہی تھی پچھلے دنوں کیلی فورنیا سے اس کا فون آیا میں نے فون اٹھایا دوسری طرف سے آواز آئی میں دوست محمد فیضی بول رہا ہوں کیا یونس ہمدم صاحب سے بات ہوسکتی ہے۔ میں نے نام سنتے ہی بے ساختہ کہا۔ ارے بھئی فیضی صاحب! آپ کی پاکستان سے کب ہجرت ہوئی۔ کہیے کب ملاقات ہورہی ہے۔ نیو جرسی، نیویارک کب آرہے ہیں۔ وہ بولے ایک ہفتے کے بعد میں کیلی فورنیا سے نیویارک آؤں گا اور پھر اسی ہفتے میری کتاب ''اظہار خیال'' کی نیویارک میں تقریب پذیرائی ہے۔مجھے آپ کا نمبر بھابی نیلوفر عباسی سے ملا ہے۔
اور وہی میری کتاب کی تقریب کی میزبان ہیں، میں نے نیویارک آنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ آپ کو تقریب میں شرکت کی دعوت دوں، میری خواہش ہے کہ آپ میری کتاب جو میرے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے اس کے بارے اور کچھ میرے بارے میں بھی کہنے کے لیے پہلے سے تیار رہیں، باقی تفصیل نیلوفر بھابی فون کرکے بتا دیں گی اور مزید باتیں بھی آپ سے اگلی ملاقات پر ہوں گی۔ پھر اسی رات 10 بجے ہمارے دیرینہ دوست اورکرم فرما قمرعلی عباسی مرحوم کی بیگم نیلوفر عباسی صاحبہ نے فون کرکے بتایا کہ فیضی صاحب ہمارے مرحوم شوہر کے بہت ہی قریبی اور ہر دلعزیز دوستوں میں شامل ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ یہ ہماری فیملی کے ایک فرد ہی کی طرح ہیں۔
نیلوفر عباسی جو اپنے وقت کی خود ایک نامور ٹی وی آرٹسٹ رہ چکی ہیں اور نیویارک میں بھی ادبی، سماجی اور ثقافتی تقریبات میں سرگرمی کے ساتھ شرکت کرتی ہیں انھوں نے نیویارک میں اپنے شوہر کی خدمات کو تازہ رکھنے کے لیے قمر علی عباسی ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی ہے اور اس ادارے کے تحت دوست محمد فیضی کی کتاب ''اظہار خیال'' کی تقریب کا انعقاد بڑے شاندار پیمانے پر پہلی بار کیا جا رہا ہے۔ تقریب کے تمام انتظامات ہوچکے ہیں۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل راجہ علی اعجاز ہوں گے اور مذکورہ تقریب میں نیویارک ''نیوجرسی'' اور قریبی ریاست پنسلوانیا تک سے نکلنے والے تمام اردو اخبارات کے مدیران، صحافی و کالم نگار خصوصی طور پر شرکت کر رہے ہیں۔ جب ہم اس تقریب میں شرکت کی غرض سے نیویارک کی کوئنز لائبریری آڈیٹوریم میں پہنچے وہاں خواتین وحضرات کی ایک کثیر تعداد موجود تھی، فیضی صاحب کی کتاب ''اظہار خیال'' کے بارے میں اظہارخیال کی غرض سے بھی وہاں بہت سی جانی پہچانی ادبی اور اخباری دنیا کی مشہور شخصیات موجود تھیں۔
اس تقریب میں دوست محمد فیضی اپنی بیگم خالدہ فیضی کے ساتھ شریک تھے اور دونوں ہی قمر علی عباسی مرحوم کی دیرینہ دوستی اور ان کی محبت و شفقت کا تذکرہ کرتے ہوئے جذباتی سے ہوگئے تھے ،کچھ دیر کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض جواں سال شاعر اور نیویارک میں پہلی اردو کانفرنس کے روح رواں رئیس وارثی ادا کر رہے تھے مذکورہ تقریب میں دلچسپ بات یہ تھی کہ مردوں سے زیادہ عورتوں کی تعداد تھی۔
دوست محمد فیضی کے لیے بھی یہ امر باعث خوشی تھا کہ ان کی کتاب کی تقریب میں بعض ایسے پرانے دوستوں نے بھی شرکت کی تھی، جن کے ان کے ساتھ بڑے دیرینہ مراسم تھے اور وہ پچیس تیس سال سے امریکا میں مقیم تھے اور اب وہ ایک طویل عرصے کے بعد نہ صرف دوست محمد فیضی سے مل رہے تھے بلکہ ان سے اپنی یادیں بھی شیئر کر رہے تھے۔
چند مقررین کے بعد مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی میں اس سے پہلے جب بھی دو سال کے بعد کراچی گیا تو فیضی صاحب سے میری ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں بلکہ فیضی صاحب گزشتہ چھ سال کے دوران میری کتابوں 'کسک، دشت احساس اور 'بات ہے برداشت کی' کی کراچی میں منعقد ہونے والی تقریبات میں بھی شرکت کرچکے تھے اور اب یہ مجھ پر ان کی محبتوں کا ایک قرض تھا کہ میں بھی اس تقریب میں ان کی کتاب اور ان کی شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کروں، میرے فیضی صاحب سے اس زمانے کے مراسم ہیں جب میں اسلامیہ کالج کا طالب علم تھا اور دوست محمد فیضی نیشنل کالج کے اسٹوڈنٹ اور مشہور ڈبیٹر تھے میں ان دنوں طلبا کی تنظیم ڈیموکریٹکس اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے منسلک تھا جس کے روح رواں معراج محمد خان تھے اور دوست محمد فیضی جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ تھے۔
اس دوران اور اس دور میں کراچی کی سیاست ہو یا علم و ادب کا میدان، دو مقررین کی خطابت کا جادوکراچی میں سر چڑھ کر بولتا تھا۔ اور یہ دو شخصیات معراج محمد خان اور دوست محمد فیضی کی ہوتی تھیں۔ اور یہ دونوں الفاظ کے جادوگر اور گفتار کے غازی کہلاتے تھے۔ وہ جنرل ایوب کی آمریت کا دور تھا۔
اس دور میں معراج محمد خان کو شعلہ بیان مقرر کا خطاب دیا گیا تھا۔ معراج محمد خان جب بھی کسی اسٹیج پر آتے تھے اور جب وہ اپنی تقریر کے دوران اپنی قمیض کے بٹن کھولتے تھے اور اپنی قمیض کی آستینیں چڑھانا شروع کرتے تھے اور ان کی خطابت کا نشانہ آمرانہ حکومت اور سامراجی نظام ہوتا تھا اور جب الفاظ شعلہ باری کا بھرپور انداز اختیار کرلیتے تھے تو پھر پولیس آجاتی تھی اور بعد کا منظر وہی ہوتا تھا جو ہر آمرانہ حکومت کے دور میں ہوتا رہا ہے۔ دوسری شخصیت دوست محمد فیضی کی ہوتی تھی۔
ان کی تقریر کا انداز بھی لوہے پر چوٹ مارنے کے مترادف تو ہوتا تھا مگر ان کی گفتگو میں شعلہ باری کے بجائے فلسفہ اور دلیل کی شبنم محسوس ہوتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ فوجی حکومت کو زوال آیا۔ جمہوری حکومت آگئی اور نواز شریف نے مسلم لیگ کو اپنالیا۔ نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور دوست محمد فیضی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
یہ زبردست مقرر تھے علم و ادب سے بھی گہرا تعلق تھا پھر ان کی ذہانت کی سیاست کو بھی ضرورت تھی پھر یہ سیاسی میدان میں آئے اور اپنی خطابت اور ذہانت کے ذریعے سیاست کے آسمان پر چھاتے چلے گئے اس دوران کئی بار وزیر بھی بنائے گئے مشیر بھی بنائے گئے اور جب یہ پہلی بار صوبائی وزیر عشر و زکوٰۃ ہوئے اور کراچی میں انھیں بحیثیت وزیر اپنا دفتر الاٹ ہوا تھا ایک دیرینہ دوست کے ناتے سے ہم بھی ملے ان کے دفتر گئے اپنے نام کی پرچی اندر بھجوائی۔ ہمیں یہ گمان کہ ہمارے نام کی پرچی دیکھتے ہی ہمیں اندر بلائیں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔ ہم سے پہلے آئے ہوئے لوگوں کو باری باری اندر بلایا گیا۔
اور پھر بڑے انتظار اور بڑی دیر کے بعد ہمیں بھی بلایا گیا ۔ فیضی صاحب نے ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ یار ہمدم صاحب! کچھ لوگ پہلے آئے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا جو پہلے آئے ہیں پہلے انھیں بلالوں۔ تم تو ہمارے دوست ہو۔ دیر تک بیٹھو گے اور ہم دیر تک باتیں کریں گے۔ میرے پاس بھی جواب میں مسکراہٹ ہی ضروری تھی کہ دوست محمد فیضی واقعی اصول پسند آدمی ہیں اور یہ ایک اچھی بات تھی۔ پھر یہ جب بھی وزیر بنتے تھے تو ان کے دوستوں کی تعداد میں کمی اور دشمنوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی کیونکہ یہ کسی کا بھی کوئی غلط کام نہیں کرتے تھے۔ اور غلط کام کرنا ان کی لغت ہی میں نہیں تھا۔
بعض اوقات ان کی خاندانی شرافت اور اصول پسندی کی وجہ سے وزارت ان سے جلد ہی چھٹکارا حاصل کرلیتی تھی اور کوئی وزارت جب ان پر بوجھ بن جاتی تھی اور ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹکی رہتی تھی تو دوست محمد فیضی خود ہی کچھ عرصے بعد اکتا کر اس وزارت سے سبکدوش ہوجایا کرتے تھے، یہ جب تک وزارت میں رہتے تھے تو اس دوران دکھی پریم نگری بنے رہتے تھے اور یہ جیسے ہی کسی وزارت سے فارغ ہوتے تھے تو صوفی تبسم ہوجایا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ سیاست میں رہتے ہوئے سیاست ان کی رقیب رہی اور پھر انھوں نے حکمرانوں کی لوٹ مار، سیاست دانوں کی کجروی سے دل برداشتہ ہوکر آخر ایک دن سیاست سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ آخر میں دو شعر کہہ کر میں نے دوست محمد فیضی کی سیاست سے دست برداری کا پس منظر پیش کرتے ہوئے اپنی یادوں کو سمیٹ لیا تھا:
یہ فیضی ہے بسی جس میں شرافت
محبت اور مروت کا ہے پیکر
یہ کہہ کر چھوڑ دی جس نے سیاست
کہ رہزن بن گئے ہیں آج رہبر