آخر کب تک
مجمع یا بھیڑ، جہاں انسان اپنی شناخت خود کھو دیتا ہے اور ایسے جنگل کا باسی بن جاتا ہے
NEW DELHI:
مجمع یا بھیڑ، جہاں انسان اپنی شناخت خود کھو دیتا ہے اور ایسے جنگل کا باسی بن جاتا ہے جہاں نہ سر نہ پیر، یہی حال آج کل ہماری سڑکوں کا بھی ہے، ٹریفک ایک اژدھا بنتا جارہا ہے جس کو کوئی دیکھنے کو تیار نہیں اور ان ٹریفک کے مسائل کے ساتھ جس چیز نے تباہی مچاتی ہے وہ ہے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر، پوش علاقوں سے غریب علاقوں تک، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میں گندگی کے ڈھیر نہ نظر آتے ہوں، بڑی بڑی گاڑیوں کے مالکان گندے پانی کے تالابوں سے مزے سے گزر رہے ہوتے ہیں گاڑیوں میں کھاتے پیتے لوگ شیشے اتار کر مزے سے ریپر یا پان کی پیک چلتی گاڑیوں سے سڑک کی زینت بناتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
اور شہر ہے کہ گندگی کا ڈھیر ہی بنتا جا رہا ہے۔ ابلتے ہوئے گٹر جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نے شہر کی خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پودے اور درخت بے شمار لگتے اور پلوشن کو کم کیا جانے کے بارے میں پلاننگ ہوتی، زیادہ سے زیادہ شہر کو گرین بنایا جائے، لوگوں کو پودے اور درخت لگانے کی ترغیب دی جائے، پچھلی گرمیوں میں جو سخت گرم ترین اثرات موسم نے دیے اور جس کی وجہ سے بے شمار جانی اموات ہوئی ان سے سبق لینا نہایت ضروری ہے۔
جگہ جگہ سبزے کو اگانے کے لیے ترغیب اور عوام کو اس بارے میں سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہے اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر اب بھی ہم نے ان پر کام نہیں کیا تو یہ صرف اور صرف ہماری جہالت ہوگی۔ آخر کب تک ہم اندھیروں والی زندگی گزاریں گے اور آخر کب ہماری سمت درست ہوگی۔
خالی جھوٹے وعدوں، بڑی بڑی باتوں سے کب تک ہم اور آپ بہلتے رہیں گے اور کب تک ایک آدمی سفر کرتا رہے گا، کبھی گندگی سے کبھی موسم کی سختی سے کبھی بارشوں میں صحیح انتظامات نہ ہونے سے۔ چہرے بدلیں پالیسیاں بھی بدل جائیں اور ادارے کمزور ہوجائیں اور شخصیات مضبوط و توانا اور ملک کمزور، کیا پایا اور کیا کھویا؟ سمت کا صحیح تعین نہیں ہونا کب تک عوام چیختے چلاتے رہیں گے اور کب تک ہم سب خاموشی سے ایک دوسرے کے چہروں کو تکتے رہیں گے۔
ابھی حال ہی میں ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کا انعقاد ہوا اور لوگوں نے نچلی سطح پر ترقیاتی کاموں کے لیے اپنے نمایندوں کا انتخاب کیا ایک مرتبہ پھر ہم دیکھیں گے کہ یہ منتخب ارکان کس حد تک عوام کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ ان آزمائے ہوئے لوگوں کو پھر سے آزمانا اور خواہش رکھنا کہ اب شاید یہ لوگ وطن کی گلیوں کے لیے، صحت مند فضا کے لیے، گندگی و غلاظت سے نجات کے لیے بہتر اقدامات کریں۔''امید سحر'' تو رکھنی ہی پڑے گی کہ اگر اندھیرا ہے تو اجالا بھی آئے گا۔
اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور ہم صرف اجالوں کے متلاشی بن جائیں۔2015 گزر گیا اور ہم 2016 میں داخل ہو چکے ہیں، جو گزر گیا وہ گزر گیا نئے دنوں سے نئی امیدیں پھر سے کروٹیں لے رہی ہیں اور دعا یہی ہے کہ اللہ ہم سب پر ہدایت کے اور رحمت کے دروازے کھول دے آمین۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم انسانوں سے مکمل مایوس ہوتے ہیں تو پھر دل و دماغ اللہ سے مدد کے لیے آخری راستہ دکھاتا ہے، ہمیں ہر شعبے اور ہر ادارے کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنا ہوگا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا کہ یہی مناسب اور ٹھیک ہوگا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ ملنے سے اچھا ہے کہ ایکشن ہو اور ظلم و کفر دونوں سے بہتر انداز سے نمٹا جائے۔ حالیہ دنوں میں اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ترکی کی مثال ہمارے سامنے بہتر نظر آتی ہے۔
ترکی میں سیاست دان بولتے کم اور کام زیادہ کرتے نظر آتے ہیں ہاسٹلز میں نوجوان نسل کی ایسی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ وہاں سے محب وطن بن کر نکلتے ہیں۔ انھیں اپنی ذات یا جماعت سے زیادہ ملک اور ملت کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ ترکی کے حکمران نے بدعنوانی سے بچتے ہوئے فلاح و بہبود کے ایسے کام کیے ہیں کہ ترقی یافتہ فلاحی ریاستوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ترکی کے اردگان کہتے ہیں کہ عوام سے ووٹ نہیں مانگو بس اپنی قابلیت اور ذہانت اور دیانت ثابت کردو تمہیں کبھی ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نئے سال کے ساتھ ساتھ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اقدار، مساوات اور انصاف کے اصول ابدی ہیں، کیلنڈر کے ساتھ وہ بدل نہیں جاتے۔
بے حسی اور بدحواسی کے جو گہرے سائے ہم پر پڑے ہیں وہ اتارنا ضروری ہے۔ قوم حساس نہ ہو تو وہ زندہ رہنے کا حق کھو دیتی ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں کے لیے پریشان، حد ہے کہ ان 70 سال میں صاف پینے کا پانی ابھی تک خواب، ترقی ہو رہی ہے اور ملک میں موٹر ویز کا جال بچھایا جا رہا ہے ایسا ہی سن رہے ہیں اور موٹر ویز سے ہم ترقی یافتہ ہوجائیں گے ایک عام آدمی کی ضروریات پوری ہوجائیں گی تو پھر کیا کہنے! دکھوں اور تکلیفوں سے لوگ ایسے مر رہے ہیں کہ پروٹوکول بھی اب انسانوں پر بھاری ہے، ٹیبل نیپکن ضروری ہوتا ہے کھانا ہو یا نہ ہو انسانوں کے اس ہجوم میں زندگی و موت ایک تماشا بن کر رہ گئی ہے۔
اتنی حقیر زندگی کو بنادیا جائے گا تصور بھی مشکل ہے مگر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ خواہ مخوا کی ایک دکھاوے والی کھوکھلی زندگی، کئی زندگیوں سے کھیل رہی ہے اور حد ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر اسی طرز فکر کا نام سیاست ہے تو یہ ظالمانہ کھیل چلتا رہے گا؟ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور اللہ سے بڑا کوئی منصف نہیں اور جب اللہ انصاف کرتا ہے تو بس صرف انصاف ہوتا ہے۔ عقل و شعور اب بھی یہی کہہ رہا ہے کہ وقت کی ناقدری نہ کی جائے اور اب بھی جو کچھ ہاتھ میں ہے اسی کو بہت سمجھا جائے۔
زندہ لیڈر، زندہ معاشروں کو حاصل ہوتے ہیں، جیسی قوم ویسے ہی لیڈر، عوام اگر مناسب لیڈر نہیں چنیں گے تو المیہ ہوگا۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ علما دین، اخبار نویس اور تہذیب سکھانے والے ڈھٹائی پر تلے ہوئے ہیں۔ دو مولانا آپس میں گتھم گتھا ہوں اور سارا زمانہ تماشا دیکھے۔
کس کو سچا سمجھیں اور کون جھوٹا؟ محبت سب سے بڑا سرمایہ اگر یہ بھی کھو جائے گا پھر کیا رہ جائے گا؟ سوالات بے شمار مگر جوابا غیر تسلی بخش! خالی دامن اور خالی سوچیں اور دور تک صحرا کی طرح نظر آتا مستقبل، اللہ جانے کہ نوجوان نسل کس کو فالو کرے گی کس کو Reject۔ بزرگ اور بڑے سب ایک کونے کے شو پیس صرف اونچی اونچی دیواریں اور بڑے بڑے لوہے کے گیٹ یا پھر پہرا دینے والے گارڈ، یہ نہ ہماری روایت اور نہ ہمارا سرمایہ، پھر ہر کسی کا خواب موسم سرما کی شامیں اور جھاگ اڑاتا ہوا سمندر، لائن سے سمندر کے کنارے پر بنے بڑے بڑے ریسٹورنٹ اور ان میں پیلے چمکتے بلب، لوگوں کی ایک لمبی قطار، بے شمار ذائقہ دار پکوان، اونچی اونچی ایڑیاں پہنیں بنی سنوری خواتین اور ان کے ساتھ بڑے بڑے تجارت کرنے والے مرد نہ ختم ہونے والی گفتگو، فیشن اور باہر کے دوروں کی روداد، دوسری طرف جان بچانے والی دوائیں ناپید یا جعلی، سسکتی ہوئی اندھیروں میں ڈوبی زندگی نہ بچوں کی جان کی قیمت نہ بڑوں کی، بد سے بدتر زندگی کہ لوگ سوچیں مرجائیں تو اچھا ہے۔
آخر کب تک! دنیا اللہ کی ہے اور سب مکین اللہ کی مخلوق!