پنجاب یونیورسٹی کے آٹھ سال

مادرحقیقی اور مادر وطن کے بعد اس رشتے کا سب سے خوب صورت روپ مادر علمی کا ہی ہوتا ہے


Amjad Islam Amjad January 07, 2016
[email protected]

مادرحقیقی اور مادر وطن کے بعد اس رشتے کا سب سے خوب صورت روپ مادر علمی کا ہی ہوتا ہے سو اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی اور اس میں گزارا ہوا زمانہ مجھے بے حد عزیز ہے۔ علمی زندگی کے 40 میں سے 25 برس تدریس کے شعبے میں گزارنے کی وجہ سے یہ رشتہ اور بھی محکم اور پائیدار ہوتا چلا گیا۔

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ 1965ء کے اواخر میں جب میں نے پنجاب یونیورسٹی اوری اینٹل کالج کے شعبہ اردو میں داخلہ لیا اس وقت پاکستان میں یونی ورسٹیوں کی کل تعداد کتنی تھی، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ 30 کے لگ بھگ ہو گی اور غالباً ان میں سے ایک بھی پرائیویٹ شعبے میں نہیں تھی جب کہ اس وقت کل ملا کر 291 تعلیمی ادارے اس رتبے کے حامل ہیں اور یہ بات پنجاب یونیورسٹی سے کسی بھی حوالے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لیے باعث مسرت و افتخار ہے کہ ایک حالیہ رینکنگ سروے کے مطابق اس یونیورسٹی کو پاکستان کی بہترین یونیورسٹی قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسے جنوبی ایشیاء کی 2107 یونیورسٹیوں میں15ویں نمبر کا حقدار قرار دیا گیا ہے، واضح رہے کہ اس سروے میں دنیا کی 24 ہزار یونی ورسٹیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ csic نامی یہ ادارہ واحد عالمی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں کی رینکنگ کرتا ہے۔

ہمارے ذرایع ابلاغ میں منفی خبروں کو فروغ دینے اور کسی بھی سطح کی اچھی خبر کو خبر نہ سمجھنے کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب نہ تو ہمیں خیر کی کسی خبر پر یقین آتا ہے اور نہ ہی ہماری عمومی قومی ذہنی صحت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم صحراؤں میں نخلستانوں کے وجود کو جان اور مان سکیں، بلاشبہ HEC کے فعال ہونے کے بعد سے ہماری یونیورسٹیوں کی تعداد اور معیار دونوں پر خوشگوار اثر پڑا ہے، ایک طرف جہاں پائے کے چند اور پروفیشنل تعلیم دینے والے بہت معیاری غیر سرکاری ادارے وجود میں آئے ہیں اور دوسری طرف سرکار کی امداد سے چلنے والے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں جب کہ ان کی فیسیں اور دیگر تعلیمی اخراجات نسبتاً بہت کم اور تعلیمی وظائف کہیں زیادہ ہیں۔

ہمارے زمانے میں بی اے میں ہر مضمون میں پوزیشن لینے والے طلبہ و طالبات کو 50 روپے ماہوار سبجیکٹ اسکالر شپ ملتا تھا جب کہ ٹیوشن فیس صرف 12 روپے ماہوار ہوا کرتی تھی مجھے خود بھی دو برس تک اس 38روپے ماہوار کی اضافی آمدنی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے اور سچی بات ہے کہ آگے چل کر زندگی میں ہزاروں لاکھوں کمانے کے باوجود امارت کا وہ احساس نصیب نہیں ہوا جو ان 38 روپوں کو وصول کر کے حاصل ہوا کرتا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس یونیورسٹی نے مجھے دوران تعلیم ایک ایسے دہرے اعزاز سے نوازا جس نے بطور ادیب اور شاعر مجھے ایک ایسا اعتماد دیا کہ میں نے نہ صرف سول سروس پر اس راستے کو ترجیح دی بلکہ زندگی بھر کبھی اس فیصلے پر ایک لمحے کے لیے بھی افسوس نہیں کیا اور وہ یوں کہ ایم اے کے پہلے سال یعنی پریویس میں مجھے پنجاب یونیورسٹی لٹریری سوسائٹی کا چیئرمین اور فائنل ایر میں یونیورسٹی کے ادبی مجلے ''محور'' کا چیف ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا جس کا گولڈن جوبلی نمبر دو برس قبل موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے ایما پر شایع کیا گیا اور ایک بار پھر مجھے اس کا چیف ایڈیٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

میری ذاتی یادوں کا سلسلہ اس وقت طویل ہے کہ اس پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن فی الحال میں اس سے درگزر کرتے ہوئے اس بے حد مختصر بروشر نما کتابچے کی طرف واپس آتا ہوں جس کا عنوان ''پنجاب یونیورسٹی کے آٹھ سال (تعلیمی و تحقیقی ترقی کا مختصر جائزہ)'' لکھا گیا ہے عام طور پر اس طرح کے اشتہاری مواد میں کچھ کردہ بلکہ ناکردہ کارناموں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرا جا سکے مگر ان آٹھ صفحات میں ڈاکٹر مجاہد کامران کی وائس چانسلر شپ کے آٹھ برسوں کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ اتنی مدلل' مکمل اور حقیقی ہے کہ اس پر سوائے تعریف اور فخر کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

ستر، اسی اور نوے کی دہائیوں میں وطن عزیز کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح پنجاب یونیورسٹی بھی تشدد آمیز سیاست کا گڑھ بن چکی تھی جہاں ہر بڑی سیاسی پارٹی کے طلبہ ونگ موجود تھے اور ہر معاملے میں عملی سطح پر فیصلہ کن طاقت انتظامیہ کے بجائے ان کے ہاتھ میں تھی، میں خود طالب علمی کے زمانے سے لے کر اب تک طلبہ یونین اور ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ کا حامل اور قائل رہا ہوں اور طلبہ یونین کو ملکی سیاست کے شعور کا ایک سمبل اور درس گاہ سمجھتا ہوں مگر بدقسمتی سے ستر کی دہائی کے آغاز میں تعلیمی اداوں میں ایک ایسا سیاسی کلچر پیدا ہو گیا ۔

جس کی ابتدا تو جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوئی مگر آگے چل کر بائیں بازو کی ترقی پسندی کے نام پر اس میں اسلحے اور شدت پسندی کے ایسے رجحانات بڑھتے چلے گئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ طلبہ تنظیمیں مادر پدر آزاد ہو گئیں اور بازوئے شمشیر زن کی حد تک سب ایک ہی رنگ میں رنگی گئیں۔

نوے کی دہائی میں لولی لنگڑی جمہوریت کی بحالی سے اس کی شدت اور پھیلاؤ میں کسی حد تک کمی تو ضرور آئی مگر وہ تعلیمی ماحول پیدا نہ ہو سکا جو یونیورسٹی کی سطح کے اداروں کی پہچان ہوا کرتا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کو یہ کریڈٹ یقیناً ملنا چاہیے کہ انھوں نے ہر طرح کی مخالفت اور خطرے کے باوجود طلبہ کی سرگرمیوں کو ان کے جائز اور اصل دائرہ کار کے اندر لانے کی کامیاب کوشش کی۔

عین ممکن ہے کہ اس ضمن میں کہیں ان سے کوئی زیادتی بھی ہو گئی ہو (جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے) مگر جب ہم ان آٹھ برسوں میں یونیورسٹی کی تعلیمی اور تحقیقی ترقی پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس تصویر کے مثبت رنگ اس کے منفی رنگوں سے کہیں زیادہ ہیں مثال کے طور پر جنوری 2008 میں اساتذہ کی کل تعداد 710 تھی جن میں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل اساتذہ 210 تھے جب کہ دسمبر 2015 میں کل اساتذہ 1081 ہوگئے اور ان میں پی ایچ ڈی خواتین و حضرات کی تعداد 546 یعنی تقریباً 21% زیادہ ہو گئی۔

قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی طرف سے ریسرچ پیپرز پیش کرنے اور ہم نصابی تعلیم کے شعبوں میں طلبہ کی کارکردگی کا گراف بھی کم و بیش اسی نسبت سے بہتر اور بلند ہوا، یونیورسٹی کی آمدن بڑھی اور تعلیمی وظائف میں اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود ٹیوشن فیس میں ایک پیسے کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا اس ضمن میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک کے پسماندہ ترین صوبے یعنی بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہر تعلیمی شعبے میں ایک خصوصی نشست رکھی گئی جس کے تمام تر اخراجات یونیورسٹی برداشت کرتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ہر طالب علم کو 3000 ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

اس زوال اور انتشار کے زمانے میں جب کہ سرکاری اعانت سے چلنے والا تقریباً ہر شعبہ توقع سے کم پرفارمنس دے رہا ہے ایسے ادارے یقیناً تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو بہتر اور بعض صورتوں میں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے کے لیے کچھ انقلابی اور بعض لوگوں کے لیے ناخوشگوار اقدام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔

کوشش کی جانی چاہیے کہ اصلاح کے عمل میں کسی کے بھی ساتھ زیادتی یا بے انصافی نہ ہو اور میری اطلاعات کے مطابق بہت حد تک ایسا ہی کیا جا رہا ہے کہ اس کے بغیر وہ ترقی ممکن ہی نہیں تھی جو ان آٹھ برسوں میں ہوئی ہے اور امید کرنی چاہیے کہ ہماری دیگر سرکاری شعبے میں چلنے والی یونیورسٹیاں بھی اس روایت کو آگے بڑھائیں گی۔ ایک مثال جو میرے ذاتی تجربے میں ہے یونیورسٹی آف سرگودھا کی ہے جسے حال ہی میں سبکدوش کیے جانے والے وائس چانسلر چوہدری محمد اکرم نے ایسی بلندیوں سے آشنا کرایا ہے جو اپنی جگہ پر قابل فخر بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے لیے ایک بار پھر تین تالیاں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں