لاہور کو ’اورنج لائن‘ اور کراچی کو ’چنگ چی‘ مبارک ہو

ملکی معیشت کو سب سے زیادہ سہارا دینے والے شہر کے باسی اب بھی کھٹارا بسوں اور اڑن کھٹولوں کے رحم و کرم پر ہیں۔


محمد نعیم January 07, 2016
چنگ چی چلنے پر خوشی منانے والوں کی کیفیت اس قیدی جیسی ہے جس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی جائے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ چلو کچھ تو رعایت و سکون ملا۔ فوٹو :فائل

لاہور: سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں چنگ چی چلنے کی مشروط اجازت کے بعد ملا جلا رد ِعمل سامنے آرہا ہے۔ وہ طبقات جن کے لیے چنگ چی ذریعہ سفر اور وسیلہ روزگار تھا وہ اس فیصلے کے بعد خوشیاں منارہے ہیں جبکہ وہ لوگ جو اپنی سوچ کا کینوس تھوڑا وسیع رکھتے ہیں، وہ فکرمند ہیں۔ ان کے نزدیک سڑکوں کے نام پر کراچی کے وجود پر جو شریانیں پھیلی ہوئی ہیں، وہ پہلے ہی تجاوزات اوربد انتظامی کی وجہ سے سکڑ چکی ہیں، اب انہی سڑکوں پر ایک بار پھر چنگ چی دوڑنے سے صورتحال مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔

بہرحال چنگ چی چلنے میں ابھی آزمائش کے بہت سے مراحل آنے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سامنے رکھ کر آپ بھی سوچیں کہ چنگ چی رکشوں کی فٹنس و دیگر شرائط، جو پوری ہونے کے بعد سڑکوں پر آئیں گے تو کیا یہ سب کچھ عدالتی احکامات کےعین مطابق ہوگا؟ بقول جسٹس دوست محمد خان، یہاں 1955ء ماڈل کی بسیں چل رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تو کیا خیال ہے؟ ہزار دو ہزار روپے خرچ کرکے چنگ چی والوں کو بھی اے ون فٹ ہونے کا سرٹیفکیٹ کیا نہیں مل سکے گا؟ ہاں اس مد میں بہت سے افراد کے لیے اُوپر کی آمدن کے کئی مزید دروازے بھی کھل جائیں گے۔ چلیں گے اب بھی وہی ناقص رکشے ہی، مگر فٹنس سرٹیفکیٹ کے دھڑلے سے۔

اِس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر آنے والے ردعمل کو دیکھا جائے تو کراچی کے چنگ چی رکشے، لوگوں میں احساس کمتری بھی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری دو طرح کی ہے ایک طبقاتی تقسیم کی۔ شہرکے اندر ہی غریب اور امیر طبقے کی تقسیم کا یہ معیار بن رہا ہے، دوسرا احساس کمتری صوبائی اوروفاقی سطح کا ہے۔ کیوںکہ کراچی ٹیکس و تجارت کی مد میں ملکی خزانے کو اربوں روپے دینے والا شہر ہے۔ چند سال قبل جب کراچی میں اے سی بسیں مسافروں کے لیے دستیاب تھیں تب لاہورمیں چنگ چی چلتے تھے مگر آج حکمرانوں کی ترجیحات و عدم ترجیح نے وہاں میٹرو سروس چلا دی ہے اور ٹیکس و تجارت کی صورت میں ملکی معیشت کو سب سے زیادہ سہارا دینے والے شہر کے باسی اب بھی کھٹارا بسوں اور اڑن کھٹولوں کے رحم و کرم پر ہیں۔

بقول جسٹس دوست محمد خان میٹرو اورنج منصوبے زمینی حقائق کے مطابق تاحال اہل کراچی کے لئے خواب ہی ہیں۔ یہ احساس کمتری موجودہ حکومت کے لیے کیا رائے عامہ ہموار کررہی ہے اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کیوں چنگ چی کو کراچی کے لیے میٹرو سروس قرار دیا جارہا ہے۔

تمام اہل کراچی اب فلائی اووز کے نیچے خالی ہونے والی جگہوں، بس اسٹاپس اور چوکوں چوراہوں کو، ایک بار پھر چنگ چی کے اڈے بنے دیکھنے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہوجائیں۔ کیوں کہ شہر میں ٹریفک کا نظام چلانے والے تاحال ہزاروں بسوں کے لیے کوئی اڈے نہیں بناسکے تو چنگ چی تو ہوتا ہی چھوٹا سا ہے اس کے لیے یہ زحمت بھلا کون کرے؟ ویسے بھی بسوں، ٹرکوں، ٹیکسیوں، رکشوں کو کھڑا کرنے کے لیے کراچی کی سڑکیں ہیں نا! اڈوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
آخر میں دو باتیں۔

چنگ چی چلنے پر خوشی منانے والوں کی کیفیت اس قیدی جیسی ہے جس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی جائے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ چلو کچھ تو رعایت و سکون ملا۔ ٹرام، گرین بسیں، سرکلر ریلوے، اے سی بسیں سب کچھ چھن جانے کے بعد اگر چنگ چی کی نعمت مل رہی ہے تو خوش ہونے کا حق تو بنتا ہے۔ دوسری بات ان کے لیے پیغام اور سوال ہے کہ جو عوام کے ووٹ سے عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں کہ وہ کروڑوں کی آبادی کے اس شہر کو اس کے بنیادی اورجائز حقوق کب دیں گے؟

[poll id="873"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں