مسلمانوں پہ کیا گزری
2015ء کا سال گزرگیا۔ مختلف تجزیہ کاروں نے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال کا بھی ہر پہلو سے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
2015ء کا سال گزرگیا۔ مختلف تجزیہ کاروں نے گزشتہ سالوں کی طرح اس سال کا بھی ہر پہلو سے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ انھوں نے اس سال میں ہونے والے تمام ہی حالات وواقعات پر نظر ڈالی ہے مگر افسوس کہ سال گزشتہ میں مسلمانوں پرکیا گزری اس کا کسی نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ بدقسمتی سے 2015 کا آغاز ہی مسلمانوں کو دہشت گردی کے حوالے سے مطعون کرنے سے ہوا تھا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں 7جنوری 2015 کو چند نوجوانوں نے ہفت روزہ چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کرکے گیارہ افراد کو قتل اورکچھ کو زخمی کردیا تھا۔ اس واقعے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔
اس ہفت روزہ سے منسلک افراد کی موت پر تمام مغربی ممالک سمیت عرب افریقی اور ایشیائی ممالک کے بیشتر سربراہان نے ایک تعزیتی تقریب میں شرکت کرکے پیرس میں ایک بڑی ریلی نکالی تھی جس میں مغربی سربراہان نے عزم ظاہرکیا تھا کہ آزادی اظہار پر کسی قسم کی روک ٹوک کو برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن افسوس کہ انھوں نے اس پہلوکو قطعی نظر اندازکردیا تھا کہ اس آزادی اظہار سے کسی قوم اور مذہب کو جو زک پہنچ رہی ہے اس کا بھی کوئی تدارک کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ چارلی ہیبڈو پر حملہ یوں ہی نہیں ہوا تھا یہ ہفت روزہ ایک عرصے سے پیغمبر اسلامؐ کے خاکے چھاپ کر ناموس رسالت پر کھلم کھلا رکیک حملے کر رہا تھا وہاں کی حکومت کی بارہا توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی مگر اس کا جواب تھا کہ یہ تو آزادی اظہار کا معاملہ ہے اور اس سلسلے میں حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔
فرانس میں برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے وہاں کبھی مسلمانوں کے داڑھی رکھنی پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو کبھی سر پر عمامہ رکھنے پر مطعون کیا جاتا ہے۔ مسلم خواتین کو برقعہ تو کیا اسکارف تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مسلم خواتین پردے کو اپنی مذہبی ضرورت کے تحت استعمال کرتی ہیں اور ان کے اس عمل سے بھلا کسی کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ فرانس میں تقریباً تیس لاکھ مسلمان آباد ہیں جو بیشتر فرانس کے سابقہ مقبوضہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
فرانس کے گھٹن زدہ ماحول میں اگر چند مسلم نوجوان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائے اور اپنے مذہب کو مذاق بنانے پر انتقامی کارروائی پر اتر آئے تو ان کا رشتہ القاعدہ اور داعش سے جوڑنا اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف چلائی گئی مہم کا مسیحیوں کے پوپ فرانسس تک نے سخت نوٹس لیا اور انھوں نے یورپی حکومتوں کو صائب مشورہ دیا تھا کہ انھیں اپنے ممالک سے دہشت گردی کو ختم کرانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف اپنی منافرت پر مبنی دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔
گزشتہ سال امریکا میں بھی مسلمانوں کے خلاف کھل کر منافرت دیکھنے میں آئی۔ صد افسوس کہ اس گھناؤنی مہم میں وہاں کے ذمے دار قسم کی شخصیات بھی شامل تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مسلم کش تقاریرکے ذریعے ایک اجنبی انسان کے خول سے نکل کر اب پوری دنیا میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ انھوں نے اپنی صدارتی امیدواری کی مہم میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ امریکا جیسے سپر پاور ملک کی صدارت کا امیدوار شخص کا اس قدر گھٹیا خیالات کا حامل ہونا انتہائی حیران کن ہے۔ وہ محض اپنی شہرت کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔
اس بیان کا محرک مانا کہ تاشفین اور اس کے شوہر کا ایک اپاہج گھر میں فائرنگ کرکے کچھ معصوم لوگوں کو قتل کرنا تھا مگر ابھی اس کیس کی تفتیش چل رہی ہے۔ پولیس ابھی تک اس فائرنگ کے اصل محرکات کا پتہ نہیں چلا سکی ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عاقبت نااندیش شخص نے وقت سے پہلے ہی نتائج اخذ کرکے تمام مسلمانوں کے خلاف زہریلا بیان داغ دیا ہے۔
یہ بیان مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ امریکیوں کو بھی اچھا نہیں لگا۔ کیونکہ امریکا کی تمام مسلم ممالک سے گہری دوستی ہے پھر امریکا کے لیے مسلمانوں کی بڑی خدمات ہیں۔ امریکا میں آباد مختلف مسلم ممالک کے مسلمان امریکا کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں متحرک ہیں اور وہ امریکا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ٹرمپ نے صدارتی امیدواری کی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹک پارٹی کی نامور شخصیت اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو بھی نہیں بخشا ہے۔ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن پر نہ صرف گھٹیا طنز کیا ہے بلکہ ان کے خلاف فحش الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی بے عزتی کرنے اور مسلمانوں کے خلاف بیان دینے پر امریکی عوام سے ٹرمپ کو مسترد کرنے کی اپیل کی ہے۔ مگر ٹرمپ اپنی دولت کے بل بوتے پر صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں تمام امیدواروں سے آگے نکلنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام کا بھی اب معیار بدل چکا ہے وہ ٹرمپ جیسے متعصب اور بداخلاق شخص کے جلسوں کو کامیاب بنانے میں مصروف ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ٹرمپ کو تمام ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیدواروں میں سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ٹرمپ رئیل اسٹیٹ کا ایک بڑا کاروباری شخص ہے وہ اربوں ڈالر کا مالک ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم پر روزانہ 30 لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ یہ رقم دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اب اگر یہ شخص اپنی دولت کی وجہ سے امریکا کا صدر منتخب ہوجاتا ہے تو پھر امریکا کا کیا دنیا کا بھی خدا ہی حافظ! سابق امریکی صدور سینئر اور جونیئر بش بھی متعصب شخصیت کے حامل تھے۔ مگر انھوں نے کبھی کھل کر مسلمانوں کے خلاف بیانات نہیں دیے تھے تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ امریکا میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کا زہر گھولنے کی ابتدا کرنے والے یہی دونوں باپ بیٹے تھے مگر ٹرمپ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔
فرانس اور امریکا کے بعد گزشتہ سال بھارت میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف سرکاری سطح پرکارروائیاں جاری رہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت وہاں آر ایس ایس جیسی مسلم کش بھارتی تنظیم کی بغل بچہ بھارتی جنتا پارٹی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف پرچار کرکے برسر اقتدار آگئی ہے۔
اس پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی گائے کے ذبیحہ اور گوشت کھانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے شبے میں اب تک کئی مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں۔ مسلمانوں کو بھارت چھوڑنے اور پاکستان میں جانے کی کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آر ایس ایس مسلمانوں کی کس درجہ دشمن ہے اس کا اندازہ اس کے آئین سے کیا جاسکتا ہے۔
اس کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر نکال دو اور اگر وہ جانے سے گریز کریں تو انھیں سوکھی لکڑی کی طرح جلادو۔ اس کے کارکن پارٹی کے اسی آئین پر عمل کرتے ہوئے 1925 میں اس کے قیام سے لے کر اب تک ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گزشتہ سال بھارت کے بعد مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا ملک برما تھا۔ وہاں ارکان صوبے میں صدیوں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کا امن پسند کہلانے والے بھکشوؤں نے قتل عام کرکے ثابت کردیا کہ ان کے بے ضرر ہونے کے بارے میں جو فلسفہ دنیا بھر میں مشہور ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ان بھکشوؤں نے عورتوں اور معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ انھوں نے مسلمانوں کی سیکڑوں بستیوں کو نیست و نابود کردیا۔ وہاں کی حکومت بھی کھل کر بلوائیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ مسلمانوں نے آنگ سان سوچی سے جو امیدیں لگائی تھیں وہ ان کے الیکشن جیتنے کے بعد بھی پوری نہ ہوسکیں۔ برما کی فوجی حکومت مسلمانوں کو برما سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے مگر کیوں؟ اس کا وہ اقوام متحدہ کو بھی جواب نہ دے پائی! برمی مسلمان جان بچا کر بنگلہ دیش میں داخل ہوئے مگر حسینہ واجد کی حکومت نے انھیں پناہ نہ لینے دی۔
اب ایسے میں برمی مسلمان اقوام متحدہ سے فریاد کناں ہیں کہ وہ کہاں جائیں؟ کشمیریوں اور فلسطینیوں پر گزشتہ سال بھی بھارتی اور اسرائیلی فوجی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ مسلمان ممالک کے سربراہوں کی مصلحت آمیز پالیسیاں گزشتہ سال بھی جاری رہیں وہ اپنی کرسیوں کو بچانے کے لیے مغربی آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے رہے شام اور یمن کے خلاف مغربی ممالک کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بے دریغ خون بہانے میں ان کے معاون و مددگار بنے رہے۔ اب دیکھیے نئے سال میں کیا ہوتا ہے؟ کاش کہ مسلم حکمراں ہوش کے ناخن لیں اور تمام مسلمان اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں تو نیا سال یقیناً خوشیوں کا سال ثابت ہوسکتا ہے۔