دنیا بدل گئی ہے۔ جس کا ایک نمایاں مظہر ہے غلامی کا خاتمہ، لیکن کیا واقعی غلامی ختم ہوچکی؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ بدلی ہوئی دنیا کے بدلاؤ کا سب سے بڑا نمونہ امریکا، جہاں ایک قید خانے میں قیدی دن رات لگ بھگ بیگار جھیل کر مصنوعات پیدا کر رہے ہیں وہ بھی بہت معمولی معاوضے پر۔ اسے زنداں نہ کہیے، یہ تو دراصل ایک صنعتی یونٹ ہے۔ جہاں لوگوں کو اسیر رکھ کر ان سے بے رحمی کے ساتھ مشقفت لی جاتی ہے۔
عشروں سے، خاص طور پر جاپان اور چین جیسی صنعتی سلطنتوں کی دنیا بھر میں جارحانہ پیش قدمی کے بعد، صنعت و تجارت کے میدان میں جہاں گیری کرتے امریکا میں وہی انکل سام جو انگلی کے اشارے سے ''مجھے امریکی فوج کے لیے تمھاری ضرورت ہے'' کہتے امریکیوں کو برطانیہ سے جنگ کے لیے طلب کیا کرتے تھے۔ اب ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہے ہیں کہ پیارے امریکیو! اپنے ملک کی ساختہ مصنوعات خریدو۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ امریکی مال کہاں اور کیسے تیار ہورہا ہے؟ جب آپ حقیقت کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اس راز سے پردہ اٹھتا ہے کہ امریکی تیار کنندگان صنعتیں اپنی مصنوعات کی لاگت کم رکھنے کے لیے کیسے کیسے کالے ہتھ کنڈے استعمال کر رہی ہیں۔
آج کے یونی پاور امریکا کو یورپ کے سفاک تجارتی مفادات نے دریافت کیا تھا اور افریقہ سے اغواء کرکے لائے گئے آزاد انسانوں کو غلام بنا کر ان کے خون پسینے سے اس ملک کی صنعت وتجارت کو سینچا گیا۔ یہ غلامی کیا تھی؟ ایلکس ہیلے کا ناول ''روٹس'' پڑھ کر دیکھیے، رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ آخرکار 1865 میں تیرہویں آئینی ترمیم کے تحت امریکی سرزمین سے غلامی کا خاتمہ کردیا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریڈ انڈینز اور افریقی غلاموں کے پنجروں پر کھڑی کی جانے والی امریکی ریاست مساوات اور انسانی حقوق کی علم بردار بن گئی اور مشعل بہ دست مجسمۂ آزادی اس کی پہچان قرار پایا۔ لیکن اس مجسمے کے زیرِ سایہ پھیلے اندھیروں میں آج بھی غلامی جاری ہے۔
فرق بس یہ ہے کہ اب افریقہ کے سبزہ زاروں سے سیاہ فام آدم زادوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چُرا کر لانے کے بجائے اپنے ہی ملک کے قیدخانوں میں بند افراد کو غلام بنالینے کا چلن ہے۔ آج کے امریکا میں ''قیدی مزدور'' غلامی کی روایت کا تسلسل ہیں جن کی محنت، تجربہ اور مہارت امریکی اور عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے اور اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی میں امریکی تیار کنندگان کی مددگار ہیں۔ منافع خور سرمایہ داروں کی زر کی بھوک مٹانے کے لیے یہ مجبور لوگ دن میں آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ان قیدی مزدوروں کو اس مشقت کا جو معاوضہ دیا جاتا ہے وہ امریکا میں دی جانے والی کم سے کم اُجرت سے بھی کم ہے۔
قیدیوں سے اپنی مصنوعات تیار کرانے والی کارپوریشنز نہ صرف ان مزدوروں کو معمولی اُجرت دیتی ہیں بلکہ محصولات کی مد میں بھی رعایتیں سمیٹتے ہیں۔ بجلی اور دیگر اصراف کی بچت اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح یہ کارپوریشنز معمولی لاگت لگا کر سالانہ کئی ملین ڈالر منافع کی گنگا میں اشنان کرتی ہیں۔ قید خانوں میں دستیاب اس ہُن برساتی سَستی محنت امریکا کے تقریباً تمام ہی اہم اور نمایاں صنعتی ادارے فیضیاب ہورہے ہیں۔ غذائی اشیاء تیار کرنے والوں کا تو انحصار ہی قیدی مزدوروں پر ہے۔
ایک خاص قسم کی مچھلی tilapia اور بکری کے دودھ کا پنیر قید خانوں سے حاصل کرکے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ یومیہ صفر اعشاریہ 74 ڈالر دے کر حاصل کردہ یہ مچھلی منڈی میں 11اعشاریہ 99 ڈالر کے بھاؤ پر بیچی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اپنے کاروبار کا جال پھیلائے ایک خوردہ فروش کمپنی وال مارٹ کی پالیسی یوں تو قیدی مزدوروں کے استعمال کے خلاف ہے لیکن اس کے اشیاء کے فراہم کنندگان قید خانوں میں بنی مصنوعات ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ کارپوریشن Martori فارمز سے بھی مصنوعات خریدتی ہے۔ جہاں قیدی مزدوروں سے کام لیا جاتا ہے۔ میرٹوری فارمز میں قیدی مزدوروں سے روزانہ 8 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ اکثر اس دوران وہ پانی بھی نہیں پی سکتے جبکہ انہیں اس صورت میں بھی کام پر مجبور کیا جاتا ہے جب وہ بیمار ہوں۔
مخصوص نسوانی ملبوسات کی تیار کنندہ کمپنی Victoria's Secret خاتون کو بھرتی کرکے اپنے اسٹور کے لیے ملبوسات سلواتی ہے۔ یہ امریکی کمپنیاں کس طرح دوسرے ممالک کے مال پر امریکا کا ٹھپا لگاتی ہیں، اس کا اندازہ کمپنی کے لیے کام کرنے والی 2 قیدی خواتین کے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیے گئے اس انکشاف سے ہوتا ہے۔ انہوں نے مصنوعات پر لگے ''میڈ ان ہنڈو راس'' کے ٹیگ ہٹا کر''میڈ ان امریکا'' کے ٹیگ لگائے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
تیل اور گیس سے متعلق کمپنی برٹش پیٹرولیم (BP) نے خلیج میکسیکو کی صفائی کے لیے مقامی بے روزگار ماہی گیروں کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے قید خانوں سے سستے مزدوروں کی محنت سے فائدہ اٹھایا۔ جس پر مقامی ماہی گیروں نے احتجاج بھی کیا، مگر کون سنتا ہے۔
کثیرالقومی ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن
AT & T نے 1993 میں ہزاروں ٹیلی فون آپریٹرز کو برطرف کرکے ان کی جگہ اپنے کال سینٹرز پر قیدی مزدوروں کو رکھ لیا۔ جنہیں معاوضے کے نام پر یومیہ زیادہ سے زیادہ 2 ڈالر کی خیرات دی جاتی تھی۔ قیدی مزدوروں کو زراعت میں بھی استعمال کیا جارہا ہے جو غلاموں کو برتنے کی قدیم ترین روایت ہے۔ صنعتی زراعت (Industrial agriculture) سے زر بناتے سرمایہ کار آباد گاروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قانون بدل دینے سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔ ریاست کولوراڈو میں سرمایہ دار کاشت کاروں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کی خاطر قانون سازوں اور ریاست کے محکمۂ اصلاحات نے اشتراک عمل کرتے ہوئے پائلٹ پروگرام متعارف کرایا ہے جس کے تحت ایک درجن کے قریب وسیع وعریض زرعی اراضیوں کے لیے 100 سے زیادہ قیدی مزدور فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان قیدی کسانوں کو فی کس یومیہ 60 سینٹ ملتے ہیں جبکہ ان پر نظر رکھنے والے گارڈز کو شان دار تن خواہوں پر رکھا گیا ہے۔
قیدی مزدروں کی محنت، ان کا خون پسینہ کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر سرمائے کے ڈھیر لگانے کا سلسلہ کیسے چلے گا اگر کارپوریشنوں کو ان کی مطلوبہ تعداد میسر نہ آئی، چناںچہ امریکا میں 1991 کے بعد سے جرائم کی شرح میں 20 فی صد کمی ہوئی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس عرصے میں قیدیوں کا تناسب 50 فی صد بڑھ گیا ہے۔
اس وقت امریکا میں قیدیوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ جو ایک تخمینے کے مطابق 5 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ تعداد ایک ارب سے زائد آبادی والے اور مغربی دنیا سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا متواتر الزام پانے والے کمیونسٹ چین میں اسیر افراد سے بھی بڑھ چکی ہے۔
جیل کے حکام کے لیے قید خانوں میں لگی یہ بھیڑ پریشان کُن اور خطرات کی حامل ہے۔ لیکن سرمایہ داروں کے لیے یہ زرگری کے امکانات رکھتی ہے۔ ان قیدیوں میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن پر کسی پُر تشدد کارروائی میں ملوث ہونے کا الزام نہیں۔ یہی قیدی منافع خور سرمایہ داروں کے لیے سستی محنت کے ذریعے زیادہ منافع کمانے کی مشینیں ہیں۔ امریکی سرمایہ داروں کو ٹکوں کے عوض مزدوروں کی ضرورت ہے اور امریکا کی جیلیں بھری ہیں۔ اگر قیدیوں سے مزدوری لینے کا معاملہ سامنے نہ آتا تو بظاہر ان دونوں حقائق میں کوئی مناسبت نظر نہ آتی۔ اب سب کچھ صاف ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی قیدی آبادی رکھتا ہے۔ جو کارپوریشنوں کے کام آرہی ہے۔
سو طے پایا کہ امریکی سرمایہ داروں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ملک کی جیلیں بھری رہیں۔ اب اس کے لیے لازم ہے کہ بے قصور افراد کو پکڑ پکڑ کر اندر کیا جائے۔ سیاہ فام آبادی کو سماجی بہتری سے دور رکھا جائے۔ پولیس افریقی نژاد افراد پر تشدد کرکے انہیں مشتعل اور ایسے اقدامات پر مائل کرتی رہے کہ وہ قانون کی زد میں آکر زنداں میں پہنچتے رہیں اور قیدی مزدور بنتے رہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انسانیت کے لیے تڑپتی وہ تنظیمیں کہاں ہیں جو چائلڈ لیبر اور انسانی حقوق کی پامالی کا واویلا مچاکر کسی بھی ملک کی مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی رکوا دیتی ہیں۔ اتنی خاموشی کیوں ہے بھائی؟؟
[poll id="883"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔