نوازشریف اورہندوستان
اس معاملے پرجتنابھی کم بولاجائے، اتنا ہی بہتر ہے۔رہی سہی کسر،ایک کشمیری رہنمانے پوری کردی۔
پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعدپاکستان اورہندوستان ہیجان کاشکار نظر آتے ہیں۔دونوں ملکوں کا میڈیا اور دانشوروںکی اکثریت جذباتیت اور تناؤ کی گرفت میں ہے۔ بے سروپا الزامات اورمنفی دلائل نے فضا کو مزید گھمبیر بنا ڈالا۔ کئی سیاستدان اور قلمکاربھی اپناحصہ ڈالنے میں مصروف کار رہے۔ عمل اورردِعمل کسی بھی شخص یاقوم کی ذہنی بلوغت کا پیمانہ ہوتا ہے۔
اس معاملے پرجتنابھی کم بولاجائے، اتنا ہی بہتر ہے۔رہی سہی کسر،ایک کشمیری رہنمانے پوری کردی۔ اخباروں میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق انھوں نے پٹھان کوٹ ائیربیس پرحملے کی ذمے داری قبول کر لی۔ میرے علم میں نہیں ہے ۔ یہ خبردرست ہے یایہ کسی قسم کی کوئی شرارت ہے۔ کیونکہ اس طرح کابیان پاکستان کے قومی مفادات کے مکمل طورپرخلاف ہے۔بلکہ اس سے ہماری بین الاقوامی ساکھ میں کمی آتی ہے۔
چندٹی وی چینلزپرجاکراظہاررائے کرنے کاموقع ملا۔ گفتگو کا آغاز آرام سے ہوتالیکن جیسے ہی اینکرہمسایہ ملک سے کسی دانشورکوبولنے کی دعوت دیتا تھا، پینل میں موجود اکثر حضرات اپنے اظہارخیال کی حدت اورشدت میں یکسراضافہ کرلیتے تھے۔
ایسے ایسے طعنے اوردعوے،الزامات کی ایسی بارش اورغصہ کی وہ حرارت،کہ کئی بارمیں حیران ہوجاتاتھاکہ کیایہ وہی شخص ہے جوچندمنٹ پہلے بڑے ادب اوراحترام سے اظہارخیال کررہاتھا۔یہ کیفیت صرف ہمارے ٹی وی چینلزپرہی نہیں،بلکہ ہندوستان میں بھی بعینہ ہے۔نتیجہ یہ،کہ اصل واقعہ یعنی پٹھان کوٹ پردلیل سے بات کرنا ناممکن ہوجاتا تھا۔ دونوں طرف ایک عجیب عدم توازن ہے۔
ایک چینل پرمجھے ہندوستان کی ذہین جرنلسٹ جیسیکا تلوارسے مکالمہ کاموقعہ ملا۔چارپانچ منٹ کی گفتگوکے بعد ایسے معلوم ہواکہ وہ انتہائی سنجیدہ اوروسیع ذہن کی مالک ہیں۔شروع میں جیسیکاتلوارصاحبہ نے وہی جذباتی گفتگو کی جواکثرٹی وی چینلزپرہورہی تھی۔مگرجب ٹھنڈے دل سے طالبعلم نے گزارش کی کہ دونوں ممالک ذہنی انتہاپسند اقلیت کے فکری غلبہ میں ہیں۔تونہ صرف انھوں نے میری بات کوتسلیم کیابلکہ کافی دیراس تجزیہ کی تعریف کرتی رہیں۔مجھے آج بھی یقین ہے کہ قلم کار اور دانشور اگر ٹھنڈے دل سے مشکل موضوعات پر مکالمہ کاآغازکریں تو اکثرمشکلیں آسان ہوسکتیں ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ ہمارے مجموعی تعلقات کا جائزہ لیں،توفوراًیہ احساس ہوجاتاہے کہ یہ ایک سی سا (Sea-Saw)کی مانندہیں۔ان میں توازن نہیں۔ایک دن ہم لائن آف کنٹرول پرفائرنگ سے اشتعال میں ہوتے ہیں اوردوسرے دن ہم کسی بھی مثبت واقعہ کی بدولت یگانگت اوربھائی چارے کی ترنگ میں ہوتے ہیں۔ ایساکیوں ہے۔یہ سب کچھ کیاہے۔سمجھنے کے لیے ساٹھ برس کی ذہنی روش اورسوچ کاجائزہ لینااَشدضروری ہے۔ تاریخ میں جائے بغیرکئی معاملات کوسمجھنامشکل ہے۔مگرتاریخ کامعروضی جائزہ لیناایک کالم میں ممکن نہیں۔
شروع کی تلخیاں آہستہ آہستہ اس قدربڑھ گئیں کہ دونوں ممالک نے خوف،سازش اورذاتی خواہشات کی بنیاد پر اپنی افواج کومختلف جنگوں میں جھونک دیا۔ردِعمل ایک اورطرح بھی سامنے آیا۔ دونوں طرف کے عام لوگوں میں بھی نفرت اوردشمنی کاایک بیج بودیا گیا جواب تن آوردرخت بن چکاہے۔اب اس درخت کا پھل اس قدرکڑوا اور زہریلا ہوچکاہے کہ کسی بھی سطح پرمنطق اوردلیل سے بات کرناتقریباًناممکن ہوچکاہے۔
اس تلخ حقیقت کے ہرسطح پرشواہدموجودہیں کہ ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کرکے ہمارے ملک کے دوٹکڑے کرنے میں انتہائی منفی کرداراداکیا۔لیکن کیایہ درست نہیں کہ مغربی پاکستان کے مقتدرطبقے نے مشرقی پاکستان کے پاکستانیوں کوہرسطح پربے توقیراوربے معنی بنادیا تھا۔ خیراس کوبھی چھوڑ دیجیے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے کئی حکمرانوں نے کشمیراورمشرقی پنجاب میں جہادی طرزِعمل کو بڑھا وادیا۔غلطیاںدونوں اطراف کی جانب سے برابرسرزدہوتی رہی ہیں۔گزارش کرونگا کہ ہندوستان اورپاکستان کے تعلقات کوبہترکرنے کے لیے سب سے پہلے صرف ایک قدم اٹھاناچاہیے۔وہ یہ کہ سچ بولنے اورسننے کی ہمت پیداکرنی چاہیے۔
اب مشکل معاملات کی جانب آتاہوں۔سب سے پہلے کشمیرکامسئلہ لے لیجیے۔اس مسئلہ کاایک اہم رخ اس وقت سمجھ میں آتاہے جب آپ لندن کی مرکزی لائبریری میںانڈین آفس کے ان کاغذات کوپڑھتے ہیں جوکچھ عرصہ پہلے پبلک کے پڑھنے کے لیے کھولے گئے ہیں۔کیا ایسے نہیں لگتاکہ برطانوی حکومت نے جان بوجھ کراس اہم ترین تنازع کوحل نہیں کیا۔اس نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک خلیج کی بنیادڈال دی۔آج تک ہم اس خلیج کوعبور نہیں کر سکے۔
پنڈت نہروکے متعلق ایک امریکی صدرنے لکھا تھاکہ وہ ہر معاملہ پربڑی پُرمغزگفتگوکرتے تھے۔لیکن جیسے ہی کشمیرکا ذکرآتاہے، اپنی شیروانی میں پیوست سرخ پھول کو غور سے دیکھناشروع کردیتے تھے اورچپ سادھ لیتے تھے۔ پاکستان میں جس رہنمانے بھی کشمیرکے مسئلہ کوحل کرنے کی کوشش کی،اس کے لیے اتنی مشکلات پیدا کر دی گئیں کہ حکومت چلانا اوربچانامشکل ہو گیا۔ مذہبی جماعتوں کے ذریعے سے ایک ایسی موثر اور مضبوط لابی کھڑی کردی گئی جوہندوستان سے مذاکرات کو ناممکن بنانے کی قوت رکھتی تھی اورہے۔
محترمہ بینظیربھٹوکی وزارت عظمیٰ کا پہلادور دیکھیے۔ ہندوستان کے وزیراعظم کواسلام آبادبلاکر مذاکرات کرنے کی انھیں ایسی سزادی گئی کہ حکومت کرنا ناممکن ہوگیا۔وزیراعظم کوغدارکہاگیا۔الزامات لگنے شروع ہوگئے کہ انھوں نے ہندوستان کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھاکرپاکستان کاسودا کرلیا ہے۔دراصل یہ سب کچھ ایک پیغام تھاکہ کوئی بھی وزیراعظم یا حکومت سوچ بھی نہ سکے کہ ہمسایہ ملک سے بہترتعلقات قائم کرسکتی ہے۔محترم نوازشریف کاوزیراعظم واجپائی کولاہور آنے کی دعوت دیناایک مثبت قدم تھا۔ہندوستان کے وزیراعظم بس میں سوارہوکرلاہورآئے۔
لگ رہاتھاکہ معاملات بہتری کی طرف جائینگے۔ مگر جناب نوازشریف کو ایساسبق سکھایاگیاکہ ہمارے پورے ملک کی سفارتی،سیاسی اورذاتی ساکھ داؤپرلگ گئی۔کارگل کیسے ہوا، کس نے شروع کیا، اس کا کس کوفائدہ ہوااورکس کو نقصان۔ اب یہ تمام جزئیات اورمعلومات ہراہل علم کے لیے موجودہیں۔ مجموعی طورپرکارگل کی جنگ میں پاکستان کو حزیمت اٹھانی پڑی۔آپ آگے چلیے۔ جب جنرل پرویزمشرف کے وزیر خارجہ،قصوری صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان اکثرمسائل حل کرنے کے قریب تھے جس میں کشمیرکامسئلہ بھی شامل تھاتوپھرپرویزمشرف پریہ الزام کیوں نہیں لگاجوجناب نواز شریف اورمحترمہ بینظیرپرتواتر سے لگایا گیا تھا۔
میرا تجزیہ اس معاملہ میں یکسرمختلف ہے۔جس وثوق سے جنرل پرویز مشرف کی ٹیم یہ اعلان کررہی تھی اوریہ کہ سب کچھ ٹھیک ہونے لگاتھااورانکی حکومت ختم ہوگئی۔اس معاملہ فہمی کاکوئی واضح ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ٹریک ٹوڈپلومیسی کس حدتک کامیاب ہوئی تھی۔اس پر باخبرلوگ ایک سے زیادہ رائے رکھتے ہیں۔ہاں۔ایک محاذپرپیش رفت ضرور دیکھنے کوملتی ہے۔ آزادکشمیراورمقبوضہ کشمیرمیں سفراورتجارت کی سہولت بہرحال بہت بہترہوئی۔
وزیراعظم نوازشریف کے دورِحکومت پر ہندوستان کے حوالے سے نظرڈالتاہوں۔ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم کی تقریب حلف پرجانے کافیصلہ بہت دانشمندانہ تھا۔اس بات سے قطع نظرکہ وزیراعظم مودی نے اپنی لیکشن کی مہم میں پاکستان دشمنی کی انتہاکی تھی اوراپنے وزارت اعلیٰ کے دورمیں مسلمانوں کے قتل عام میں براہِ راست ملوث رہے تھے۔
اس تلخ اَمرکے باوجودجناب نوازشریف کوبھرپورپذیرائی ملی تھی۔ جناب نواز شریف جب تقریب میں تشریف لائے تو ہال میں موجودتمام مہمانوں نے کھڑے ہوکرتالیاں بجائی تھیں۔ شمولیت سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ پاکستان اورہندوستان کے وزراء اعظم کے درمیان ایک ذاتی اورمثبت تعلق کا آغاز ہوا۔ وزیراعظم پرواپسی پربہت تنقیدہوئی۔یہ تنقیدزیادہ ترسیاسی نوعیت کی تھی۔اکثریت نے اس بامعنی ملاقات کے دوررَس نتائج پرغورکرنے کی کوشش نہیں کی۔
چنددن پہلے وزیراعظم مودی چندگھنٹوں کے لیے لاہور تشریف لائے۔پاکستانی وزیراعظم اوران کے درمیان ایک انتہائی متوازن ملاقات ہوئی یہ ذاتی نوعیت کی بھی تھی مگرآپ کو یادرہناچاہیے کہ کسی بھی وزیراعظم کی کوئی مصروفیت ذاتی نہیں ہوتی۔میں اسے سرکاری اورغیرسرکاری طریقہ کار کا مرکب کہوںگا۔ اس پربھی دونوں وزراء اعظم کواپنے اپنے ملک میںکافی سخت باتیں سنائی گئیں۔
اب اس اہم نکتہ کی طرف آتاہوں جس پرکسی بھی قلم کارنے زیادہ توجہ نہیں دی۔بمبئی واقعہ کے بعدہندوستانی حکومت نے اعلان کردیاتھاکہ اگرانکی سرزمین پرکسی قسم کی دہشت گردی ہوئی تواسکانتیجہ پاکستان سے جنگ کی صورت میں ہوگا۔یہ بات بھارتی بلندترین سطح سے لے کرنچلی سطح،یعنی ہرلبوں پردہرائی گئی۔پٹھان کوٹ سانحہ کی طرف آئیے۔
مجھے یقین ہے کہ اس حملہ میں پاکستان کی کسی قسم کی معاونت یامددشامل نہیں۔انڈین میڈیانے انتہائی اشتعال انگیزاور غیرذمے دارانہ باتیں بھی کیں۔مگراس کے باوجود ہندوستان کے وزیراعظم نے انتہائی متوازن رویہ رکھا۔انھوں نے پاکستان کے متعلق کوئی منفی بات نہیں کہی۔بلندترین سطح پرمنطقی رویے کااظہارپہلی بارہواہے۔اسکاتمام کریڈٹ جناب نوازشریف کوجاتاہے جنہوں نے باہمی تعلقات کوذاتی سطح سے اُٹھا کر دونوں ملکوں کے درمیان اعتمادسازی میں بدل دیا۔یہ کریڈٹ ہرصورت نوازشریف کوملناچاہیے۔