تبدیلی آگئی ہے یارو
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے گریڈ بیس کے ایک بیورو کریٹ بیرون ملک تشریف لے گئے
خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے گریڈ بیس کے ایک بیورو کریٹ بیرون ملک تشریف لے گئے اہلیہ اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے، ہوائی اڈے سے ایک رشتہ دار کے گھرکے لیے ٹیکسی میں روانہ ہوئے ،ڈرائیور نے بھانپ لیا کہ مسافر پاکستانی ہیں، پوچھا!کیا آپ پاکستان سے ہیں؟ جواب ملا جی ہاں!ٹیکسی ڈرائیور بولا میں بھی پاکستان کے شہر گجرات سے ہوں،بیورو کریٹ موصوف نے حال احوال پوچھا اورجونہی یہ کہا کہ ہمارا تعلق پشاور سے ہے تو ڈرائیور کی باچھیں کھل اٹھیں، کہنے لگا میں تو یہاں بیرون ملک آ کر پچھتا رہا ہوں، سنا ہے کہ پشاور پیرس بن گیا ہے؟
اس سے پہلے کہ بیورو کریٹ کچھ کہتے ڈرائیور نے ایک اور سوال داغ دیا میں نے یہ بھی سنا ہے کہ عمران خان نے آپ کے صوبے میں بجلی کے بڑے کارخانے لگا دیے ہیں،بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے،بڑے بڑے برج بن گئے ہیں ، انڈر پاسز تعمیر ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور سوال کرتا ،بیورو کریٹ نے پوچھا کہ دوست تمھیں یہ سب کس نے بتایا ۔کہنے لگا کہ سوشل میڈیا پر پشاور کی تصویریں دیکھتا ہوں ان پر لاکھوں لائیکس آتے ہیں ان تصویروں کو لاکھوں لوگ پسند کرتے ہیں ،کیا یہ سب جھوٹ ہے؟بیورو کریٹ کی اہلیہ نے شوہر موصوف کو دیکھا بچوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی سب نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ڈرائیور نے پھر پوچھا کہ کیا ایسا نہیں ہو رہا، آپ خاموش کیوں ہوگئے ہیں؟
اب بیورو کریٹ کی باری تھی ،کہنے لگے برخوردار پشاور اب کا پیرس نہیں بنا بلکہ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تب سے پیرس بن چکا ہے وہی پیرس جہاں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں تو ساری دنیا متحد ہو گئی، سارے فرانس میں جلوس نکال کر مرنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا،تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم کی آنکھیں بھیگ گئیں لیکن پشاور والے پیرس میں ہزاروں دھماکے ہوئے حتیٰ کہ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ ہوا لیکن کوئی ایک جلوس بھی نہ نکلا ہمارے پیرس کے علاقے چڑوی کوبان میں دھماکے سے درجنوں افراد شہید ہو گئے لیکن وزیر اعظم کی آنکھیں بھیگیں نہ کاروبار زندگی بند ہوا۔
تمھارے پیرس والے تو دو واقعات سے گھبرا گئے ہمارے پیرس میں تو ہزاروں دھماکے ہمارا رویہ نہ بدل سکے، چلو رہنے دو تم نے ٹھیک کہا، عمران خان کا پشاور پیرس بن گیا ہے،بیورو کریٹ نے جذبات سے نکلتے ہوئے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور جو سب کچھ حیرانگی سے سن رہا تھا اب جاننا چاہتا تھا کہ عمران خان کا پیرس کیسا ہے؟بابا رہنے بھی دیں آپ نے ڈرائیور کی بات کو سیریس لے لیا، بڑا بیٹا والد سے مخاطب ہوا، لیکن اب بیوروکریٹ موصوف جو پہلے ہی پی ٹی آئی کی حکومت سے ناراض تھے، کہاں خاموش رہنے والے تھے انھوں نے لمبی تقریر شروع کر دی اور اس وقت تک بولتے رہے جب تک ائیر پورٹ سے پچیس کلومیٹر دور گھرنہیں آ پہنچا۔
جب سے خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تبدیلی کے نعرے لگ رہے ہیں۔حکومت نے بہت کچھ تبدیل کیا مثال کے طور پر قانون سازی میں کمال مہارت دکھائی۔اسمبلی سے کئی اہم قوانین منظور کروائے یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز میں قوانین کی کوئی کمی نہیں مگر اصل مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے ۔لوگوں نے یہ تبدیلی بھی دیکھی کہ ایک سیاسی جماعت قومی وطن پارٹی کوجو پی ٹی آئی کی سیاسی حلیف تھی کرپشن کے الزامات کے باعث اسے حکومت سے الگ کر دیا گیا۔یہ تبدیلی کیا کم تھی کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ہی ایک وزیر شوکت یوسف زئی اور مشیر یاسین خلیل کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا،کہنے والے کہتے ہیں کہ ان پر کرپشن کا الزام تھا لیکن پی ٹی آئی نے انھیں ہٹانے کا جواز ان کی مایوس کن کارکردگی قرار دیا۔
اس تبدیلی کو کیا کہیئے گا کہ قومی احتساب بیورو کے ہوتے ہوئے صوبائی احتساب کمشن بھی بنا ڈالا جس نے دھڑا دھڑ گرفتاریاں شروع کر دیں اس کمشن کوسیاسی انتقام کا کمشن قرار دیا گیا لیکن حکومتی عہدے دار اپنے صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی کا نام فخر سے لیتے ہیں کہ جنھیں اسی احتساب بیورو نے گرفتار کر رکھا ہے۔اس سے بڑی تبدیلی کیا خاک ہو گی کہ کمیشن مافیا کی بجائے ترقیاتی کام ہونے سے پہلے کنسلٹنٹس مقرر کیے گئے جنھوں نے عرق ریزی سے سارے منصوبوں کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لیا اور جو کروڑوں روپے لیے وہ تو ان کا جائز حق تھا۔ اسپتالوں میں بھی تبدیلی دیکھی گئی کہ چیف ایگزیکٹوز بنائے گئے، بورڈز بنے اور نجانے کیاکیا اصلاحات ہوئیں۔
بلدیاتی انتخابات بھی تو اسی حکومت نے کروائے، کیا ہوا کہ تھوڑی سے گڑ بڑ ہو گئی، وہ بھی یہ ٹی وی چینلز والے واویلا کرتے ہیں وگرنہ دھاندلی کہاں نہیں ہوتی؟ اور اگر کسی کو اعتراض تھا تو ثبوت پیش کرتے، عدالتوں میں جاتے دو چار کروڑ روپے خرچ کرتے انصاف مل جاتا۔اب پولیس ہی کو دیکھئے کہ کیا کمال کی پولیس بن گئی ہے کوئی ایف آئی آر ہی درج نہیں کروا رہا یہ الگ بات کہ پولیس ہوشیار بھی ہو گئی اور جن معاملات پر ایف آئی درج ہوا کرتی تھیں وہ اب سارے کے سارے عدالتوں کو بھجوا دیے جاتے ہیں تو ایف آئی آر کیا خاک درج ہو گی، عدالتیں جانیں اور جج جانیں، رہ گئی بار حق اور حق دار کی تو پاکستان تحریک انصاف نے یہ کب کہا کہ حق دار کو اس کا حق بھی وہ لے کر دیں گے، سارے کام تو پی ٹی آئی کرنے سے رہی۔
یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ہوں تو پی ٹی آئی کی کارکردگی دکھائی دے کیونکہ عمران خان اور پرویز خٹک دونوں فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو ووٹ ترقیاتی کام کرنے کے وعدوں پر تو ملے ہی نہیں سڑکوں اور گلی محلوں کو پکا کرنے کا نہ کسی نے کہا اور نہ ضرورت ہے ۔ہاں پشاور کو پیرس بنانے کی بات ضرور ہم نے بھی سنی تھی مگر یہ تو نہیں کہا تھا کہ یورپ اور فرانس والا پیریس بنے گا، پیرس تو کہیں بھی بن سکتا ہے اور اگلے چند دنوں میں پشاور میں ایک اوور ہیڈ برج ریکارڈ مدت میں تیار ہو رہا ہے وہ تو پیرس میں ہے یا نہیں لیکن پاکستان میں اپنی نوعیت کا دوسرا دو منزلہ اوور ہیڈ ہوگا اس پر لائٹیں بھی لگیں گی، رات کو خوب روشنی ہو گی اور پھر سارے سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی ہوگی۔
عام آدمی کو اس حکومت نے کیا دیا یہ کسی نے سوال کیا اور نہ کسی سیاسی جماعت نے پوچھا کہ جو اپوزیشن میں ہیں ان میں دم خم نہیں اور جو حکومت میں ہیں ان میں سمجھ بوجھ نہیں کہ انیس لاکھ کے شہر پشاور میں ستر لاکھ اور صوبے میں تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کو کیا چاہیے ؟رہ گئی بات پیرس کی تو کوئی مانے نہ مانے پشاور پیرس بن گیا، مردان لندن کی طرح دکھائی دے رہا ہے،ایبٹ آباد تو کب کا آسٹریا کا شہر انسبروک بن چکا۔چترال اور سوات پہلے سوئٹزر لینڈ تھے، ان کے شہروں جینیوا اور لوزان میں تبدیل ہو چکے اور ہاں ایک ارب پودے لگنے کے بعد تو جنوبی اضلاع ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم اور ناروے کے شہر اوسلو سے کم دکھائی ہی نہیں دے رہے !صرف بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے لوگ ہمارے یورپ کی سیر کو آنے سے ڈرتے اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بنی گالا میں رہتے ہیں!