عام اندھیرے

اس دنیا میں دہرے معیارکا سلسلہ ہرطرف ہے اور خصوصاً عالمی سیاست میں اس کے قدم بہت مضبوط ہیں



اس دنیا میں دہرے معیارکا سلسلہ ہرطرف ہے اور خصوصاً عالمی سیاست میں اس کے قدم بہت مضبوط ہیں اورعالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت دنیا کے وسائل اور دنیا کے لوگوں کی ''محکومیت کو بالواسطہ'' استعمال کر رہے ہیں۔

ماضی کے مسلمانوں کے شاندارکارنامے اور درخشاں ماضی کو دھندلانے کے لیے بین الاقوامی طور پر ہر وہ کوشش کی جا رہی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ''معتوب'' کیا جائے اور''ظالم'' قرار دے کر اس کے شاندار ماضی کی فتوحات کو محض ''ظلم'' قرار دیا جائے۔ تاریخ ہر چندکہ بے حد مسخ ہے اور اس میں من مانی تاویلات اور اندراجات قوموں نے کروالیے ہیں اورکررہی ہیں۔ بنگلہ دیش، بھارت اس علاقے میں خاص طور پر ''امن کے دشمن'' بن چکے ہیں اور انھوں نے اپنے ''خونی ناخن'' اب دکھا بھی دیے ہیں جو وہ گزشتہ ساٹھ برس سے اپنے پنجوں میں دبائے ہوئے تھے۔

اقوام عالم نے اس خطرے کے پیش نظرکہ مسلمان ممالک کے عوام جری اور برداشت کے حامل ہیں لہٰذا ہر قسم کے حالات اور معاملات میں ان کی کامیابیوں کے امکانات زیادہ ہیں ،ایک نام نہاد امن قائم کرنے کا ادارہ قائم کیا جسے UNO کا نام دیا گیا جب کہ اس میں UN سمیت تمام وہ بڑی قوتیں ہیں جو دنیا میں ظلم وستم کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں اور ان کی ہی یہ آرگنائزیشن بھی اس مقصد کے تحت ہے کہ جب مسلمان ملکوں کی طرف سے ردعمل کا خطرہ ہو تو UNO کا سہارا لیا جائے۔

مشرقی تیمورکو چند دنوں میں ایک آزاد ملک بنادیا گیا، اس میں ان کا مفاد تھا۔ فلسطین،کشمیر اور دوسرے مسائل اب نصف صدی کے دوسرے حصے میں داخل ہوگئے ہیں، مزید 50 سال بھی ان کا حل تلاش نہیں کیا جائے گا۔ ظالموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اور مظلوموں کے بچے سمندر میں ڈوب کر مرتے رہیں گے۔گوگل پر جاکر دیکھیں دوسری جنگ عظیم کے وقت وہ قومیں جو آج مہذب کہلاتی ہیں کس طرح لڑیں اور ان کی نقل مکانی کا کیا عالم تھا کہ بحری جہازوں پر یہ چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے اور ان علاقوں کی طرف جا رہے تھے جن کے لوگ اب ان کی طرف جا رہے ہیں۔ ان پر یہ عذاب بھی ان کا ہی نازل کیا ہوا ہے۔

امریکا نے اپنے ملک میں صدارتی نظام قائم کیا ہوا ہے، برطانیہ میں پارلیمانی نظام ہے۔ یہ دو ایک نظام کے ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ یہ اپنی ضرورتوں کے قانون بناتے اوراس پر عمل کرتے ہیں۔

امریکا کی جانب سے جمہوریت کا بہت پرچارہوتا ہے اور برطانیہ کی جانب سے بھی، فرانس بھی اس میں شامل ہے اور یہ سب مل کر مشرق وسطیٰ میں سعودی حکمرانی یعنی بادشاہت کی حفاظت کرتے ہیں ایک لفظ ان بادشاہتوں کے خلاف نہیں ادا ہوتا جو سعودیہ اور مشرق وسطیٰ میں قائم ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حجاز اور دوسری عرب ریاستوں میں قائم ہے کیونکہ سعودیہ دراصل تو حجاز ہے جس پر قبضہ کرکے سعودی قبیلے نے اسے سعودی عرب قرار دے دیا۔ ۔ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ ان کے interest کہاں محفوظ رکھے گئے ہیں اور ان کے Operational Spots کہاں ہیں، یہ بات اب تمام لوگ سمجھ رہے ہیں اور یہ کس کے کہنے پرکیا جا رہا ہے۔

امریکا اسرائیل کے مفادات کو Secure کرنے کے لیے اسلامی ملکوں میں دہشت گردی کا راج قائم کیا گیا ہے اور چونکہ پاکستان زیادہ اسلام پسند نظر آتا تھا، لہٰذا اس کا یہ تشخص ختم کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیارکیا گیا جس سے پاکستان، افغانستان کمزور ہوں، متحارب ہوں۔

بھارت تو ہے ہی ان کا پٹھو اور وہ خود پاکستان کا دشمن ہے، لہٰذا امریکا نے اس سے دوستی اور معاہدے کرکے پاکستان کی پیٹھ میں وہ چھرا گھونپ دیا جو وہ پچاس سال سے لیے پھر رہا تھا پاکستان کے پیچھے اور موقع نہیں مل رہا تھا۔ 71 میں اسے آدھا کیا گیا اور اب 2015 تک اسے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے اب ہم تباہی کے دہانے پر ہیں، پارٹیوں کا ذکر کرنا فضول ہے سب کا ایک منشور ہے ''پاکستان کو لوٹو'' جس طرح بھی ممکن ہو لوٹ کر کھا جاؤ، اب اس میں ایک نئے کھلاڑی کا اضافہ ہوچکا ہے جو وزیراعظم بننے کے خواہشمند ہیں۔آصف زرداری کو صدر بنا دیا تھا، نواز شریف بار بار وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو عمران خان بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ہماری باری آنے دو!

نہ کوئی تبدیلی عوام کے لیے آئے گی نہ کچھ بہتر ہوگا، اگر ان کے مطابق تبدیلی آگئی تو عمران خان وزیر اعظم بن جائیں گے اور یہ کہنا آسان ہے نظر نہیں آتا کیونکہ اس ملک میں ''عوام پر حکمرانی'' ہے ''عوام کی حکمرانی'' نہیں ہے یعنی ڈیموکریسیBy the people ہے صرف For نہیں ہے Of نہیں ہے۔

یعنی وہ جو کہا جاتا ہے Democracy in a system of the people for the people, by the people تو اس میں سے by the people کو نکال کر by the special people کردیا گیا ہے جس میں بھٹو خاندان جس میں اب بھٹو کم ''زرداری'' زیادہ ہے، ابھی مسلم لیگ (ن) کا میٹر چل رہا ہے تو شریف خاندان اور ساتھ ہی آگیا ہے نیا ''عمرانی خاندان'' تو ملک پر خاندانوں کی حکومت ہے۔ عوام صرف ٹیکس دیتے ہیں اور یہ شاہانہ خرچ کرتے ہیں، بندوبست ''ٹوڈرمل'' کے سپرد ہے، وہ عوام کا ''جوس'' ٹیکسوں کے ذریعے نکال کر شاہی اخراجات کے لیے بندوبست پورا کر رہے ہیں۔

New World Order میں ہے کہ ملکوں کو ملکوں کے حکمرانوں کے ذریعے تباہ کرو۔ بادشاہتیں جہاں سے تیل مل رہا ہے وہاں قائم رکھو بلکہ ان کی حفاظت کرو کہ کہیں وہاں جمہوریت نہ آجائے اگر جمہوریت آگئی تو No کہنا بھی آجائے گا اور یہ ان خون آشام لوگوں کے لیے مشکل ہے جن کے منہ افغانستان، پاکستان، شام، عراق، لیبیا اور دوسرے کئی اسلامی ملک کا خون لگ چکا ہے۔

اب ایک ملک ''بیمار'' نہیں ہے اور ایک ''مرد بیمار'' نہیں مگر یقین کیجیے ان میں کوئی اتاترک نہیں۔ یہ سب فرضی کردار ہیں، اگر غور سے دیکھیں تو ملک پر IMF اور ورلڈ بینک کی حکومت ہے۔ یہی طریقہ ہے قوموں کو ''اپاہج'' بنانے کا، مقروض، نادہندہ بنانے کا اور یہ طریقہ پاکستان پر رائج کردیا گیا ہے اور اس کے لیے ان لوگوں کو پاکستان سے آرام سے مطلب کے لوگ مل جاتے ہیں اور ملتے رہیں گے۔

سارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی آئے سب کو ہٹا دے اور عمران کو وزیر اعظم بنادے یہ ان کا نقطہ عروج ہے اور یہی جدوجہد کا حاصل۔ کوئی پاکستان میں سونیا گاندھی بننے کو تیار نہیں ہے۔ زرداری نے صدارت کے مزے لوٹ لیے اب بلاول کو میدان میں اتار دیا ہے، اس کے دو فائدے ہیں ذرا سیاست کے تھپیڑے لگ جائیں اور پھر ان کا ابو کی طرف واپسی کا سفر ہوجائے تو وہ ایک بار پھر پاکستان میں متحرک ہوجائیں۔ فی الحال تو بہت خطرات لاحق ہیں لہٰذا وہ پاکستان بھی نہیں آرہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ورلڈ آرڈر میں ایک برباد پاکستان تجویز تھا اور اس پر مکمل عملدرآمد کی تیاریاں ہیں، دو طرفہ مخاصمت اور اندرونی تماشے ہمیں اس منزل کی طرف دھکیل رہے ہیں جو نیو ورلڈ آرڈر کی منزل ہے، معیشت تو گروی ہوچکی ہے، اب غیرت اور محبت بچی ہے، اگر بچی ہے گروی ہونے کے بعد تو اس کا سودا کرنے کا کام جاری ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ کام بھی باقاعدہ اور اچھی طرح ہو رہا ہے اور وہ آپ کو اس طرف لے جا رہے ہیں جو اندھیرا کونہ ہے کہ اس میں تباہی اور بربادی کا ڈھیر ہے۔

عام اندھیرے تو ہمارا مقصد ہوچکے ہیں، ہم آدھے بک چکے ہیں، آدھے کا سودا ہونا باقی ہے یوں سمجھیں پاکستان کو ''پرائیوٹائز'' ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگنے والا اور یہ سودا سر پر ہے۔ کاش کا لفظ عجیب ہے مگر کہنا پڑتا ہے کہ ''کاش! ایسا نہ ہوسکے کاش کوئی پاکستان کی صفیں درست کردے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔