شادی کیجیے شادی

آج کے والدین زیادہ تعلیم یافتہ اور با شعورہیں اسی لیے وہ اپنے بچوں کی شادی کیلئے بزرگوں سے مشورہ لینا پسند نہیں کرتے۔


رضوانہ قائد January 14, 2016
نچلے طبقے کیلئے ’’رشتے کی تلاش‘‘ مسئلہ نہیں کہ وہاں رشتے بچپن میں طے پاتے ہیں اور وہ دیگر لوازمات میں بھی قناعت کرلیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کی مالی آسودگی بھی مسائل سے بچاتی ہے۔ اصل مسئلہ تو متوسط طبقہ کو ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

''اف! بس بہت ہوگیا، اب جیسی بھی لڑکی ہے، قسمت پر بھروسہ کریں کیونکہ ہمارے لیے یہ غیر اخلاقی سرگرمی اب ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔''

بھائی کی شادی کے سلسلے میں آئے دن کی ملاقاتوں سے کوفت ذدہ ہو کر بالآخر ہم نے 'بھابی تلاش مہم'' کے خاتمے کا اعلان کر ڈالا۔ ساتھ ہی اس سلسلے کی گزشتہ ملاقاتوں پر اثر انگیز تجزیہ بھی رکھ دیا۔ اس باہمت اقدام کے باعث ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائی صاحب کو بھی بادلِ ناخواستہ اپنے ہم پلہ تصوراتی پیکر کی تلاش سے دستبردار ہونا پڑا۔ پھر ان کی شادی وہاں ہوئی جہاں ان کی قسمت تھی۔ معاشرے میں سال کے 12 ماہ جاری اس سرگرمی میں ہماری شرکت کا یہ پہلا اور (خدا کرے) آخری موقع تھا۔

سماجی روابط میں اضافے کی خاطر ہم اس نام نہاد کارِ خیر میں تعاون کے لیے آمادہ ہوئے تھے۔ مگر جب یکے بعد دیگرے چند ہی جگہوں پر ملاقاتوں کے تجربات ہوئے تو ہمیں اس قسم کے مواقع کی نزاکتوں کا گہرا احساس ہوا۔ ہر گھرانے میں لڑکی کے سلسلے میں ملاقات کا الگ ہی انداز، الگ داستان، عنوان سب کا ایک ہی، من پسند رشتہ و شادی۔ خوابناک تصورات سے بھرپور یہ عنوان بظاہر بڑا خوش کن ہے۔ مگر اس عنوان کے تحت ہونے والی سرگرمیوں نے ہمارے معاشرتی چلن کو جس طرح بوجھل کردیا ہے اس کا اندازہ آج کل انجام پانے والی شادیوں سے بخوبی ہوتا ہے۔

شادی یا گھر بسانا ایک اہم دینی فریضہ اور کارِ خیر ہے اور الحمدُاللہ! ہمارا دین اس پرعمل کے لحاظ سے نہایت سہل ہے۔ جہاں اس کام کو اختیار کرنے کے لیے قدم قدم پر رہنمائی موجود ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ ان کے ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے رہنما خود بن بیٹھے ہیں اور اس کام کو مشکل تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے غیر شادی شدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جس کے سبب بے حیائی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشرے میں یہ صورتحال اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ ہمارے رویوں اور رحجانات کی غیر ذمہ دارانہ تبدیلی نے اس کی راہ آسان کی ہے۔ اس ضمن میں اگر ہم چند عشرے پیچھے دیکھیں تو اس سلسلے میں لوگوں کا معیار اور طور طریقے آج کے دور سے کہیں مختلف نظر آتے ہیں۔ خاندان حسب و نسب، شرافت، دینداری، سلیقہ اور معاشرتی آداب، لوگوں کی اولین ترجیحات ہوا کرتے تھے۔ اوائل عمر سے ہی بچوں کے نکاح کے لیے والدین اور بزرگ متحرک ہوجایا کرتے تھے۔ لڑکی ہو یا لڑکا، والدین اپنا معیارِمطلوب کو ترجیحاً قریبی خاندان یا برادری میں تلاش کرتے تھے اور اگر اس معیار میں کوئی کمی دیکھتے تو اسکو بھی اخلاص کے ساتھ ہم پلہ بنانے کی کوشش کرتے اور قسمت پر بھروسہ کرتے۔ اگر رشتہ ہوجاتا تو دونوں فریقین کی جانب سے رشتہ نبھانے کی حتمی الامکان کوشش کی جاتی۔ ذہنی ہم آہنگی سے زیادہ، محبت، ایثار اور قربانی کا جذبہ رشتوں میں استحکام اور استقامت پیدا کرنے کا باعث بنتا تھا۔ کسی تنازعے کی صورت میں دونوں کے بزرگ اصلاح کی ذمہ داری نبھاتے۔ فریقین بھی اس کو انا کا مسئلہ نہ بناتے اور زیادہ تر اصلاح پر آمادہ ہوجاتے۔ یوں معاشرے میں طلاق کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

اس طرح صالحیت کے ساتھ خاندانی نظام معاشرتی شرافت کے دائرے میں پروان چڑھتا بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا کچھ نہیں، یہی معاشرے کا عام رحجان ہوتا تھا۔ اس طرح مسلمانوں کے گھر اسلامی روایات کی مضبوط فصیلوں کے ساتھ اسلام کے قلعے ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم اپنے موجودہ دور پر نظر ڈالتے ہیں تو شادی کے سلسلے میں ''بہو یا داماد'' کی تلاش ہی گویا زندگی کا مقصدِ عظیم نظر آتا ہے۔ خود پسندی اور مادہ پرستی کی دوڑ نے اس کوایک مسئلہ بناکر رکھ دیا ہے۔ کم تعلیم یافتہ یا نچلے طبقے کے لیے یہ ''تلاش'' مسئلہ نہیں بنتی کہ وہاں رشتے عموماً بچپن میں طے پاتے ہیں اور وہ شادی کے دیگر لوازمات میں اپنی کم مائیگی پر قناعت بھی کرلیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کی مالی آسودگی بھی کسی حد تک مسائل سے بچاتی ہے۔ اس سلسلے میں مسئلے کا زیادہ شکار متوسط طبقہ ہے۔

یہاں نہ رشتے بچپن سے طے ہونے کا اطمینان ہوتا ہے نہ مالی استحکام، پھر مشرقی روایات سے انحراف، بلند معیارِ زندگی کا جنون، لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہونا مزید مسائل کا باعث ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے جاری سحر انگیز تہذیبی یلغار گویا تمام تر توپوں کا رخ ہمارے خاندانی نظام کی جانب ہے۔

آج کے والدین ماضی کے والدین کے برعکس زیادہ تعلیم یافتہ اور با شعور ہیں (چاہے وہ شعور کسی درجے کا ہو) لیکن وہ اپنے بچوں کی شادی کے سلسلے میں بزرگوں کے مشوروں کو اہمیت دینا پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف نوجوانوں کے اپنی شریکِ حیات کے لیے تصوراتی پیکر (ideals) ہوتے ہیں۔ جنہیں ڈھالنے میں میڈیا اور بدلتی اقدار کا بڑا ہاتھ ہے۔

لڑکیوں کے والدین من پسند بَر کی خواہش میں اپنی بچی کو کئی سال بہترین تعلیمی اداروں میں مہنگی ترین تعلیم دلاتے ہیں۔ اس کے ظاہری حلیے کی بھی خوب فکر کرتے ہیں۔ رشتہ کا موقع آئے تو گھر کی آرائش اور ممکن ہو تو رہائش تک مزید اچھے اور پوش علاقوں میں منتقل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پھر سسرال والوں کو مرعوب کرنے کی خاطر جہیز کو بھی عزت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ لڑکے پر دباؤ قائم کرنے کے لیے ''مہر'' کی شاندار رقم طے کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے۔

دوسری طرف لڑکے والوں کا بھی حال کچھ مختلف نہیں۔ لڑکا جتنا خوبصورت، تعلیم یافتہ اور معاشی حالت جتنی زیادہ مستحکم ہو، اُس کے لیے لڑکی کے انتخاب کا مرحلہ اتنا ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ میڈیا کی ہوش رُبا چکا چوند اور معاشرے میں بے پردگی کے عام رحجان نے انہیں دنیا میں ہی انہیں ''حوروں'' کا طلبگار بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ لڑکی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوئی لڑکی ان کے معیارِ بلند تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ کوئی چھوٹی، کوئی موٹی، کوئی سانولی کہیں تعلیم کا مسئلہ، کہیں مالی حالت کمتر ہے اور کہیں رہائشی علاقہ رکاوٹ بن جاتا ہے۔ غرض جانچ پرکھ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔

ان حالات میں جب ہم اپنے دین کے طریقے کی طرف دیکھتے ہیں تو گھر بسانے کے فرض کو نہایت آسان و سادہ اور بابرکت پاتے ہیں۔ سب سے کم خرچ شادی کو سب سے زیادہ بابرکت کہا گیا ہے۔ نکاح کا اولین مقصد نگاہ کو نیچا رکھنا اور شرم گاہ کی حفاظت بتا کر ایک طرف بے حیائی کے امکانات کو روکا گیا ہے تو دوسری طرف ملتِ اسلامیہ کی بقاء اور قوت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ رشتے کے انتخاب کا اصل معیار چار چیزوں کو بتایا ہے۔ یعنی مال، حسب و نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ پھر ان سب میں دین داری کو مقدم رکھا گیا اور مسلمان کی شان قرار دیا گیا، پھر ایسا نہ کرنے کی صورت میں زمین میں فساد فتنہ اور بڑی خرابی پیدا ہو جانے کی پیش گوئی کی گئی۔

اس پیش گوئی کو آج ہم اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بلند معیارِ زندگی کی دوڑ اور ایک دوسرے کی تقلید نے فریضہ نکاح کو بے حد بوجھل بنا دیا ہے۔ دین کے فراہم کردہ اعلیٰ معیار اور طریقے کو چھوڑ کر معاشرتی رسم و رواج کی بھاری بیڑیاں پیروں میں ڈال لی گئی ہیں۔ نتیجے میں الہٰی برکات اور خدا کی حفاظت سے محروم ہوگئے ہیں۔

اس گھمبیر صورتحال میں آج بھی بابرکت شادیاں منعقد ہوتی ہیں۔ جہاں رشتے کی ابتداء سے لے کر نکاح و ولیمے کی تقریب تک اسلامی ہدایت کی روشنی میں انجام پاتی ہیں اور معاشرے کو پیغام دیتی ہیں کہ اسلامی اقدار و روایات کی پاسداری کی جائے تو،
''فریضہ نکاح اتنا ہلکا پھلکا اور سہل ہے جیسے مسلمانوں کے لیے نمازِ جمعہ کی ادائیگی''۔

شادی کو واقعی مبارک بنانے کے لیے کتنا آسان اور با وقار ہے۔ ہمارا دین ہمارا طریقہ اور ہماری معاشرت ہمارے اور آپ کے لیے۔
وہی ہے صاحبِ اِمروز جس نے اپنے ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فرَدا
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہوگئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختئی خارا
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا

[poll id="890"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں