جھوٹ کی کالک

2009ء میں اس ویڈیو کے منظر عام کے آنے کے کچھ دن بعد ہی میں نے ایک کالم "جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے"


Orya Maqbool Jan January 15, 2016
[email protected]

NEW DELHI: ٹھیک چھ سال بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا جس میں ایک لڑکی کو سوات میں کوڑے لگائے جا رہے تھے اور جس نے پاکستان بھر کے میڈیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ ان چھ سالوں میں اس ویڈیو پر بے شمار ٹاک شو ہوئے، لاتعداد کالم لکھے گئے، پورے ملک میں ایک فضا بنائی گئی، سوات کے مذاکرات کالعدم، آپریشن شروع۔ ہو سکتا ہے آپریشن کی اور بھی وجوہات ہوں لیکن اس آپریشن کا عوام میں جواز پیدا کرنے کے لیے اسی ویڈیو کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج چھ سال بعد سپریم کورٹ اسے جعلی، جھوٹی اور فراڈ قرار دیتی ہے۔

2009ء میں اس ویڈیو کے منظر عام کے آنے کے کچھ دن بعد ہی میں نے ایک کالم "جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے" کے عنوان سے اسی ایکسپریس اخبار میں تحریر کیا اور میں نے بغیر کسی تعصب کے اس ویڈیو کا تکنیکی اعتبار سے جائزہ لیا۔ کاش یہ تکنیکی جائزہ انھی دنوں میں سپریم کورٹ کی نظروں کے سامنے آ جاتا، کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ہی زیرِ بحث آ جاتا، لیکن اس وقت تو سب پر ایک خمار چڑھا ہوا تھا۔

میں نے تحریر کیا تھا۔ "ایسا تو کوئی بددیانت، بدکردار، ظالم اور جابر تھانیدار بھی نہیں کرتا کہ اس کے سامنے ایک تصویر، فلم یا موبائل میں موجود کوئی مبہم سی ویڈیو رکھی جائے اور کہا جائے کہ اس میں کیا جانے والا جرم فلاں قصبے، گاؤں، علاقے یا فلاں فرد نے کیا ہے اور وہ قلم کاغذ اٹھائے، رپورٹ بنائے، ایف آئی آر کاٹے اور پھر نفری لے کر اس طرف چڑھ دوڑے۔ ساری تفصیلات کسی کرائم رپورٹر کو بتائے اور پھر پورے علاقے میں اس کا چرچا کر دے۔

پاکستان کے گئے گزرے پولیس کے نظام میں بھی یہ جرأت کسی پولیس والے میں موجود نہیں۔ وہ جھوٹے کیس بنائے گا، جھوٹی ایف آئی آر کاٹے گا، بے گناہوں کو ملوث کرے گا لیکن جہاں کسی قسم کا لالچ نہ ہو، دشمنی نہ ہو، حکومت کی جانب سے غلط ہدایات نہ ہوں وہاں وہ معاملے کی تہہ تک ضرور پہنچے گا۔ میں نے گزشتہ 25 سال کی نوکری میں 10 سال ایسے گزارے ہیں جب میں جرم و سزا کی دنیا سے نبرد آزما تھا۔ زندگی کے 19 سال ٹیلی ویژن کا ڈرامہ لکھتے اسے ریکارڈ کرواتے، ایڈیٹنگ ٹیبل پر بیٹھے گزرے ہیں اور کسی بھی ویڈیو یا فلم کے ایک ایک فریم کو تجزیہ کرنے کا ہنر جانتا ہوں۔

9 سال کالم لکھتے اور صحافی برادری کی ہمرکابی میں گزرے لیکن اس سارے عرصے میں گزشتہ تین دن میں جس اخلاقی کرب اور اذیت سے گزرا ہوں ایسا میری پوری زندگی میں نہیں ہوا۔ میں نے اس بچی کو کوڑے مارنے والی فلم بار بار دیکھی اور ایک ایک فریم کر کے دیکھی جیسے ایڈیٹنگ ٹیبل پر دیکھی جاتی ہے۔

یہ فلم جس شخص نے بنائی ہے اس نے اپنی خباثت کو کمال مہارت سے استعمال کیا ہے۔ پوری فلم میں کیمرہ ایسی جگہ رکھا گیا ہے کہ کہیں سے کوئی عمارت، کوئی درخت، کوئی اشتہار، پس منظر میں کوئی پہاڑ یا عمارت نہ نظر آ سکے۔ یہاں تک کہ کیمرے والے نے کمال ہوشیاری سے تماشہ دیکھنے والوں کے صرف پاؤں دکھائے ہیں یا تھوڑی بہت شلواریں، کیمرہ خواہ موبائل کا ہو اس کو زوم (Zoom) کر کے یا پھر زاویہ بدل کر ہجوم کو لایا جا سکتا تھا لیکن مقصد یہ تھا کہ کل کو کوئی اگر ان لوگوں کو گواہی کے طور پر بلائے یا تفتیش کرے تو اصل حقیقت سامنے نہ آ جائے۔

اب آئیں اس سارے ڈرامے کے مرکزی کرداروں کی جانب، ان کا لباس، وضع قطع، چہرے پر لگائی گئی یا پھر اصلی بڑی بڑی داڑھی اور پھر چادریں یہ سب ان کے چہرے چھپانے کے لیے کافی تھے، لیکن پھر بھی کیمرے کو کلوزاپ میں لے جا کر ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا بلکہ کیمرہ تھوڑا آؤٹ آف فوکس (OutofFocus) رکھا گیا تا کہ شناخت نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود بھی وہ تینوں اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ کیمرے کے سامنے منہ نہیں کرتے تھے جیسے انھیں معلوم ہو کہ یہ فلم بن رہی ہے اور وہ کہیں پہچانے جائینگے۔ اب آتے ہیں آواز کی طرف جو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں ڈب (Dub) کی گئی ہے۔

ہجوم کا کوئی شور نہیں۔ کئی دفعہ کوڑا ہوا میں ہوتا ہے اور چیخ پہلے بلند ہو جاتی ہے۔ لیکن سب سے بڑا مضحکہ خیز کمال یہ ہے کہ غلطی سے فلم مکمل طور پر ایڈیٹ (Edit) ہونے سے رہ گئی ہے۔ کوڑے پڑنے کے بعد یوں لگتا ہے ڈائریکٹر نے کہا "کٹ" اور زمین پر لیٹی ایکٹریس فوراً اٹھ کھڑی ہو گئی۔ اس کے نزدیک تو یہ سین فلم میں سے ایڈٹ ہو جانا تھا، ورنہ وہ اتنے سارے کوڑے کھا کر وہیں پڑی کراہتی رہتی۔ لیکن جیسے فلموں کے سین میں روتی ہوئی ہیروئن کٹ کی آواز آنے پر فوراً ہنسنے لگتی ہے ویسے ہی اس لڑکی نے کیا۔

مجھے اس میڈیا پر شرمندگی ہو رہی ہے جس کا میں حصہ ہوں۔ ان سارے چینلوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو رپورٹر کی تنخواہ لیتے ہوں گے۔ جن کا کام حقائق تک پہنچنا اور چھان پھٹک کر لوگوں کو دکھانا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھاجو اس ویڈیو کو چلانے سے پہلے تحقیق کر لیتا۔ نام پتہ اور مقام معلوم کر لیتا۔ ویڈیو چلتی رہی لیکن اس کے ساتھ میرے ملک کے اس میڈیا پر اس ڈرامے کی بنیاد پر اسلامی نظام کا تمسخر اڑایا جاتا رہا۔ گز گز کی زبانیں اسے فرسودہ، جاہلانہ، ظالمانہ اور دقیانوسی نظام قرار دیتی رہیں۔ اس سارے ڈرامے میں اگر کوئی مظلوم تھا تو وہ اسلامی نظام تھا جس نے حدود نافذ کیں۔

رسول ﷺ کے زمانے میں لوگ اخلاق اور آخرت کی جوابدہی کے خوف سے اتنا ڈرتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے آ کر اقرار کرتے کہ ہم سے یہ جرم سرزد ہو گیا ہے ہم پر حد نافذ کیجیے، ہم آخرت کا عذاب سہنے اور برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، ایک عورت تو حاملہ تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کہا جاؤ پہلے بچہ پیدا کرو، اسے دودھ پلاؤ اور پھر دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔ اسے آخرت کے عذاب کا اتنا خوف تھا کہ پھر آئی اور اس پر حد نافذ ہوئی۔

کوڑے نہیں بلکہ سنگساری۔ اس پورے معاشرے میں کسی نے اسے فرسودہ، ظالمانہ، جاہلانہ اور دقیانوسی نہیں کہا۔ لیکن قربان جاؤں ہمارے بعض دانشوروں پر، کہ ایک ڈرامائی تشکیل کردہ ویڈیو چلائی گئی اور پھر چوبیس گھنٹے تک اس کا مضحکہ اڑایا گیا۔ جس قوم کے اخلاق کے دیوالیہ پن کا یہ عالم ہو کہ موبائل پر موجود ایک ویڈیو نشر کر کے شرعی قوانین کا تمسخر اڑانے لگے وہ اللہ سے کسی رحمت کی طلبگار کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ، رسولﷺ، دین مذہب تو ایک طرف میرا دکھ عجیب ہے اور کربناک ہے۔

میں سوچتا ہوں جس ملک میں اخلاقی ذمے داریوں کا جنازہ اس طرح نکل جائے تو وہاں کہیں ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ لوگوں کے موبائلوں میں موجود معصوم بے گناہ بچیوں کی تصویرں اور غلط قسم کی فلمیں انسانی حقوق کے نام پر چلائی جانے لگیں۔ کراچی کے رینبو سینٹر اور لاہور کے ہال روڈ پر چلنے والی سکینڈل والی فلموں کو تحقیقی مواد سمجھ کر چلایا جائے اور پھر اس پر پروگرام ہو رہے ہوں۔ تبصرے اور جائزے نشر کیے جا رہے ہوں، کوئی ان کے خلاف یوم سیاہ منا رہا ہو اور کوئی اسے انسانیت کی تذلیل کہہ رہا ہو لیکن اس سب میں مظلوم وہ لڑکی یا لڑکا ہو گا جس کی ویڈیو نشر ہو گی۔ جو منہ چھپاتے پھریں گے، دعا کریں گے کہ انھیں زمین نگل لے یا آسمان اٹھا لے۔"

آج بھی کچھ نہیں بدلا، ریٹنگ کی دوڑ میں دیوانے اور بریکنگ نیوز کی تلاش میں سرکرداں یہ میڈیا ہر روز یہ کھیل کھیلتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کھیل کا نہیں ہے، یہاں مسئلہ اس ارادے کا ہے جو ایسی کہانیاں گھڑنے کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جو دو دھاری تلوار ہے۔ یہ وقتی طور پر تو کسی نظریے سے یا کسی شخصیت کے خلاف ایک فضا بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ تاریخ کی کسوٹی پر جھوٹ پرکھا نہ گیا ہو۔ جب ایسے جھوٹ کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹتا ہے تو وہ جو اس نظریے کے بارے میں ذرا بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ اس کے ساتھ سختی سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوات آپریشن میں میڈیا کے دو تحفے دیے۔

ایک یہ جعلی ویڈیو اور دوسری ملالہ یوسف زئی۔ ویڈیو کا جھوٹ تو ایک ایسی حقیقت تھا جسے سب جانتے تھے لیکن بولتا کوئی نہیں تھا۔کیا آج سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ اینکر پرسن، وہ کالم نگار اور تجزیہ کار ایک لمحے کو اپنے گریبان میں جھانک کر شرمندگی اور ملامت سے خود کو دیکھیں گے؟ شاید نہیں، کہ ایسا ظرف سازشی کہانیاں کہنے والوں میں کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی ملالہ یوسف زئی، تو یہ ایک ایسا نوبل انعام ہے جس پر کراچی سے لے کر گلگت تک شکوک شبہات ہیں۔

پاکستان کے طول و عرض میں کوئی اسے ہیرو کے درجے پر نہیں رکھتا، سوائے موم بتیاں روشن کرنے والی ڈونرز کے پیسوں پر چلنے والی این جی اوز، مغرب کی بے سروپا نقالی کرنے والی سول سوسائٹی اور میڈیا۔ یہ تھے سوات آپریشن کے انعامات اور جو بیتا اورآج بھی بیت رہا ہے اس کے بارے میں کل کا مؤرخ جب لکھنے لگے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے تاریخ سے کھرچ سکے گا، ایسے میں جھوٹ کی کالک کس کس کے چہرے پر ملی جاتی ہے ، یہ تو وقت بتائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں