ضرورت ہے علم کی
آج کل کے دور میں علم حاصل کرنا در اصل ڈگریوں کو جمع کرنے کے عمل کو کہا جاتا ہے،
ایک دفعہ حضرت سلیمان فارسیؓ کو دریائے دجلہ کے کنارے جانے کا اتفاق ہوا، آپؓ کے ساتھ ایک شاگرد بھی تھا، حضرت سلیمان فارسیؓ نے شاگرد سے گھوڑے کو پانی پلانے کو کہا، شاگرد نے حکم کی تعمیل کی جب گھوڑا پانی سے اچھی طرح سیر ہوگیا تو آپؓ نے فرمایا ''اچھا بتاؤ، کیا اس جانور کے پانی پینے سے دجلہ میں کوئی کمی واقع ہوئی؟''
اس نے کہا: ''جی نہیں''
آپؓ نے فرمایا ''علم کی مثال بھی ایسی ہی ہے، اس میں سے جتنا بھی خرچ کیا جائے یہ گھٹتا نہیں''۔
ہمارے مذہب میں علم کی بہت اہمیت ہے، پہلا لفظ جو رب العزت سے اپنے پیارے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا ہوا وہ ''پڑھ'' ہی تھا، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کیوں کہ جو پیغام رب العزت نے قرآن پاک کی صورت میں اپنے بندوں تک پہنچایا وہ مکمل یقینی اور ابہام و شکوک سے پاک ہے، لہٰذا اس میں وہ تمام تحریر ہے جس میں سے ہمیں اگر، مگر ،چونکے چنانچے کی گنجائش نہیں ملتی اس کتاب سے ہم کس حد تک مستفید ہوتے ہیں اس کو کس طرح سمجھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کے علم سے مدد حاصل کرتے ہیں۔گویا علم سے مراد کچھ اس طرح سے ہے کہ جس سے انسان کو اپنی زندگی اپنے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کی زندگیوں کو سنوارنے، سمجھنے اور بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔
آج کل کے دور میں علم حاصل کرنا در اصل ڈگریوں کو جمع کرنے کے عمل کو کہا جاتا ہے، ان ڈگریوں کو حاصل کرنے میں کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، کتنے سال لگتے ہیں، محض اس کے رزلٹ پر نظر رکھی جاتی ہے اس سے کس حد تک مستفید ہوا جاسکتا ہے اس سے کسی کو کس حد تک فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے اس پر بھی فوکس نہیں ہوتا۔ یہ محض لکھنے کی حد تک محدود نہیں ہے عملی طور پر اس کا مشاہدہ ہوا تو یہ جان کر خاصا دکھ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس جانب چل پڑا ہے۔
''میرا بچہ فلاں اسکول میں پڑھتا ہے اس کی وین کے سلسلے میں میری اس ڈرائیور سے بات ہوئی تھی آپ چاہیں تو اس سے رابطہ کرسکتے ہیں''
آپ کا بچہ اس اسکول میں پڑھتا ہے، لیکن یہ اسکول تو بہت مشہور ہے لوگ یہاں داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے ہیں۔
وہ صاحب جو خود اس اسکول کے عملے میں ملازم تھے اپنے بچے کو ایک دوسرے مہنگے اسکول میں پڑھارہے تھے جس کی فیس خاصی تھی وہ یہ سن کر زیر لب مسکرائے، یہ تو ٹھیک ہے لیکن میں چاہتا تھا کہ میرے بچے کی بیس اچھی ہو، یہاں بھی اچھی تعلیم ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے کی ذرا انگلش اچھی ہوجائے، فائیو کلاس تک اسے بولنی تو آجائے''
لیکن اس اسکول کا معیار بھی بہت اچھا نہیں ہے، فیس بہت ہے اور بڑھتی ہی رہتی ہے، والدین اس پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
ہاں یہ صحیح ہے اس لیے میں اب بھی سرچنگ پر ہوں کہ کوئی اور اچھا اسکول مل جائے، دیکھیے ہم والدین اپنے بچوں کو اور کیا دے سکتے ہیں، اتنی مہنگائی ہے کہ کم از کم اچھی تعلیم تو دے سکتے ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنی بات ختم کی اور جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، حالانکہ ان کے اپنے ادارے کے نصاب کی صدائیں دور دور تک ہیں۔ کراچی اور ملک بھر میں ایسے اسکولز کی بھرمار ہے جہاں والدین داخلے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، ایسے ہی ایک بڑے اسکول جس کی عمارت کو ہی سو برس تو گزر چکے ہیں، اپنے اچھے معیار تعلیم کے لیے خاصا مشہور ہے، پانچ چھ برس پہلے ایک بچے کے داخلے کے سلسلے میں جانا پڑا، پتہ چلا کہ وہاں والدین رات سے ہی ڈیرے ڈال کے بیٹھتے ہیں، تب جاکر صبح لائن میں نمبر ملتا ہے، گراؤنڈ میں باقاعدہ بڑا سا شامیانہ لگتا ہے، اسکول سے خاصے فاصلے پر پولیس والوں کا پہرہ ہوتا ہے، گویا رات سے ہی ایک میلے کا سا سماں تھا۔
صبح پانچ بجے روانگی ہوئی تو بارش کی ٹپاٹپ جاری تھی، پہنچے تھے کہ شاید فرد واحد ہی ہوںگے، پر وہاں تو ایک ہجوم پہلے سے موجود تھا، رات سے بیٹھی خواتین اونگھ رہی تھیں، سب کو کوپن بٹ چکے تھے۔ جس کا اس میں قیام تھا، یونہی بلیک بورڈ کی جانب نظر پڑی، پہلی جماعت کے بچوں کو غالباً ہوم ورک مکمل کرایا گیا تھا، لکھائی ایسی تھی کہ جیسے ڈاکٹر مریض کو نسخے لکھ کر دیتا ہے، جسے صرف میڈیکل اسٹور والا ہی سمجھ پاتا ہے اور بہت سے تو سر ہلاکر صاف انکار کردیتے ہیں ''باجی ! صاف لکھواکر لایئے ورنہ کلینک کے پاس کی دکان سے ہی دوا خریدلیں'' خیر ذرا اور آنکھیں کھلیں تو جملے کی ابتدا انگریزی کے چھوٹے حروف سے کی گئی تھی، سمجھ اپنے بچپن کی جانب دوڑی جہاں ٹیچرز نے بڑی محنت سے بٹھایا تھا کہ جملے کی ابتدا ہمیشہ بڑے لیٹرز سے کی جاتی ہے اور یہاں تو کام کی ابتدا ہی بے توجہی سے یوں کی گئی تھی جیسے جلدی میں کام نمٹایا گیا ہو۔ ''اتنا اچھا اسکول ہے کہ بس بچے کو ادھر داخلہ دلادو اور بے فکر ہوجاؤ، بچہ کچھ نہ کچھ بن کر نکلے گا''
برابر میں بیٹھی خاتون دوسری خاتون سے بڑے وثوق سے فرمارہی تھیں۔ انگریزی بھی بہت اچھی ہوجاتی ہے ناں۔
دوسری خاتون نے اپنے خیال کی گواہی چاہی تو پہلی خاتون نے اثبات میں یوں بڑی دور سے سر ہلایا جیسے اس اسکول کی پبلسٹی کے لیے انھیں ہی تعینات کیا گیا ہو۔
ہماری ایک سینئر صحافی نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ''ارے بھئی ہمارے بچے تو یہیں قریب کے اسکول میں پڑھتے ہیں اور خیر سے ابھی ایک نے اے ون گریڈ لیا ہے، ایک بھتیجا تو گلی کے اسکول سے پڑھا اور انگلینڈ تک پڑھنے گیا، وہاں اس نے ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا اور پتہ ہے اس نے وہاں کتنی محنت کی اسے اپنے ٹیچرز کا لیکچر سمجھ نہیں آتا تھا اس نے اپنے ٹیچر سے شکایت کی تو موصوف کندھے اچکاکر بولے یہ آپ کا پرابلم ہے آپ خود حل کریں، چاہے تو لیکچر لکھیں، نہیں لکھ سکتے تو ریکارڈ کرلیں، یوں اس نے ریکارڈ کرنا شروع کیا اور ہوسٹل آکر وہ تمام ریکارڈ سنتا اور آرام سے اتارتا، پھر نوٹس بناتا اور ان ہی کو پڑھ کر ٹاپ کیا اس نے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان آکر اس کے لیے نوکری کا حصول مشکل بن گیا، ادارے اسے جاب دینے سے کتراتے کیوںکہ ان کے خیال میں اس کی قابلیت ان کے لیے بہت تھی، لیکن تجربہ نہیں تھا، ایک جوان بچہ جو ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہو اپنے ملک میں کام کرنا چاہتا ہو، تجربہ کہاں سے لائے، خیر خدا خدا کرکے اس نوجوان کو نوکری ملی وہ بھی اس کے معیار سے کم تنخواہ میں۔ ایک بار پھر داخلوں کی بہار شروع ہوچکی ہے یہ بہار ہر سال تعلیمی اداروں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور والدین کے لیے بھاری بھاری فیسوں کا بوجھ۔ ایسے ہی بھاری بوجھ تلے ان کے بچے امتحانی کاپیوں میں نائیجیریا کی بہترین فصل چپلی کباب کو قرار دیتے ہیں۔ ٹیپو سلطان کو بہت اچھا تاجر قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ آدھی امتحانی کاپی کسی دوسری لکھائی میں تحریر ہوتی ہے، کیا انگریزی ایسی ہی زبان ہے کہ اس میں لہلہاتے کھیتوں میں چپلی کباب اُگتے ہیں، یا بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ فصل کو انگریزی میں کروپ (Crop) کہتے ہیں، علم تو انگریزی میں بھی ہے اردو میں بھی اور عربی میں بھی، پھر یہ بوائی، بٹائی اور کٹائی کس عمل کی ہورہی ہے۔