مغربی نظام تمدن داعش اور پاکستان
بہت سے دانشور حضرات استعماری قوتوں کی مخالفت میں عالم انسانیت کی دہائی بھی دیتے رہتے ہیں
موجودہ معروضی حالات میں ہم 7 براعظم میں تقسیم کرہ ارض پر موجود عالم انسانیت کو فکری وعملی پہلوؤں کے لحاظ سے دو بنیادی اور اہم حصوں مشرق ومغرب کے نام سے تقسیم کرسکتے ہیں کیونکہ ایک طرف کرہ ارض کے تین چوتھائی یا ایک تہائی حصے کے پانی اور خشکی پر موجود عالم انسانیت لاکھوں جزوی اور فروعی اختلافات کے حامل جدید قومی تشخص کے لبادے میں بٹی ہوئی ہونے کے باوجود اس کے ہر ایک گروہ سے متعلق افراد اپنے تمام تر اجتماعی، انفرادی، ذاتی وقومی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مادی پیمانوں پر مبنی جدید، تحقیق یافتہ و ترقی یافتہ مغربی نظام تمدن کے نفاذ اور اس کے دوام میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
پیرس سانحے کے بعد مغربی نظام تمدن کے خودساختہ محافظ اور عالم انسانیت کے نام نہاد علمبردار امریکا بہادر نے اس مغربی نظام تمدن کے لیے داعش کو سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے جب کہ اس سے قبل نائن الیون سانحے کے وقت داعش کے بجائے طالبان اور القاعدہ سرفہرست تھیں جو اب جزوی خطرہ تصور کی جارہی ہیں کیونکہ اب طالبان اور القاعدہ مغرب میں اتنی متحرک نہیں جتنی کہ مشرقی ملکوں میں ہیں۔ مغرب میں کسی ایجاد یا اس کے نئے ماڈل کے متعارف ہونے کے بعد پرانے ماڈل کو سستے داموں مشرق کی جانب منتقل کیے جانے کی طرح ہی عالمی دہشتگرد تنظیموں کے عملی کردار کی مثال بھی ہے کہ جس میں ان کے مفادات کی خاطر حیات انسانی کے تحفظ کے دلنشیں تصور پر کی گئی تحقیق میں میڈیکل سائنس سے متعلق ٹیبلٹ کے ایک نسخے سے لے کر مہنگے ترین ویکسین، 4 جی ٹیکنالوجی سمیت جدید اسلحہ کی فراہمی کے نکتے کو بھی شامل کیا جائے تو شاید کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
دوسری جانب مشرقی انسانی گروہوں سے متعلق کچھ مٹھی بھر افراد مادہ پرست نظام معاشرت متعارف کروانیوالی مغربی استعماری قوتوں کے استحصالی نظام کی مخالفت اور مذہب سے متعلق ''مادہ پرستانہ مشرقی اقدار'' کے نام پر ان ہی کے مفادات کے حاصلات کی راہ ہموار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جن میں داعش، طالبان، القاعدہ اور بھارت کی انتہاپسند تنظیمیں بھی گنوائی جاسکتی ہیں جب کہ بہت سے ممالک میں مقامی سطح پر اپنے گروہی برتری کے نظریات کے اطلاق کے لیے متشددانہ انداز میں کوشاں مختلف تنظیموں کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔
اس تقسیم میں دونوں طرف یعنی مشرق و مغرب کے انسانی گروہوں کی براعظم افریقہ (مصر) ایشیا اور یورپ کی تہذیبی و تمدنی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو دنیا ''بازیچہ اطفال'' نظر آنے لگتی ہے کہ جس میں انسانی گروہوں کے مابین ان کی صدیوں کے ارتقائی مراحل و منازل میں لاکھوں شدید آپسی اختلافات، مخالفت ومزاحمت اور ان کے مادی پیمانوں پر مبنی نظام تمدن وانتظام معاشرت کی منظرکشی کی تاریخ کے ہر ایک لفظ سے اینٹ بنتی موئن جودڑو، اہرام مصر، دیوار چین، ہینگنگ گارڈن اور تاج محل کی عملی شکل لے کر تذلیل انسانیت کا سبب بنتی اپنے ناقابل تردید ہولناک وبھیانک لازمی وحتمی نتائج کے ساتھ نظروں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالم انسانیت کے مظلوم طبقات کی ترجمانی کرنے والے دانشوران کرام اپنی تحریروں میں کیے گئے تجزیوں کے دوران علت و معمول کے قاعدوں اور گزشتہ صدیوں کی مادی تاریخ کی روشنی میں ان کے تمام تر انداز واطوار میں یکسانیت کے استدلال سے ان کے نتائج بیان کرتے ہوئے عالمی سطح پر موجودہ مغربی نظام تمدن کے رائج استعماری قوانین میں تبدیلی پر زور دیتے آرہے ہیں۔
مزیدار بات یہ کہ بہت سے دانشور حضرات استعماری قوتوں کی مخالفت میں عالم انسانیت کی دہائی بھی دیتے رہتے ہیں اور ان کے تخلیق کردہ نظام تمدن کے رائج ہونے کو ہی کرہ ارض کے امن وسکون کی ضمانت بھی قرار دیتے ہیں۔ ان حضرات نے عالم انسانیت کی تاریخ میں صلیبی جنگوں سے لے کر انقلاب فرانس تک اور اس کے بعد ایک دوسرے کے جانی دشمن فرانس، برطانیہ، جرمنی واٹلی سمیت مغربی یورپ کو دوست بنتے اور یورپی یونین بناتے دیکھنے کا استدلال اپنایا ہوا ہے۔ جس کے عملی اظہار میں اب وہ دنیا کے ہر ایک ملک میں نیشنل ازم، سیکولر ازم، کمیونزم، سوشلزم، لبرل ازم سمیت جمہوریت کے مادی پیمانوں پر مبنی نظام تمدن کے پہلے سے رائج معنی و مطالب کو نئے لبادے پہنانے کے لیے رات دن سرگرم عمل دکھائی دینے لگے ہیں، جب کہ اسی مادی نظام تمدن کی برکات کے نتیجے میں آج مغرب اور اس نظام تمدن کے مقلد افراد فطرت سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔ جس کے عملی اظہار کے طور پر ان کی مادی ترقی کے باعث اب تمام تر لوازمات حیات خالص فطرتی حالت و خاصیت کے بجائے فیکٹریوں کے کیمیکلی مراحل سے گزرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں پہنچنے لگی ہیں۔ جن کے سبب مغربی نظام تمدن میں باورچی خانہ بھی گھر کا ایک نمائشی حصہ بن کر رہ گیا ہے۔
ان کی سوچ وعمل کی طرح ان کے بنگلوں، کاٹیجز، فلیٹوں، فارم ہاؤسز کے کونے کونے کی زینت وآرائش کے لیے شیشوں میں بند مچھلیوں سے لے کر فارمی پودوں کی سجاوٹ تک رونق و ہنگامہ حیات کے دشمن اور وحشت میں مبتلا کردینے والے مادی استعماریت کے سناٹے نے اس نظام تمدن کو اپنانے والوں کو اتنا بے حس بنادیا ہے کہ اس تمدن میں رائج ہر ایک خاندانی رشتے کے ساتھ Step کا اضافہ ایک فیشن بنادیا ہے، جب کہ مشرق میں اس طرح کے اضافے کی اتنی گنجائش نہیں۔ جب کہ یہ Step By Step عام ہوتے افعال بہت سی برائیوں کو جنم دینے کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں اور اسی ''وحشت'' کے شکار افراد کو اسی نظام تمدن کے باعث استعمال کرکے داعش جیسی تنظیموں کو اپنی مفسد کارروائیوں کی ہولناکی بڑھانے کی غرض سے وافر مقدار میں مادی وسائل و مواقع کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کی فراہمی بھی ممکن بنائی جاتی رہی ہے، اور مغرب سمیت اقوام عالم میں بٹی عالم انسانیت کو ایسا نظام تمدن فراہم کرنے والی مغربی قوتیں جب چاہیں۔
جس ملک میں چاہیں ان کی سیکیورٹی کو ناکارہ کرسکتی ہیں اور ایسی جماعتوں کی پرورش بھی کرسکتی ہیں، جس کی عملی وناقابل تردید مثال میزائل ڈیفنس شیلڈ کی تنصیب کے لیے کوشاں و فلکی اجسام پر رہائش آدم کے لیے سرگرداں امریکا میں نائن الیون اور مغربی مادی تہذیب وتمدن کے سرخیل ملک فرانس میں ہونے والے سانحہ پیرس کے رونما ہوجانے کی ہے۔ استدلال کے اس مقام اور معروضی حالات کے سیاق وسباق میں داعش سے تعلق کے شعبے میں لاہور سے ہونے والی حالیہ گرفتاریاں کوئی حیرت کی بات نہیں، لیکن حیران کن اور دعوت فکر دیتا پہلو تو ہمارے اداروں کا مغربی استعماری قوتوں کی نئی ایجاد داعش اور پرانے ماڈل طالبان کے متعلق اقوام عالم کو سفارتی طور پر بہت کچھ سمجھائے جانے والا یہ مدبرانہ بیان ہے کہ ''داعش نے پاکستان میں ابھی قدم نہیں جمائے، افغان طالبان سے مذاکرات کامیا ب رہے تو داعش سے نمٹا جائے گا۔''