تین مزاح نگاروں کے مستنصرحسین تارڑ کے نام نامے

شفیق الرحمن، کرنل محمد خاں اور خالد اخترکے غیرمطبوعہ خطوط سے اقتباسات۔


Mehmood Ul Hassan November 04, 2012
مستنصر کے بقول ’’ ان تینوں کی تحریروں کی اثر انگیزی نے مجھ بیمار میں ایک نئی روح پھونک دی‘‘۔ فوٹو: فائل

اردو ادب کے تین بڑے ناموں، شفیق الرحمٰن، محمد خالد اختر اور کرنل محمد خاں سے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کا قریبی تعلق رہا، جس کا اظہاران خطوط سے بخوبی ہوتا ہے۔

جو اردو مزاح نگاری کی اس تثلیث نے مستنصرکے نام لکھے۔ ادب کے قارئین کے لیے اچھی خبریہ ہے کہ کچھ ہی دنوں میںان خطوط پر مشتمل کتاب شائع ہونے جارہی ہے۔مستنصرحسین تارڑ کی مہربانی سے خطوط پڑھنے کاموقع ملا،تو ہم نے ان سے کچھ اقتباسات''ایکسپریس'' میں شائع کرنے کی اجازت مانگی، جو انھوں نے بخوشی دے دی۔اس سلسلے میںہم ان کے شکرگزار ہیں۔

تینوں جید ادیبوں کے ان خطوط کا بنیادی وصف وہ بے تکلف طرز بیان ہے، جس کے ذریعے بساط ادب پرنووارد کا حوصلہ بلند کیا جارہا ہے، دل جوئی ہورہی ہے، اوراس کے پڑھنے کے لیے کتب تجویزکی جارہی ہیں۔سنیئر ادیب بڑے خلوص سے غیر محسوس انداز میں جونیئر کی ادبی تربیت کرتے نظرآتے ہیں۔اور ساتھ میں ذاتی دکھ درد بھی بانٹا جارہا ہے۔ تینوں ناموروں کا مکتوب الیہ پراعتماد بھی بہت ہے، مثلاًایک بار کرنل محمد خاں کو خبر پہنچتی ہے کہ مستنصر نے کسی محفل میںان کا ناملائم الفاظ میںتذکرہ کیا ہے، تو وہ بے ریا شخص اپنے محب سے ناراض تو کیا ہوتا، الٹا لطف لیتا ہے ۔

مستنصرکی وضاحت پروہ کہتے ہیں، اس کی چنداں ضرورت نہیں۔یاروں کی لگائی بجھائی سے محمد خالد اختر ان سے روٹھ گئے ،حقیقت واضح ہونے پر گلا جاتا رہا اور دل مانندِ آئینہ صاف ہوگیا، جس کی غمازی ان خطوط سے ہوتی ہے جو تعلقات ڈھب پرآنے کے بعد لکھے گئے۔ مستنصر کے بارے میں ادبی حلقوں میںیہ بات عام ہے کہ وہ اپنے سواکسی اور کو ذرا کم ہی جانتے مانتے ہیں، یہ نامے اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔مستنصر کے خطوط ہمارے سامنے نہیں، مگران کے نام ، خطوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس ارادت اور محبت سے خط لکھتے ہوں گے۔مستنصرحسین تارڑ نے ان تینوںادیبوں سے انسپریشن لینے کاہمیشہ کھلے بندوں اعتراف کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کا پہلاسفرنامہ'' نکلے تری تلاش میں'' شفیق الرحمٰن کی '' برساتی ''سے نکلا ہے۔کرنل محمد خاں کی ''بجنگ آمد''کو وہ اردو کی بہترین کتاب قرار دیتے ہیں۔یہ کتاب ایسی ہٹ ہوئی کہ کرنل محمد خاں کی دوسری کتابیں آنے کے باوجودان کی پہچان کا بنیادی ذریعہ بنی رہی۔ایک خط میںکرنل محمد خاں لکھتے ہیں ''ویسے آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ بسلامت روی کی بنیادی کمزوری ''بجنگ آمد'' ہے۔''محمد خالد اختر کی تحریروں کے بھی وہ پرشوق قاری رہے۔محمد خالد اختر بھی مستنصر کی تحریروں کے بارے میں اونچی رائے رکھتے تھے، جس کا اظہار خطوں سے بھی ہوتا ہے اور ان تبصروں سے بھی، جوانھوںنے مستنصر کی کتابوں پر لکھے۔

ان تینوں معتبرادیبوں کے مکتوبات پر مشتمل زیرطبع کتاب ''خطوط'' میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنے رواں دواں اسلوب میںہر ایک کے بارے میں الگ سے خاکہ سپرد قلم کیا ہے، جس میں وہ ان ادیبوں سے اپنے تعلق کی داستان بڑے دل آویز اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ان خاکوں سے پتا چلتا ہے کہ شگفتہ تحریروں سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے ان ادیبوں کی اپنی زندگی رنج ومحن سے پر رہی ، جس کی بنیادپر مستنصر انھیں '' تین بدنصیب دیوتا'' قرار دیتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے نزدیک ان ادیبوں کا مقام و مرتبہ کیا ہے، اسے جاننے کے لیے زیرطبع کتاب میں شامل یہ اقتباس کافی ہے۔

''دانشور اور انگریزی صحافت کے ستونوں میں سے ایک مولوی محمد سعید۔۔ ''پاکستان ٹائمز'' کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ان مولوی صاحب نے شہر لاہور کی قدامت اور تخلیقی مزاج کے حوالے سے ایک یادگار کتاب تحریر کی اور مجھے فخر ہے کہ انھوں نے خصوصی طور پر اس کی ایک جلد اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے بھی عطا کی تو اُس کا انتساب شاید کچھ یوں تھا کہ۔۔ مجھے فخر ہے کہ میں تب لاہور میں تھا جب مشرق کا سب سے بڑا شاعر اقبال، مشرق کا سحر بیاں مقرر عطا اللہ شاہ بخاری اور دنیا کا سب سے بڑا پہلوان گاما بھی لاہور میں مقیم تھے۔۔

اگر میں بھی گزر چکے زمانوں کی کوئی داستان قلم بند کروں تو اُس کا انتساب یقینا کچھ یوں ہوگا۔۔ کہ مجھے فخر ہے کہ میں اُن زمانوں میں سانس لیتا تھا جب اردو ادب میں شگفتہ نگاری اور رومان کے سب سے بڑے تخلیق کار شفیق الرحمن، کرنل محمد خاں اور محمد خالد اختر میرے ہم عصر تھے اور ان تینوں کی تحریروں کی اثر انگیزی نے مجھ بیمار میں بھی ایک نئی روح پھونک دی۔۔'' جگہ کی کمی کے باعث خطوط کے آغاز اور آخر میں درج رسمی کلمات کو حذف کر دیا گیا ہے، اور خط کے شروع میں صرف تاریخ اور مقام کا نام رہنے دیا ہے۔ کوئی خط مکمل شکل میں نہیں اور صرف منتخب ٹکڑوں کو یکجا کرنے کا اہتمام ہے۔

کراچی، 5 جون 2000ء

ہاں میرا عزیز ترین دوست شفیق الرحمن مجھے چھوڑ گیا۔ مرنے سے دو روز قبل اس نے دن کے دس گیارہ بجے فون کیا، دس بارہ منٹ ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس نے ایک دو لطیفے بھی سنائے۔ ایک اورنگ زیب عالمگیر اور ایک اور دوست کا جو پرانا آئی سی ایس ہے، یہ بھی بتایا کہ بھابھی امینہ ملٹری اسپتال میں ایک ماہ سے پڑی ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا۔ کہا کہ میں گھر میں اکیلا ہوتا ہوں اور نوکر کہنا نہیں مانتے اور سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔مستنصر! صبح آنکھ کھلتی ہے تو اپنے دل سے کہتا ہوں، میرا دوست اس دنیا میں نہیں ہے۔ دن میں کئی بار یہ تخیلاتی منظر میرے سامنے ابھرتا ہے۔ وہ پرشور دریائے فنا کے دوسرے کنارے پر خالی پتلون اور جاگرز پہنے کھڑا ہے۔

پیچھے ایک سبزپوش پہاڑی پر ایک لہراتی ہوئی پگڈنڈی اوپر چوٹی تک جاتی دکھائی دے رہی ہے اور آسمان دھنک کے بے حد شوخ رنگوں سے دہل رہا ہے اور وہ مجھے بلا رہا ہے۔ آجائو۔ اس دریا میں چھلانگ لگا دو اور تم میرے پاس پہنچ جائو گے۔۔۔۔۔ جب کبھی ہمت پاتا ہوں پچھواڑے کی ایک کتابوں کی دکان بُک اوشن پر جا کر کتابیں دیکھتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے غم بھول جاتا ہوں۔ کتابیں اب اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ ان کے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ تمہاری بہت سی کتابیں تین طاقچوں میں پرا باندھے گاہک کو متوجہ کرتی ہیں۔ نیپال نگری، بہائو، جپسی، خانہ بدوش، یاک سرائے اور بہت سی اور۔ مجھے تمہاری مقبولیت دیکھ کر دلی خوشی ہوتی ہے۔ پی جی وڈ ہائوس اکیانوے سال کا ہو کر مرا اورمرنے سے چند روز پہلے وہ اپنی 92th کتاب لکھ رہا تھا جو نامکمل رہ گئی۔ میرا دل کہتا ہے کہ تم بھی ایسی ہی لمبی عمر پائو گے اور اتنی ہی یا اس سے زیادہ تصنیفات اپنے پیچھے چھوڑ جائو گے۔

٭٭٭

کراچی، یکم اگست 2001ء

اپنے لڑکپن میں تیرتھ رام فیروزپوری کے سب جاسوسی ناول میں نے بھی پڑھے تھے (اور راتوں کی نیندحرام کی تھی) بچپن میں دارالاشاعت پنجاب کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ دسویں جماعت میں انگریزی کی کتابیں پڑھنے کی لت لگی۔ سٹیونسن میں نے تقریباً سارا پڑھا ہے۔ اس کے خطوط تک جو اس نے جنوبی سمندر کے جزیرے ویلی ما سے اپنے دوستوں کو لکھے۔ تم جانتے ہو کہ کتابوں کا کیڑا بن گیا۔ (ماہم کہتا ہے کہ کتابوں کے کیڑے اپنی اوریجنلٹی کھو بیٹھتے ہیں جو بڑی حد تک درست ہے۔) مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے مغربی ادب کو خوب پڑھا ہے۔ ہماری بڑے کچھ نہیں پڑھتے اور اس لیے اپنے ادب پر پھولے نہیں سماتے، انھیں اس کا کچھ بھی پتانھیں کہ مغرب میں کیسے کیسے شاہکار لکھے جا رہے ہیں۔

٭٭٭

کراچی، 12 فروری 1998ء

''راکھ'' میرے نزدیک ایک Near Master piece ہے اور اس اچیومنٹ پر تم جتنا فخر بھی کرو کم ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ لگن، جانکاہی اور پختہ کاری سے تم ناول نویسی کے میدان میں بہت آگے نکل گئے ہو۔ میں سچ مچ اس ناول کی کاری گرانہ صلاحیت پر حیران ہوں اور بہت خوش بھی کہ آخر کسی نے اردو میں کام کا (Satisfying) ناول لکھا۔ اس میں کئی ایک ایسے چمکتے دمکتے ٹکڑے ہیں جن کی آب و تاب ذہن میں دمکتی رہتی ہے۔ انہی دنوں میں نے دو بکرپرائز ناول پڑھے۔ گراہم سوفٹ کا "Last Orders" اور رائے (ارون دھتی رائے) کا"The God of Small Things" اور میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ''راکھ'' ان سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔ اتنے بڑے کینوس پر لکھے narrrative کو تم بڑی خوبی سے نبھا گئے ہو۔ کہیں کوئی الجھائو نہیں اور کہیں بھی تم خود پڑھنے والے کے سامنے پریڈ کرتے نظر نہیں آتے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں عیب نہیں (کیونکہ بے عیب صرف خدا کی ذات ہے) ایسی کمزوریوں سے عظیم ترین ناول نگار (ٹالسٹائی اور دوستو فسکی جیسے) بھی نہیں بچ سکے جن کے ناولوں کے کئی ٹکڑوں پر پھلانگ کر گزر جانا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم نے بعض Episode میں غیر ضروری تفاصیل اور غیر ضروری کردار ٹھونسے ہیں۔ مثلاً میڈیکل کالج کے ڈائی سیکشن ہال میں طول و طویل اور قطعی ناقابل یقین گفتگو۔ ناول میں کسی مرکز کمی بھی کھٹکتی ہے۔ (یہی عیب قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں بھی ہے)

بلکسرضلع جہلم،16دسمبر 1975ء

مستنصر جی، آپ نے جتنا پیارا خط لکھا ہے اتنی ہی دیر سے جواب دے رہا ہوں۔ ان حالات میں اگر بگڑ بیٹھیں تو میں لائق تعزیر بھی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو بگڑنا نہیں آتا۔ سست لوگوں کو یوں بھی تھوڑی سی رعایت دینا چاہیے۔آپ بسلامت روی سے کچھ ایسے غیر مطمئن نظر نہیں آتے۔ یہ میرے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ گو اس کی خامیوں کا بھی مجھے احساس ہے۔ ویسے آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ بسلامت روی کی بنیادی کمزوری ''بجنگ آمد'' ہے۔۔۔۔۔ ارے، وہ کون سا سفرنامہ ہے جس سے (پڑھے بغیر ہی) متاثر ہو کر میں نے کتاب لکھ دی ہے؟

میں نے تو لاہور کا چھپا ہوا ایک ہی سفرنامہ پڑھا ہے اور اس کا نام ہے ''نکلے تری تلاش میں'' اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اس سے صرف متاثر ہی نہیں ہوا بلکہ ایک مقام پر اس کی کم و بیش نقل بھی کی ہے کہ مجھے اس سے بہتر کوئی پیرایہ اظہار نہیں مل رہا تھا۔ (دیکھیں بسلامت روی کا صفحہ 287 اور ''تلاش'' کا صفحہ 152۔ پہلا ایڈیشن) بلکہ میں نے تو اپنے اوریجنل ڈرافٹ میں اس مقام پر ''تلاش'' کا حوالہ بھی دیا تھا لیکن کرنل اسمٰعیل صدیقی نے مسودہ دہراتے وقت چند دوسرے فٹ نوٹوں کے ساتھ اسے بھی حذف کر دیا۔ میں نے کرنل صاحب کی اس چنگیزیت کا ذکر دیباچے میں بھی کیا ہے۔

اگلے ایڈیشن میں یہ فٹ نوٹ بھی بحال کر دیا جائے گا کہ سند رہے۔مستنصر بھائی، میں تو کسی کی عبارت بلکہ خیال تک کی رسید نہ دینا بددیانتی سمجھتا ہوں۔ ایک واقعہ سنیں۔ بسلامت روی میں ایک جگہ آیا ہے: ''یہ مرتا اس کے چائے ذقن پر ہے اور شادی سالم لڑکی سے کر رہا ہے۔'' (صفحہ 43) یہ تقریباً لفظی ترجمہ ہے سٹیفن لیکاک کے ایک جملے کا۔ چنانچہ فٹ نوٹ میں میں نے لیکاک کو کریڈٹ دیا لیکن جب کتابت ہو چکی تو ایک دوست نے بتایا کہ شفیق الرحمن بھی ایسا ہی جملہ لکھ چکے ہیں: (وہ عاشق اس کے تِل پر تھا اور شادی پوری لڑکی سے کر لی وغیرہ) چنانچہ میں نے کاتب سے سٹیفن لیکاک کا نام کٹوا کر شفیق الرحمن کا لکھوایا۔

اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اردو کے عام قاری کے نزدیک یہ جملہ یا خیال شفیق الرحمن ہی کا ہے۔ دوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ لیکاک کا نام دیکھ کر شفیق الرحمن کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں قاری کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ شفیق الرحمن نے یہ خیال سٹیفن لیکاک سے لیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ شفیق الرحمن کے اپنے ذہن کی پیداوار ہو۔۔۔۔۔ لاہور والے دوست کے سفرنامے کا نام تو لکھیں۔ شاید اب متاثر ہو سکوں۔

13 اگست 1978 ء

میرے نہایت عزیز دوست امیر احمد خاں کی (جن کے نام ایک کتاب Dedicate کی تھی) رائے یہ تھی کہ جب ایسا معاملہ پیش آئے تو پہلے دلیلوں سے اس کا تجزیہ کرنا چاہیے، پھر کچھ انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ دیر کے لیے جدائی ہونی چاہیے۔۔۔۔۔ اگر پھر بھی نہیں بھلا سکتے تو معاملہ ''اندر والے'' پر (یعنی دل پر) چھوڑ دو اور جو وہ کہے، وہی کرو۔انگریز بھی (جنہیں کہا جاتا ہے کہ Emotional نہیں ہوتے) اکثر بتایا کرتے کہ Affairs of Heart کا دلائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور یہ کہ وارداتِ قلب کے سلسلے میں اُسی سے مشورہ لینا چاہیے جس پر یہ سب بیت چکا ہو۔

تجربہ کار دوستوں کا کہنا ہے کہ جب حالات پریشان کن ہونے لگتے ہیں تو گرتے گرتے ایک Level تک پہنچتے ہیں، وہاں Steady ہو کر پھر انھیں بہتر ہونا پڑتا ہے۔ امید ہے کہ اب بہتری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مسرتیں عطا فرمائے۔دریائے گھاگھرا کا Dry Bed میں نے اچھی طرح دیکھا ہے، جہاں Silting سے جیسے کنکریٹ کے میدان بن چکے ہیں (انھیں ریاستی زبان میں ڈاہرؔ کہا جاتا ہے) وہاں بڑا ہوائی جہاز بھی اتر سکتا ہے۔ مرحوم ہزہائی نس صادق محمد عباسی کی ذاتی لائبریری میں بہاولپور کی تاریخ کی کئی کتابیں تھیں، کچھ ایسی پرانی کتابیں بھی تھیں جو ہندوستان اور پنجاب کی قدیم تاریخ سے متعلق تھیں اور اُن میں بہاولپور کا ذکر بھی تھا۔ کسی نے بتایا تھا کہ یہ کتابیں بہاولپور کی بڑی پبلک لائبریری کو Donate کر دی گئی تھیں۔ بہاولپور میں آپ کا کوئی دوست ہو تو اسے لکھیں کہ تلاش کرے۔ سردیوں میں چھٹی پر اُس طرف جائوں گا تو ضرور ڈھونڈوں گا۔

٭٭٭

راولپنڈی، 29ستمبر 1984ء

آپ کے سفر کے متعلق پڑھ کر مجھے لاول تھامس (جن کی کتاب With Lawrence of Arabia چھپتے ہی فوراً Best seller ہوگئی تھی) کا گلگت، ہنزہ، سکردو، استور وغیرہ کا Trip یاد آگیا۔ اُن دنوں میں آزادکشمیر کے میڈیکل Setup میں میجر تھا۔ وہ اپنی پارٹی سمیت یہاں شمالی علاقوں کے پس منظر میں فلم بنانے آئے تھے کہ موسم اچانک یوں تبدیل ہوا کہ ان کا سارا ساز و سامان بڑے کیمرے سمیت دریائے سندھ میں بہہ گیا اور انھیں واپس لوٹنا پڑا۔ پہاڑی علاقوں اور خصوصاً ہمارے Northern Areas کے سفر میں موسم کے غیر یقینی پن کا سارے سیاحوں نے ذکر کیا ہے۔

٭٭٭

22دسمبر 1980ء

اس پر بہت خوشی ہوئی کہ نئی کتاب دجلہ آپ کو پسند آئی۔ ڈینیوب کے دو کردار اس لیے شامل کیے کہ پرانے Notes کا مطالعہ کر لیا۔ کہانی کو دوبارہ لکھنے سے پہلے۔ یہ دونوں میرے ساتھ گئے تھے۔ مجدہی کا اصل نام نصر اللہ مژدہی تھا اور ہمیل کا نام وہی تھا جو لکھا ہے۔ پہلی مرتبہ ڈینیوب لکھتے وقت اختصار مدنظر تھا، کیونکہ ''سویرا'' میں دو دریا (نیل اور ڈینیوب) اکٹھے چھپنے تھے۔ دھند کا کیمپ کانگڑہ کی وادی میں تھا جہاں سے Kullu Valley شروع ہوتی ہے۔ دجلہ کو دوبارہ لکھنے سے پہلے بھی پرانے Notes پڑھے تھے۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ دجلہ ''بصرے سے تو سمندر شروع ہو جاتا ہے'' پر ختم ہونا چاہیے۔ بس اس وقت خیال ہی نہیں آیا اور وہ Life is short and Art is long والا فقرہ ذہن میں رہا۔

٭٭٭

راولپنڈی، 16دسمبر 1986ء

خالد اختر ان دنوں ایک قسم کی ہجرت میں مصروف ہیں۔۔۔۔۔ یعنی اپنے بچپن کے بہاولپور سے بسترا بوریا یا بسترے بوریے گول کرکے کراچی (مستقل طور پر) جا رہے ہیں۔ یہ پتا نہیں کس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ ورنہ مومنؔ کا وہ شعر Applicable ہوتا

؎ اللہ رے گُمرہی بُت و بت خانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں