باتیں چند ایشوز کی
ساتھ کمیٹی کو بھارت بھجوانے کا اعلان بھی کر دیا۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا
مودی سرکار کی خوشنودی کے لیے ہم نے کیا نہیں کیا؟ کپتان کی بھارت میں نریندر مودی سے ملاقات اور پھر ان کی ''اچانک'' لاہور یاترا نے سارا کھیل ہی بدل دیا۔ ہم نے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ وہ کابل سے لاہور ''اچانک'' آئے اور تحفے تحائف دے کر چلے گئے۔ اس کے بعد پٹھانکوٹ کا واقعہ بھی ''اچانک'' ہی ہوا۔ ہم نے گرفتاریاں بھی کیں اور تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی۔
ساتھ کمیٹی کو بھارت بھجوانے کا اعلان بھی کر دیا۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا کہ ایک اور ''اچانک'' برپا ہو گیا۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ موصوف کا الزام ہے کہ پاکستان نے ممبئی دھماکوں کے ملزموں کا کچھ نہیں کیا۔ دنیا ایک سال میں دیکھے گی بھارت کیا کر سکتا ہے۔ یہ تو خیر ایک سال بعد دیکھیں گے بھارت کیا کر سکتا ہے۔
ان کا فوری فرمان یہ ہے کہ پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئربیس کے اندر نہیں جانے دیں گے۔ ان کے اس بیان کے بعد کیا یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ ہماری ٹیم وہاں جائے؟ یہ فیصلہ بہرحال حکومت نے کرنا ہے اور امیدہے جو بھی فیصلہ ہو گا وہ ''ملکی مفاد'' میں کیا جائے گا۔ بھارت کا صبر جواب دے گیا ہے لیکن ہمارا صبر اب بھی باقی ہے۔
عالمی سطح پر دوسرا بڑا ایشو ایران اور سعودی عرب کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اس کا اندازہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے دونوں ملکوں کے ہنگامی دوروں سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ فرقہ واریت نے پاکستان کو گہرے زخم دیے ہیں۔ اور ایسے کسی گھاؤں کو برداشت کی سکت نہیں ہے۔ ہمارا کردار اس تنازعے کی شدت میں کمی کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ کسی ایک فریق کی طرف داری کا مطلب خود کو مزید مشکل میں ڈالنا ہو گا۔
ملکی سطح کے ایشو کی بات کریں تو پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے تحفظات خاصے پریشان کن ہیں۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر یقین دہانیاں تو کرا دی ہیں مگر مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اسے ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ جو یقین دہانیاں کرائی گئیں ہیں ان پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے۔ اقتصادی راہداری واقعی گیم چینجر ہے۔
یہ تین اہم ترین ایشوز ڈسکس کر چکا تو مجھے احساس ہوا کہ ایک اور ایشو ایسا بھی ہے جو ان سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ میری ذہنی حالت پر شبہ کرنا آپ کا حق ہے لیکن کیا کروں جب سندھ اسمبلی نے کثرت رائے سے کریمینل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل منظور کر لیا تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ گورنر سندھ کی توثیق کے بعد جب یہ قانون بن جائے گا تو سندھ حکومت کو یہ اختیار مل جائے گا تاکہ وہ انسداد دہشتگردی عدالت سمیت کسی بھی کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ ختم کرا سکے گی۔
سندھ حکومت نے قانون میں ایک نئے سکیشن (A-9)کا اضافہ کیا ہے جس کے مطابق حکومت پراسیکیوشن جنرل کے ذریعے دیگر پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسران کو ہدایات جاری کر سکے گی۔ پراسیکیوٹر جنرل کسی بھی ملزم کے خلاف کیس عدالت کی رضامندی سے واپس لے سکے گا۔ رپورٹس کے مطابق جرم کی سزا تین سال تک ہے مگر ڈسٹرکٹ بپلک پراسیکیوٹر سے اجازت لینا ہو گا۔ اور اگر سات سال ہے تو پراسیکیوٹر جنرل سے اجازت درکار ہوگی جب کہ خصوصی عدالتوں اور ہائی کورٹ میں چلنے والے کیسز کی اجازت سندھ حکومت سے لینا ضروری ہو گا۔ تازہ ترمیم سے پراسیکیوٹر جنرل کویہ اختیار بھی مل گیا ہے وہ مختلف عدالتوں میں حکومت کی جانب سے کیسوں کی پیروی کرنے والے پراسیکیوٹر کا تبادلہ کر سکے گا۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ سندھ حکومت نے پراسیکیوشن امیونٹی حاصل کر لی ہے اور جلد بازی میں بل پاس کرانے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کچھ کیسز کو واپس لینا چاہتی ہے۔ سندھ حکومت کے لیے ڈاکٹر عاصم سے زیادہ کوئی اہم کیس نہیں ہے۔ اس ایک کیس کی وجہ سے رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ بھی لٹکایا گیا۔ وزیرداخلہ کو مسلسل ہدفِ تنقید بھی اس ایک کیس کی وجہ سے بنایا جا رہا ہے۔ آئینی و قانونی ماہرین اسے منی این آر او قرار دے رہے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عدلیہ کو ربڑ سٹمپ باڈی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بل بڑی مہارت سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں تفتیشی افسروں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ رینجرز اہلکاروں کو سندھ حکومت کے پراسیکیوٹر جنرل کے کنٹرول میں لایا جا سکے۔
ترمیمی بل پر حکومتی موقف یہ ہے کہ کمزور پراسیکیوشن کو مضبوط بنایا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ ترمیم سپریم کورٹ کے 2009ء میں دیے گئے ایک حکم کی وجہ سے کی گئی ہے۔ سندھ حکومت کو داد دینا پڑے گی کہ اس نے محض سات سال کے عرصے میں سپریم کورٹ کے حکم پر ''فوری'' عملدرآمد کر دیا۔ ترمیمی بل چونکہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکا ہے، اس لیے فیصلہ ہو جائے تاکہ کیا واقعی عدالت عظمیٰ کے حکم پر ایسا کیا گیا ہے۔
سندھ حکومت صوبائی احتساب کمیشن بھی قائم کرنے جا رہی ہے۔ ہماری حکومتیں کرپشن کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا بس چلے تو چند دن میں پورے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر دیں۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ کسی ''بے گناہ'' پر کوئی مقدمہ نہ چلے۔عوام کا خیا ل رکھنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ عوامی مفاد میں پولیس انھوں نے پہلے کنٹرول میں رکھی ہوئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں پولیس کسی با اثر اور طاقتور شخص کو گرفتار کرنے کی جرات تک نہیں کرتی۔ ان کا فرض صرف ''مدد وی آئی پی'' کی ہے۔
آزاد اور خود مختار عدلیہ بھی انھیں بہت پسند ہے۔ ایسی عدلیہ جو ان کے مخالفین کے خلاف فیصلے دے اور انھیں اور ان کے حامیوں کو ہر معاملے میں کلین چٹ دے دے۔ احتساب بھی انھیں دوسروں کا پسند ہے۔احتساب کے ہاتھ ان کی طرف بڑھیںتو سارا سسٹم خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ قائم علی شاہ ہوں، نثار کھوڑو یا مولا بخش چانڈیو، ان بیچاروں کا کام تو محض سندھ حکومت کے اقدامات کا دفاع کرنا ہے۔ اصل کھلاڑی تو آصف علی زرداری ہیں جو دبئی میں بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔ ساری داد کے حقدار زرداری صاحب ہیں۔ واقعی ایک زرداری سب پر بھاری۔
حکمرانوں کا بس چلے تو ہر وہ ادارہ اور محکمہ ختم کردیں جس سے انھیں تھوڑا بھی خطرہ محسوس ہو۔ آخر سسٹم بھی تو بچانا ہے۔