لاہور:
ہماری آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ رشتوں کا برتنا زیادہ مشکل ہے یا سمجھنا۔ یوں تو ہمارے دو ہی قومی رشتے ہیں ایک آپا ۔۔۔۔۔ زبیدہ اور دوسرے الطاف ۔۔۔۔۔۔ بھائی، مگر جس طرح قومی مسائل کے ساتھ ہر ایک کے انفرادی مسائل بھی ہوتے ہیں، اسی طرح ان قومی رشتوں کے ساتھ ذاتی رشتے بھی زندگی سے بندھے ہیں۔
اصغری اکبری جیسے کرداروں والے معاشرتی ناول پڑھنے اور فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے دیکھنے کہ باوجود ہم رشتوں کی سمجھ کے معاملے میں کورے ہی رہے۔ خاندان کی شادیوں میں کھانا کُھلنے سے پہلے میسر بے زاری کے طویل دورانیے میں جب گھر کے بڑے ہمیں عرصے بعد ہونے والی ملاقات پر خوشی کے اظہار کے لیے باچھیں کھولے کسی صاحب یا خاتون سے ملواتے ہوئے بتاتے،
''ان سے ہمارا دو طرف کا رشتہ ہے''۔
تو یہ سوچ کر گھبراہٹ ہونے لگتی کہ اب ناتوں اور ناموں کی ایک گٹھری کھلے گی جس میں سے آخر کار سامنے موجود ہستی برآمد کرکے ایک نئے رشتے کی صورت ہمارے سر منڈھ دی جائے گی، یہی ہوتا تھا۔
رشتوں کی پیچیدگیاں اپنی جگہ، مگر ہماری بُدھی تو یہ سمجھنے سے بھی عاجز ہے کہ زبان کے قواعد کے مطابق دادی کی نسبت سے دادا اور نانی کی نسبت سے نانا ہے، پھوپھی کا شوہر پھوپھا ہوتا ہے، چچی کا چچا، تو یہ خالہ کا خاوند خالو کیسے، الف کہاں گیا؟ اصولاً تو اسے ''خلیا'' ہونا چاہیے تھا۔ چلیئے جو خالہ کی مرضی۔
بعض رشتے دار فقط ''دار'' ہوتے ہیں، جن پر آپ کی سانس اٹکی اور لٹکی رہتی ہے کہ جانے کب ناراض ہوجائیں۔ یہ پھوپھی، پھوپھا، خالہ، خالو، کوئی بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ اس بات پر بھی روٹھ سکتے ہیں کہ ''اپنے ابا کے جنازے پر سب سے لپٹ کر رویا، ہمیں غیرسمجھا۔'' سوئم کی بریانی میں مطلوبہ بوٹی نہ ملنے پر بھی یہ خفا ہوسکتے ہیں اور رہی شادی، تو ہمارے ہاں ناراضگی بھی بیاہ کی رسومات میں شامل ہے۔ ایسے میں یہ ممکن ہے کہ برسوں سے سہاگ رات منانے کے لیے ترستا دولہا یہ رات منہ پھلائے پھوپھا کو منانے میں گزار دے۔
شادیوں کا ایک اور خاص آئٹم وہ ماموں، پھوپھا، خالو یا دولہا بھائی ہوتے ہیں، جو ''ہر ڈش پر نظر'' جمائے ہاتھ کمر پر باندھے کھانے کی میز کے ساتھ ساتھ ٹہل رہے ہوتے ہیں۔ اُن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ساری ذمے داری ان صاحب کے سر ہے۔ یوں دراصل یہ اپنے رشتے کے ہونے کا جواز جتا رہے ہوتے ہیں اور دیکھنے والا رشتوں اور رشتے داروں کی ضرورت پر ایمان لے آتا ہے۔
رشتے ان نوجوانوں کی جان کا روگ بن جاتے ہیں جن کے خاندان میں ''رشتوں'' کی فراوانی ہو۔ کیا ستم ہے کہ علامہ اقبال جن نوجوانوں سے ستاروں پر کمند ڈالنے کی امید باندھیں، ان کی جوانی ''پھوپھی کی بیٹی یا خالہ کی دختر'' کی کشمکش میں گزر جائے، ایسے معاملات میں اکثر ہوتا یہ ہے کہ پڑوسن کی بیٹی یا کوئی کلاس فیلو بازی لے جاتی ہے اور پھوپھو اور خالہ کی بیٹیاں ''ویرمیرا گھوڑی چڑھیا'' گاتی بھابھی کی ڈولی گھر لاتی ہیں۔
ہمارے ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ''خالہ پھپھو'' اور ''چچا ماموں'' دنگل بھی ہے، جو کماؤ بھانجے بھتیجے یا حسین بھانجی بھتیجی کا رشتہ حاصل کرنے کی جدوجہد سے جنازوں کے سفر تک، ہر موقع پر لگتا ہے۔
یہ پھوپھی زاد اور خالہ زاد ''ادھر آتا ہے یا دیکھو اُدھر جاتا ہے پروانہ'' والی کشمکش محض اس لیے ہے کہ ہم دو طرفہ رشتوں میں بندھے ہوتے ہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق رشتے تین طرح کے ہوتے ہیں، ددھیالی، ننھیالی اور سسرالی۔ پہلی 2 اقسام تو آپ کی قسمت میں لکھی ہوتی ہیں، لیکن تیسری قسم سے آپ کسی یتیم خانے میں پرورش پانے والی خاتون کو عقد میں لا کر نجات پاسکتے ہیں، مگر سالوں سالیوں سمیت سسرالیوں کی فوج سے چار دن عزت کرانے کا شوق ایسا نہیں کرنے دیتا، پھر ہوتا یوں ہے کہ
عجیب لوگ، خدا کی قسم عجیب سے لوگ
تمھارے ''ساتھ'' مری زندگی میں آئے ہیں
رشتہ قبولیت کے لیے اکیلا جاتا ہے اور منظور ہونے کے بعد رشتوں کا انبار بیوی کے ساتھ لگا چلا آتا ہے۔ ابھی شریف آدمی دو دن کے تعلق کے بعد اپنے ساس سسر کو پوری دروغ گوئی کے ساتھ امی ابو کہنے کی پریکٹس اور اُس ساڑھو سے حسد کی آگ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، جس کے حصے میں سب سے خوب صورت سالی آئی ہے کہ اسے ''یہ ہے میرا ٹبر تم اس سے ملو'' کہتے ہوئے خالہ ساس خالو سسر، پھوپھی ساس پھوپھا سسر، چچی ساس چچا سسر، ممانی ساس ماموں سسر، یہ ساس وہ سسر سے متعارف کرادیا جاتا ہے۔ آپ کی ساری نہیں تو آدھی حیات ان رشتوں کو چہرہ بہ چہرہ پہچاننے اور جاننے میں گزر جاتی ہے۔ کتنا وقت یہ سوچنے میں گزرجاتا ہے کہ یہ خاتون جو آپ کے سامنے کھڑی کلیجے کی طرح پان چبارہی ہیں خالہ ساس ہیں یا پھوپھی ساس، آخر میں پتا چلتا ہے کہ وہ ممانی ساس ہیں۔
ہمارے ہاں رشتے دار آپ کے تمام معاملات کے ٹھیکے دار ہوتے ہیں۔ اچھا بھلا رشتہ آیا ہے، لڑکی کے ماں باپ بھائی بہن سب کو پسند ہے، مگر تایا ابو نے ٹھان لی کہ میں نہ مانوں۔ گھر میں رکھی میت جنازہ ہونے کے انتظار میں ہے اور بابو چچا اور بشیر خالو میں تکرار ہورہی ہے کہ سوئم ہوگا یا نہیں۔ ادھر اصل ورثا آنسو بہاتے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں تو بھیا ایسے رشتے درحقیقت موت کے سست فرشتے ہوتے ہیں، جو برسوں تڑپا تڑپا کر آدمی کا دَم نکالتے ہیں۔
بات لمبی ہوگئی، کہنا ہمیں فقط اتنا ہے کہ ہر رشتہ بہت خوب صورت ہوتا ہے، مگر رشتہ ہی رہے ''دار'' نہ بنے۔
[poll id="901"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔