مضایا۔ Madaya

شام کی 3سالہ خانہ جنگی میں45 لاکھ آبادی کچھ ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے


قادر خان January 20, 2016
[email protected]

شام کی 3سالہ خانہ جنگی میں45 لاکھ آبادی کچھ ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے، ان میں سے 4لاکھ افراد ایسے 15محصور علاقوں میں رہتے ہیں جہاں فوری ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت رہتی ہے۔ مضایا ان میں سے ایک ایسا ہی قصبہ ہے جہاں سرکاری حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ، اس علاقے کا محاصرہ کیے ایک سال کا عرصہ گزار دیا ہے اور وہاں کی آباد ی خوراک نہ ملنے کے سبب شدید غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔

خوراک کی کمیابی کو پورا کرنے کے لیے یہاں کی آبادی کو پالتو جانور اور گھاس پھونس پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا تھا کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت نے دارلحکومت دمشق کے نواحی علاقے مضایا سمیت تین مقامات پر کئی ماہ سے محصور خاندانوں تک امدادی سامان پہنچانے کی اجازت دینے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔ شامی حکومت نے مضایا، الفوعہ اور کفریا کے مقامات میں محصور شامی خاندانوں تک امدادی قافلوں کو رسائی دینے کی رضامندی ظاہر کی تھی۔

مضایا اور دوسرے شامی قصبات پر شامی فوج اور اس کی حامی اسد نواز ملیشیا حزب اللہ نے ان علاقوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے جس کے سبب امدادی سامان پہنچانے میں شدید رکاؤٹ ہے، گزشتہ دنوں ریڈکراس کی جانب سے مضایا کے 3قصبات میں امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ ریڈکراس کے ترجمان کے مطابق امدادی سامان لے کر یہ قافلے لبنان کی سرحد کے قریب مضایا اور ترکی سرحد کے ساتھ واقع قصبوں الفوعہ اور کفریا میں داخل ہوئے۔ مضایا سے ترجمان نے بتایا کہ ''یہاں پہلا تاثر بہت ہی دل شکن ہے آپ کو سڑکوں پر بہت سے لوگ نظر آتے ہیں بعض مسکرا کر ہاتھ ہلا رہے ہیں لیکن بہت سے انتہائی کمزور حالت میں اور تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔'' 40ہزار سے زائد افراد محاصروں کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔

اسد نواز ملیشیا اور شامی حکومت کی جانب سے سال بھر ہونے کو آیا ہے کہ مضایا کی ناکہ بندیوں اور محاصرے کے نتیجے میں 40ہزار افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں، انھیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر گزشتہ سال اکتوبر میں امداد پہنچائی گئی تھی لیکن اب یہاں کے لوگ ملنے والی امداد کو ناکافی سمجھتے ہیں اس لیے وہ لوگ سردی، فاقوں اور تھکن کی وجہ سے ان محاصروں سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن کامیاب نہیں ہو رہے کیونکہ شامی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔

شامی حکومت اور اس کے اتحادی اس بات سے قطعا انکاری ہیں کہ انھوں مضایا کے راستے بند کیے ہیں لیکن 'فداح' اسے بالکل جھوٹ قرار دیتی ہے کہ یہ انتہائی غلط جنگی حربہ ہے۔ ' فداح ' کے مطابق مضایا شام کا واحد قصبہ نہیں ہے بلکہ کئی علاقوں کی یہی صورتحال ہے جو شام میں گزشتہ دو سالوں سے اپنائی گئی ہے۔' اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے مضایا میں لوگوں کے فاقوں سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت یہاں امدادی سامان پہنچانے میں تعاون کر رہی ہے'' لیکن اقوام متحدہ ادارے ان کی تصدیق کرتے نظر نہیں آتے، اقوام متحدہ نے بتایا کہ انھوں نے مضایا میں موجود 40ہزار افراد کو امداد فراہم کی تاہم ادارے کے مطابق وہاں لوگ بھوک کیوجہ سے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور زندہ رہنے کے لیے پالتو جانور اور گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں۔

کفاریہ اور فوعہ میں 20ہزار افراد کو بھی گزشتہ پیر کو امداد پہنچائی گئی جہاں حالات مضایا سے بھی زیادہ تشویشناک ہیں۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی کے ترجمان پاول کریز ائیک نے اقوام متحدہ، شام کی ریڈ کراس اور اپنے ادارے کی جانب سے مضایا کو امدادی کھپ پہنچانے کی تصدیق کی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے المضایا میں محصور شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ان کی ہنگامی امداد کی جائے انٹرنیشنل میڈیا نے وہاں کی عوام کی حالت زار پوری دنیا کو دکھائی کہ دمشق کے نواحی علاقے مضایا کی بڑی آبادی گھاس پوس، پتے سمیت کتوں اور بلیوں کا گوشت کھا رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک یادداشت پر دستخطی مہم بھی شروع کی ہے جس میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے، وہ مضایا کے متاثرین کی فوری امداد کو یقینی بنائے۔ سماجی کارکنوں نے بھوک سے نڈھال ایک روتے بلکتے اور زندگی و موت سے لڑتے ایک کمسن بچے کی ویڈیو فوٹیج پوسٹ کی جس میں معصوم بچوں کی دل دہلانے والی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ روح کو چھلنی کرنیوالے ایسی کئی ویڈیوز کے مناظر دیکھنے کے بعد زندگی سے ہی نفرت ہو جاتی ہے کہ انسان ہونا بھی کس قدر عظیم جرم بن گیا ہے۔

مقامی آبادیوں کو جھکانے کے لیے سخت قسم کی شرائط عائد کی گئی ہیں، اسی وجہ سے مضایا اور اس کے قرب وجوار کی آبادی کو عالمی برادری کوئی امداد نہیں پہنچا سکی۔ ایک لیٹر دودھ کی قیمت سو ڈالر سے زائد ہے، ایک ویڈیو میں 7ماہ کے معصوم بچے کی ماں کو دکھایا گیا جو مقامی شفا خانے گئی، جب اس سے پوچھا گیا کہ آخری بار دودھ کب پلایا تو ماں نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے۔ ماں نے بتایا کہ وہ دودھ کے بجائے بچے کو پانی اور نمک دیتی ہے جب کہ ڈائپرز کے بجائے پلاسٹک کی تھلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

طبی امداد کی بین الاقوامی تنظیم 'ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز ' مضایا میں اسپتال چلا رہی ہے اس کی ایگزیکٹو ڈائیریکٹر وکی باکنز کہتی ہیں کہ ''لوگ حقیقتاً موت کا شکار ہو رہے ہیں جس شفاخانے کا انتظام چلانے میں ہم مدد کر رہے ہیں وہاں اب تک بچوں سمیت 23 اموات ہو چکی ہیں'' وکی باکنز کہتی ہیں کہ محاصرہ کئی ماہ سے بہت تنگ کر دیا گیا ہے جسکی وجہ سے قصبے میں کسی چیز کی رسائی نہیں، نہ یہاں ایندھن ہے نہ لوگوں کے پاس جلانے کے لیے لکڑیاں ہیں، نہ خوراک، نہ ادویہ اور صورتحال تباہ کن ہو چکی ہے'' اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان اڈریان ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ یہاں امدادی قافلہ بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

جشن الفتح کے عسکریت پسند مضایا کے مسلمانوں کا محاصرہ ختم کروانے کے لیے اسد نواز ملیشیا پر راکٹوں سے حملے تو کر رہی ہے لیکن اس کا نشانہ بھی عام لوگ بن رہے ہیں مضایا کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک تو ہے ہی بلکہ مسلم ممالک کی بے بسی بھی قابل مذمت ہے کہ اب انسان کی انسانیت اتنی گر چکی ہے کہ فرقہ واریت کی اس جنگ میں مضایا ہو کہ کفریا و فوعا، صرف عام انسان اس لیے ظلم کا نشانہ بنتا ہے کیونکہ بشار الاسد کی حکومت کی حامی یا مخالفین ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ شام میں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے، فرقہ واریت کے عفریت نے وہاں کے مسلمان کہلانیوالے انسانوں سے انسانیت ختم کر دی ہے۔ فرقہ واریت کا یہ پہلو اس قدر ہیبت ناک ہے جس کا ذکر کرتے انگلیاں کانپ جاتی ہیں، الفاظ ساتھ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔

اے مسلمان کہلانے والوں، فرقہ واریت سے اسلام کو اس قدر تو بد نام نہ کرو کہ اسلام کا پیروکار کہلانے میں بھی شرم محسوس ہو۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے، اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے کونسا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے، مجھ جیسے ناسمجھ کو سمجھ نہیں آتی، میں نہ شیعہ ہوں، نہ سنی ہوں، ایک سیدھا پختون مسلم ہوں، میری بس یہی پہچان ہے لیکن اسلام کے نام پر فرقہ واریت کی ایسی پہچان اسلام کا چہرہ مسخ کر رہی ہے۔ اگر دنیا بھر کے مسلم کہلانے والے ملک کچھ نہیں کر سکتے، اقوام متحدہ کچھ نہیں کر سکتی، عالمی برادری کچھ نہیں کر سکتی تو پھر کم از کم یہ بتا دو کہ تم کر کیا سکتے ہو؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں