قانون کی مجبوری
اجلاس کے ایجنڈے کی کارروائی میں اس بل کا صرف تعارف کرایا جانا تھا
قانون کے بارے میں یہ مفروضہ عام ہے کہ ''قانون اندھا ہوتا ہے'' مگر قانون کو کانا بنانے کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں اور ایسا کرنیوالے اپنی ایسی کوششوں کو بڑے فخریہ انداز میں یوں پیش کرتے ہیں جیسے انھوں نے اندھے کو کانا بنا کر کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ جمعہ کو سندھ اسمبلی نے اپوزیشن کے زبردست شور شرابے اور احتجاج کے باوجود سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس (تشکیل فرائض اور اختیارات) ایکٹ 2009ء میں ترامیم کا بل منظور کر لیا۔
اجلاس کے ایجنڈے کی کارروائی میں اس بل کا صرف تعارف کرایا جانا تھا لیکن بل متعارف کرانے کے بعد سندھ کے سینئر وزیر تعلیم و پارلیمانی امور نثار کھوڑو نے تحریک پیش کی کہ بل کی منظوری کی اجازت دی جائے جس پر اپوزیشن سراپا احتجاج بنی رہی لیکن عددی اکثریت کے حامل سرکاری ارکان نے چشم زدن میں تحریک منظور کر لی۔ جس کے تحت پراسیکیوٹر عدالت کی رضامندی سے کسی بھی شخص کے خلاف ایک یا ایک سے زائد جرائم میں استغاثہ واپس لے سکتا ہے۔
3 سال تک کی سزا ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، 7 سال تک کی سزا پراسیکیوٹرز جنرل کی اجازت اور دیگر تمام جرائم کی حکومت سندھ سے اجازت لینا ہو گی۔ یہ استغاثہ یا مقدمہ فیصلہ ہونے سے پہلے واپس لیا جا سکے گا۔ پراسکیوٹر ان وجوہات سے تحریری طور پر عدالت کو حکومت کی جانب سے آگاہ کرے گا کہ وہ ملزم پر کیس نہیں چلانا چاہتا ہے لہٰذا ملزم کے خلاف تمام کارروائیاں ختم کر کے اسے بری کر دیا جائے۔
انتظامی کنٹرول پراسیکیوٹر جنرل کے پاس ہو گا تمام پراسیکیوٹر اور اس سروس کے تمام ارکان پراسیکیوشن جنرل کے ماتحت فرائض انجام دیں گے پراسیکیوٹر جنرل کو اختیار ہو گا کہ وہ پراسیکیوٹر کو کام تفویض اور ان کے تبادلے اور تقرریاں کر سکے اس کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ پراسیکیوٹر یا تحقیقات کرنیوالے کسی افسر کو عمومی گائیڈ لائنز جاری کر سکے۔
پراسیکیوٹر جنرل اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل مجاز اتھارٹی کسی بھی ایسے سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی کے لیے لکھ سکتے ہیں جو تحقیقات یا پراسیکیوشن میں کام دے رہے ہوں۔ وہ کسی تحقیقات کرنیوالے افسر یا قانون نافذ کرنیوالے سے معینہ وقت کے اندر رپورٹ کر سکتے اور کسی بھی ادارے یا سرکاری محکمے سے ریکارڈ یا دیگر دستاویزات طلب کر سکتے ہیں بل کے اغراض و مقاصد میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے یہ ترامیم کی گئی ہیں تا کہ سندھ کریمنل پراسیکیوشن سروس کے انتظامی کنٹرول و اختیار میں بہتری لا کر اس سروس کو خودمختار بنایا جائے۔
اپوزیشن نے ترمیمی بل کو زرداری بل قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت پی پی پی کے کرپشن میں ملوث راہنماؤں کو بچانے کے لیے اپنے اختیارات لامحدود کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ رہی ہے۔ حکومت کے پاس اب پراسیکیوٹر کے ذریعے کوئی بھی کیس ختم کرانے کا ایسا اختیار آ گیا ہے جس کی پہلے کہیں مثال نہیں ملتی۔ متحدہ کے پارلیمانی لیڈر کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے ہوم سیکریٹری، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن اور کچھ عدالتوں کے مجسٹریسی اختیارات کو حاصل کر لیا گیا ہے۔
پی پی پی حکومت عدالتوں کو احکامات دینے کی کوششیں کر رہی ہے پراسیکیوٹر جنرل کا تقرر کسی میرٹ کے تحت نہیں ہوتا وہ پارٹی کا جیالا ہوتا ہے اس ترمیم سے کریمنل پراسیکیوشن سروس کے پرانے قانون میں اسپیشل کورٹس کا اضافہ کر کے اب انسداد دہشت گردی عدالتوں اور کرپشن کیسز میں پراسیکیوٹر جنرل کا عمل دخل کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر قانون نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ کریمنل پراسیکیوشن سروس ترمیمی بل کرپشن کو چھپانے کے لیے لایا گیا ہے، پراسیکیوٹر جنرل کا کرپشن کیسز پر کوئی اختیار نہیں ہے اپوزیشن میرٹ پر مخالفت کرے۔ بل پر بحث کرائی جائے یا نہیں یہ صوابدید اسپیکر کی ہوتی ہے۔ مقدمات بھی عدالتوں کی مرضی سے ختم کیے جا سکیں گے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سزاؤں کی شرح 10 فیصد سے زیادہ نہیں تھی ہماری کوششوں سے 27 فیصد ہو گئی ہے عدالتوں کے احکامات کے مطابق مذکورہ ترمیم سے پراسیکیوشن کو مضبوط بنایا گیا ہے۔حکومت جن عدالتی احکامات کی بات کرتی ہے موجودہ بل ان کے اغراض و مقاصد پر پورا نہیں اترتا۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے کہا تھا کہ حکومتی نمائندے اکثر یہ کہہ کر عدالتوں پر تنقید کرتے ہیں کہ عدالتیں دہشت گردوں اور مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں جب کہ عدالتیں پیش کردہ شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہیں اس تناظر میں حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عدالتوں میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر مقدمات پیش کرے۔
مقننہ کی ذمے داری ہے کہ وہ گواہوں، پولیس اور ججوں کی حفاظت کے لیے قانون سازی کرے اور اس پر مکمل عملدرآمد کرائے اگر تحقیقاتی ایجنسیاں اور استغاثہ پیش کرنے والے محکمے آزاد نہیں ہوں گے آئی بی اور اسپیشل برانچ کی رپورٹوں کے ہوتے ہوئے بھی مجرموں کو کیسے سزا دی جا سکے گی؟ جب کہ موجودہ ترمیم کے تحت فیصلے سے پہلے مقدمہ واپس لینے، پراسیکیوشن کے ارکان پراسیکیوٹر جنرل کے ماتحت کر دینے ان کے تبادلے و تقرریاں اور کسی سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی کی ہدایت دینے جو پراسیکیوشن میں کام کر رہے ہوں یا کسی بھی ادارے یا سرکاری محکمے سے ریکارڈ یا دیگر دستاویزات طلب کرنے کے اختیارات نے بہت سے تحفظات پیدا کر دیے ہیں جس کے ذریعے بہت سے اختیارات پراسیکیوٹر جنرل کی ذات میں مرتکز کر دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے سیاسی اثر و رسوخ و بدعنوانیاں انصاف کے راستے میں حائل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
سندھ کریمنل پراسیکیوشن ترمیمی بل 2016ء کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے جس میں وزیر اعلیٰ، ڈپٹی اسپیکر اور سینئر وزیر پارلیمانی امور کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بل کی منظوری بدنیتی پر مبنی ہے حکومت نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے جس کا مقصد کرپٹ عناصر کو قانون کی پکڑ سے بچانا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ترمیمی بل غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے اور اختیارات کے غلط استعمال پر وزیر اعلیٰ، ڈپٹی اسپیکر اور سینئر وزیر برائے پارلیمانی امور کو نااہل قرار دیا جائے۔ گزشتہ روز بار کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدلیہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو دلیل کی بنیاد پر طاقتور سے حق لے کر کمزور کو دیتا ہے۔
عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے جو جج بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے۔ ہم سلطان کے قاضی نہیں قانون کے تابع ہیں قانون ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی سے فیصلہ کریں ہم نئی نسل کو اچھا دے کر جائیں گے یا پھر اچھا چھوڑ کر جائیں گے قانون کی بالادستی پر قائم رہنے والی قومیں اور ادارے ترقی کرتے ہیں۔
حکومت، عدلیہ اور وکلا تنظیموں کو قائم مقام چیف جسٹس کے ان فکر انگیز الفاظ پر غور و خوض کرنا چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے قانون کی بالادستی و حکمرانی ہو نہ کہ بے وقعتی و بے اعتباری۔ پچھلے کچھ عرصے سے اسمبلیاں اس قسم کی وقتی و عجلتی قانون سازیاں کر رہی ہیں جن سے مزید پیچیدگیاں و قباحتیں پیدا ہو رہی ہیں جن کی نہ صرف اپوزیشن نے مخالفت کی بلکہ ان حکومت میں موجود شخصیات نے اپنی ناپسندیدگی و تحفظات کا اظہار کیا ہے اب اس روش کو ترک ہونا چاہیے۔ ایسے کانے قانون سے اجتناب برتنا چاہیے جو اپنے اور غیر میں امتیاز برتے یہی ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ہے۔