عوامی جدوجہد جاری ہے
صرف بلوچستان میں دس ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار وسائل بکھرے پڑے ہیں
ہمارے ملک میں اربوں روپے غیر پیداواری مد میں خرچ ہوتے ہیں، جیسا کہ خوبصورت عمارتیں، ماڈل اسکولز، بڑے بڑے پل، بڑی گاڑیاں، پروٹوکول، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہائش، بے بہا قیمتی کھانے، قیمتی کپڑوں، گھڑیوں، ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، ہوائی جہاز، سب میرین، توپ، بم، را کٹ اور فائیٹرجیٹ وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ دوسری طرف لوگ بھوک، بیماری، جہالت، بے روزگاری اور عدم ادویات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
صرف بلوچستان میں دس ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار وسائل بکھرے پڑے ہیں، تو دوسری جانب 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اگر تھر میں بچے علاج اور دوا کی عدم دستیابی اور غذائی قلت سے مررہے ہیں تو دوسری طرف حکمران خاندان کی بلی کو سردی لگنے پر ویٹرنری ڈاکٹر کو فوراً گھر پہ طلب کیا جاتا ہے۔
اربوں روپے کے خرچ سے گوادر پورٹ بنایا گیا، پھر گوادر سے چین تک سڑکوں کی تعمیر، میٹرو بس، موٹروے اور اورنج ٹرین منصوبے وغیرہ بنائے گئے اور جارہے ہیں۔ مگر اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں درس دینے والی اساتذہ جو ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں، انھیں صرف بارہ ہزار روپے تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ مزید برآں کہ مہینوں سے سیکڑوں اساتذہ کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئیں۔ یہ اساتذہ گزشتہ پچاس دن سے دھرنے پر بیٹھی ہیں، جب کہ حکومت نے خود اعلان کیا ہے کہ کم از کم ایک مزدور کی تنخواہ تیرہ ہزار روپے ہوگی۔ اور پی ایچ ڈی اساتذہ کو بارہ ہزار روپے دیے جارہے ہیں۔
ہمارے ملک میں شرح تعلیم انتہائی کم ہے، یہاں تک کہ نیپال اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔ تعلیم کا بجٹ بھی دنیا کے چند ملکوں کے برابر ہے جہاں سب سے کم بجٹ ہے، یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔ جب کہ کیوبا اور شمالی کوریا میں سو فیصد شرح تعلیم ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تعلیمی بجٹ کیوبا کا گیارہ فیصد، فن لینڈ کا چھ فیصد اور کینیڈا کا پانچ عشاریہ چھ فیصد ہے۔
سندھ کے اساتذہ بھی ایک عرصے سے کم تنخواہیں ملنے اور مہینوں سے انھیں تنخواہیں ادا نہ کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، خاص کر میر پور خاص کے اساتذہ آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن اب تک کسی کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے۔ حال ہی میں وزارت تعلیم میں بجٹ کی خوردبرد اور بدعنوانیاں میڈیا پہ آئی ہیں۔ یہ نہیں معلوم کے اس کا تدارک کیا ہوگا۔ ادھر لیڈی ہیلتھ ورکرز جو انتہائی کم تنخواہوں پر اپنی جان کی بازی لگا کر گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلا کر بچوں کو جینے کی راہ دکھاتی ہیں، بلکہ خواتین دہشت گردی کا شکار بن کر جان سے جا رہی ہیں، مگر ان کا عزم کتنا پختہ ہے کہ قطرے پلانے سے باز نہیں آتیں۔
اس طرح کی خدمات انجام دینے والوں کو تو دگنی تنخواہ اور انعامات سے نوازنا چاہیے۔ بجائے انھیں مراعات دینے کے مہینوں انھیں تنخواہیں نہیں دی جاتیں اور نہ مستقل کیا جاتا ہے اور جو تنخواہ مقرر کی گئی ہیں، وہ بھی بہت کم ہیں۔ ابھی کچھ عرصے پہلے لاہور میں نابیناؤں نے اپنی ملازمت کے لیے مال روڈ پر کئی دنوں تک مظاہرے کیے لیکن ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی گئی ۔
اسی طرح خواجہ سراؤں نے ملازمت کے لیے پنجاب میں مظاہرے کیے اور روڈ بلاک کیا، لیکن کون سنتا ہے؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ پختونخوا، باڑہ، نواکلے میں زبردست مظاہرے ہوئے اور انھوں نے دھمکی دی کہ اگر لوڈشیڈنگ ختم نہ کی گئی تو ہم مسلسل مظاہرے کریں گے۔ کراچی یونیورسٹی میں ریاضی کے شعبے میں ایک سو بیس کی حاضری ہوتی ہے، جن میں پچاس طلبا کرسی کے بغیر دری پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ ایک جانب نابیناؤں، خواجہ سراؤں، اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہوں پر صرف چند کروڑ روپے خرچ ہوتے جو انھیں نہیں دیا جاتا تو دوسری طرف اربوں روپے معروف وزراء اور نوکرشاہی غبن کرجاتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک کے بجٹ کا 76 فیصد کالے دھن کو اب حکومت نے خود سفید دھن میں تبدیل کرنے کا طریقہ بھی بنادیا ہے۔ مگر یہ قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے کہ جب آپ کی تنخواہ پچاس ہزار یا ایک لاکھ ہے تو آپ نے اربوں روپے کی جائیداد کہاں سے حاصل کی؟
بڑے بڑے سیاستدانوں اور وزرا پر کرپشن، غبن، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ، اپنے ماتحتوں کے ذریعے اربوں روپے کی خوردبرد اور ملک میں اور بیرون ملک جائیداد بنانے کے الزامات ہیں، بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی عدالتوں میں موجود ہیں۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ عرصے میڈیا پر شور شرابا ہوکر مقدمات کی آواز فضا میں غائب ہوجاتی ہے۔
دوسری جانب اسی ملک میں ساڑھے چار کروڑ عوام بے گھر ہیں اور تقریباً ساڑھے تین کروڑ بے روزگار ہیں۔ زچگی کے دوران فی لاکھ میں ساڑھے چار سو خواتین مرجاتی ہیں۔ روزانہ سیکڑوں افراد عدم علاج کی وجہ سے جان سے جارہے ہیں۔ ہم فائٹرجیٹ تو بنالیتے ہیں لیکن سوائن فلو، نیگلیریا، ڈنگی وائرس اور کانگو فیور سے عوام کو نجات نہیں دلاسکے۔ہمارے بنیادی مسائل میں بے روزگاری، بیماری اور عدم دستیابی ادویات ہیں۔ ہم بڑے منصوبے، پروجیکٹ اور راہداری تو قائم کررہے ہیں لیکن بھوک میں بلکتے ہوئے انسانوں کی بیماری سے مرتے ہوئے لوگوں اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کو نہیں دیکھ پارہے ہیں۔
ہمارے حکمران صرف نظر آنے والے کام کرتے ہیں اور بھوک و افلاس انھیں نظر نہیں آتی۔ ان کے خاتمے کا واحد راستہ ہے کہ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر صنعت کاری کی جائے اور بدعنوانی کو سختی سے جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے، اور یہ کام محنت کشوں کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے، جہاں طبقات کا خاتمہ کرکے ایک ایسا سماج تشکیل کرنا ہوگا، جہاں کوئی لٹنے والا ہوگا اور نہ کوئی لوٹنے والا۔ جائیداد، ملکیت، اسلحہ، سرحدیں، سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کرکے ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی بھوکا ہوگا اور نہ کوئی ارب پتی، چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔