سویرے اٹھنا جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

پوچھا، کب اٹھتے ہیں؟ عرض کیا، اذانوں کے وقت۔ استفسار ہوا، کیا مطلب؟ آخر بتانا ہی پڑا کہ وہ اذانیں ’’ظہر‘‘ کی ہوتی ہیں۔


Muhammad Usman Jami January 23, 2016
اگر کبھی کسی مجبوری کے تحت سویرے اٹھنا ہو تو شام سے دل میں ہول اٹھنے لگتے ہیں، اور رات تک یہ عالم ہوجاتا ہے جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے۔

پوچھا، کب اٹھتے ہیں؟

عرض کیا، اذانوں کے وقت۔

حیرت سے کہا گیا، آدھی آدھی رات جاگ کر اتنا سویرے کیسے اٹھ جاتے ہیں؟

بھیا! جتنا کہا ہے اس پر اکتفا کرو، کیوں بال کی کھال نکالتے اور بندے کی شرم اتارتے ہو۔

استفسار ہوا، کیا مطلب؟

آخر بتانا ہی پڑا کہ وہ اذانیں ''ظہر'' کی ہوتی ہیں۔

اب کیا بتائیں کہ ہمارے لیے صبح سویرے اٹھنا ۔۔۔۔۔ لانا ہے جوئے شیر کا۔ کبھی تڑکے اٹھ جائیں تو ہم اور ابھرتا ہوا سورج ایک دوسرے کو دیر تک حیرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ جب سورج روشنی پھیلا رہا ہے تو ہمارا کیا کام؟ اور دوبارہ سوجاتے ہیں۔

اگر کبھی کسی مجبوری کے تحت سویرے اٹھنا ہو تو شام سے دل میں ہول اٹھنے لگتے ہیں، اور رات تک یہ عالم ہوجاتا ہے جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے۔ اگر الارم نیند اور تعبیر کو ترستا خواب توڑنے میں کامیاب ہوجائے تو تقدیر پر صبر اور دل پر جبر کرکے اٹھنا پڑتا ہے۔ اس جبر کی زد میں معدے سمیت کتنے ہی اعضا آتے ہیں جو ایک الگ کہانی ہے۔ ہمیں ان علماء حضرات پر تعجب ہے جنہوں نے لاؤڈ اسپیکر کی برصغیر آمد پر اس کے خلاف فوراً فتویٰ دے دیا تھا۔ مگر الارم کے بارے میں چُپ سادھے رکھی۔ اگر اس ناہنجار کی بابت بھی چار حرف کہہ دیے، بلکہ بھیج دیے جاتے تو ہم جیسے، نیند جنہیں پیاری ہے کو اس آلے کے عدم استعمال کا شرعی جواز مل جاتا، ایک فتوے میں علماء کا کیا جاتا؟

حقیقت یہ ہے کہ جب تک سورج کی تاب دیکھنے کی تاب نہ رہے اور نظر آسمان کی طرف اٹھتے ہی آنکھیں چُندھیا جائیں، اُس وقت تک ہمارے لیے صبح، ''صبحِ کاذب'' ہی رہتی ہے۔ آفتابِ کامل دیکھنے کے بعد ہی ہمیں صبح ہونے کا یقین کامل حاصل ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے یقینِ محکم نہ ہو تو عملِ پیہم کیسے ہوگا؟ علامہ اقبال کے مصرعوں کے استعمال سے آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ ہم عاشق اقبال ہیں، تو حضرت علامہ کے حکم کردہ یقینِ محکم کے بغیر کوئی بھی کام کرنا ہم جیسے عاشقِ اقبال کے لیے کیسے ممکن ہے؟ سو ہمارا جَچا تُلا موقف ہے کہ جب تک دن نکلنے کا یقین نہ ہوجائے بستر سے نکلنا خود فریبی ہے۔

یہاں آپ کے دل میں یقیناً یہ بدگمانی پیدا ہوئی ہوگی کہ سحر خیزی پر وارفتہ علامہ اقبال کا یہ کیسا عاشق ہے؟ اِس قدر جس پر گراں صبح کی بیداری ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ شاعر مشرق کو صبح سویرے اٹھ کر نسیم صبح اور طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہونا بے حد عزیز تھا، انہوں نے معاشی عذر کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودی کو چھوڑ دیا، ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' والی شاعری چھوڑدی، یہاں تک کہ بیوی کو چھوڑ دیا مگر۔۔۔۔۔۔ نہ چھوٹے ''ان'' سے لندن میں بھی آداب سحرخیزی، سچ ہے بُری عادتیں نہیں چھوٹتیں۔ علامہ نے کتنے دُکھ کے ساتھ اپنی اس عادت کا تذکرہ کیا تھا،
زمستانِ ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

جب بھی یہ شعر پڑھتے ہیں ہماری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ بھلا بتائیے، اتنا بڑا شاعر، مفکر، فلسفی، دانائے راز، حکیم الامت، وغیرہ وغیرہ، مگر سحر خیزی کی عادت سے اتنا مجبور کہ لندن کی یخ بستہ ہوائیں جسم کاٹے ڈال رہی ہیں، مگر سڑک پر ٹھٹھرتا ہوا، سُکڑا سمٹا چلا جارہا ہے۔ صرف اس لئے کہ لت پڑگئی ہے۔ اس شعر میں علامہ نے دراصل کہنا یہ چاہا ہے کہ ''لَت یہ غلط لگ گئی''، اس مضمون کو بہت بعد اب جا کر ایک فلمی گانے میں ادا کیا گیا ہے۔
اب جہاں تک ''کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے'' والے شعر کا تعلق ہے، تو یہ علامہ نے تھوڑی کہا تھا، یہ تو جوابِ شکوہ تھا، جس سے علامہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ لوگ پو، پھوٹنے سے پہلے کیسے اٹھ جاتے ہیں؟ ہمارا بس چلے تو ہم بم پھٹنے پر ہی اٹھیں۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو بچپن سے منہ اندھیرے جاگ جانے کے عادی ہیں، اب بچپن کی ہر عادت تو اچھی نہیں ہوتی ناں۔ بعض حضرات کو پیشہ ورانہ مجبوریاں جھنجھوڑ کر اٹھا دیتی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے صبح سے خواہ مخواہ کا رومان باندھ رکھا ہے۔ انہیں فرائی انڈے کی شکل کا سورج دیکھنے اور بہت عرصے کے بعد باہم ملنے والی خواتین کی طرح ''چیں چیں چیں'' کرتی چڑیوں کا شور سننے کا شوق بیدار کردیتا ہے۔ عموماً یہ اس عمر کے لوگ ہوتے ہیں جن کی صحت انڈے اور خواتین کے قابل نہیں رہتی۔

اگر کوئی ہر روز ایک ہی شکل کے مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھنے کے لئے اٹھتا ہے تو اٹھتا رہے، ہماری بلا سے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ منہ اندھیرے اٹھ کر آس پاس سونے والوں، دروازوں، الماریوں اور کوڑے کی ٹوکری سمیت ہر جان دار و بے جان سے ٹکراتے یہ حضرات، ''دنیا کے غریبوں کو جگادو'' کا مشن لے کر نہ اٹھا کریں، مگر چڑیوں سے پہلے اٹھ جانے والے یہ اصحاب بہ ضد ہوتے ہیں کہ کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو۔ ایسے میں سرتا پا نیند سے بھرے اور خراٹے مارتے گھر کے افراد انہیں زہر لگتے ہیں۔ یہ اپنے بے وقت اٹھنے کا پچھتاوا ہوتا ہے، ناشتے کی طلب یا تنہائی، یہ بڑی چالاکی سے دوسروں کی نیند خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

دبے پاؤں آکر آپ کے کمرے کا پنکھا بند کریں گے اور کھسک لیں گے، حلق کی پوری توانائی لگا کر کھانسیں گے، ٹی وی یا ریڈیو اونچی آواز میں کھول دیں گے، اس کھڑکی کے دروازے وا کردیں گے جہاں سے کرنیں براہ راست آپ کے منہ پر آتی ہوں۔ یہ کھڑکی کھلتے ہی سڑک پر گزرتے دودھ والے کی گاڑی کا ہارن، ہاکر کی سائیکل کی گھنٹی، اسکول وین کی ''پوں پوں'' سب آپ کو جگانے میں ان کی رفیق ہوجاتی ہیں۔ اب یا تو آپ ہمارے جیسے ڈھیٹ ہوں کہ تکیے سے منہ اور کانوں کو ڈھانپ کر یہ کوشش ناکام بنادیں، ورنہ کھلی کھڑکی سے نیند کو پرواز کرتا دیکھیں اور بستر سے اٹھ جائیں۔

یقین مانیں معصوم چڑیاں بھی اس وقت سونا چاہتی ہیں، انہیں یہی لوگ اٹھاتے ہیں، اسی لئے تو وہ احتجاجاً اتنا شور کرتی ہیں۔

اتنے سویرے اٹھنے میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ سب سے اچھی کوالٹی کے خواب اسی وقت آتے ہیں۔ ہمارے وہ خیالات جو بڑھاپے میں چہرے پر آکر ہمیں مکروہ صورت بنائیں گے، وہ ارادے جن کے بالارادہ یا بہ امر مجبوری پورے نہ ہونے پر ہی جنت ملنے کی امید ہے، وہ خواہشیں جن کی جھلک بھی ہماری آنکھوں میں آجائے تو بیبیاں ہراساں ہو کر ہراسمنٹ کا مقدمہ ٹھونک دیں اور وہ ماضی جسے جان لیں تو بیویاں ہم سمیت گھر پھونک دیں، سب ڈھلتی رات اور طلوع ہوتی صبح کے درمیان ہی خواب کی صورت آنکھوں میں اترتے ہیں۔ ایسے خوب صورت اور سینسر سے آزاد خواب ادھورے چھوڑ کر اٹھنا پڑے تو موڈ اور پورا دن خراب ہوجاتا ہے، ورنہ بات صرف کپڑوں تک رہتی ہے۔

[poll id="908"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں