وہ تین
وہ تین دوست ایک زمانے میں میری کلاس و اسکول صدر کراچی میں پڑھتے تھے۔
وہ تین دوست ایک زمانے میں میری کلاس و اسکول صدر کراچی میں پڑھتے تھے۔ ساتھ ہی کھیلتے تھے، ساتھ پڑھتے تھے اور ساتھ ہی شرارتیں کرتے تھے، ان تینوں میں آپس میں بڑا پیار تھا، کبھی کبھی لڑتے جھگڑتے بھی تھے، پھر شیر و شکر ہوجاتے تھے۔ تینوں نے اسکول پاس کیا، پھر مختلف کالجوں سے منسلک ہوگئے، وقت تیزی سے گزرتا رہا، ان تینوں میں سے ایک تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بیرون ملک چلا گیا، ایک نے موسیقی کے شعبے کو اپنالیا اور ایک کراچی یونیورسٹی سے جب انگلش لٹریچر میں ایم اے کرکے نکلا تو اس نے اپنے والد کے فلمی کاروبار میں دلچسپی لینی شروع کردی۔
اس کے والد کا نام نثار مراد تھا اور وہ کراچی کے ایک بڑے فلم تقسیم کار ادارے فلم آرٹس کے روح رواں تھے۔ نثار مراد نے ایک کرسچن خاتون سے شادی کی اور وہ مسلمان ہوگئی تھی، وحید مراد ان دونوں کی واحد اولاد تھا۔ وحید مراد کی رفتہ رفتہ فلم انڈسٹری سے دلچسپی بڑھتی گئی، پھر اسے اداکاری کا بھی شوق ہوگیا۔ وحید مراد نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا آغاز بطور مہمان اداکار کیا۔ اور جن دو فلموں میں مہمان اداکار آیا ان میں ایک فلم ''باجی'' تھی اور دوسری فلم ''ساتھی'' تھی۔
اسی دوران وحید مراد نے فلمسازی کے میدان میں بھی قدم رکھا، ہدایت کار منور رشید (ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید کے والد) کو لے کر ایک فلم ''انسان بدلتا ہے'' بنائی، اور وحید مراد کو شہرت بطور ہیرو فلم ''ماں اور بیٹا'' سے ملی، جسے وحید مراد نے ہدایت کار حسن طارق کے اشتراک سے بنایا تھا، جس میں وحید مراد ہیرو تھا۔ مگر وحید مراد کی قابل ذکر پہلی اور کامیاب ترین فلم اس کی اپنی ذاتی فلم ''ہیرا اور پتھر'' تھی، جس میں وحید مراد نے زیبا کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور زیبا اور وحید مراد کی فلمی جوڑی کو عروج ملا۔
پہلی فلم کی بے مثال کامیابی کے بعد وحید مراد نے ''ارمان'' اور ''دوراہا'' بنائی، ''ارمان'' کی مقبولیت نے ''ہیرا اور پتھر'' کی کامیابی کو بھی ماند کردیا اور زیبا وحید مراد کی اس شوخ و شنگ فلمی جوڑی نے اس دور میں فلمی دنیا میں ایک دھوم مچا دی تھی۔ فلمی دنیا میں صبیحہ، سنتوش کی جوڑی کے بعد زیبا وحید مراد کی جوڑی سب سے زیادہ خوبصورت جوڑی تھی۔ پھر وحید مراد اپنی ذاتی فلموں ''امان'' اور ''سمندر'' کے بعد لاہور شفٹ ہوگیا۔ فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے بھی وحید مراد کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی فلم ''شبانہ'' میں کاسٹ کیا، ہدایت کار قدیر غوری کی فلم ''دامن'' کے بعد وحید مراد کے پاس فلموں کی ایک قطار لگ گئی تھی۔
حسن طارق کی فلم ''انجمن، عندلیب، کنیز اور اے بہارو پھول برساؤ کے ساتھ ساتھ ان گنت فلموں میں وحید مراد نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنی ہیرو شپ کا لوہا منوایا۔ وحید مراد پاکستان ہی نہیں بلکہ ایشیا میں اردو فلموں کا کامیاب ترین اور ورسٹائل ہیرو بن چکا تھا، اس ہیرو کو چاکلیٹی ہیرو کا خطاب دیا گیا اور یہ واحد ہیرو تھا جسے لیڈی کلر بھی کہا جاتا تھا۔ اس کی بیشتر فلموں کو نگار ایوارڈز اور دیگر ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
وہ اس دور کے فلمساز اور تقسیم کار ادارے فلم آرٹس کا انتہائی کامیابی اور خوشحالی اور خوش قسمتی کا دور تھا۔ نثار مراد اپنے فلمی کاروبار اور اپنے صاحبزادے کی شہرت عروج اور کامیابی پر پھولے نہیں سماتے تھے، اسی دور میں فلم آرٹس کے مقابلے پر جگدیش پکچرز کے نام سے جگدیش چند آنند کا فلمساز و تقسیم کار ادارہ تھا، جس پر نثار مراد کا ادارہ بھاری پڑگیا تھا اور جگدیش پکچرز کی کاروباری ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوگئی تھی۔
اب میں وحید مراد کے ایک اور اسکول کے ساتھی کی طرف آتا ہوں، جس نے کالج کے بعد کسی اور شعبے کی طرف جانے کے بجائے فلمی دنیا کی طرف ہی آنا مناسب سمجھا اور وہ موسیقی کے شعبے سے وابستہ ہوگیا، اسے موسیقی سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ وہ نوجوان سہیل رعنا تھا جسے میں نے پہلی بار موسیقار لال محمد اقبال کے ساتھ دیکھا تھا۔
سہیل رعنا ان دنوں بطور اکارڈین پلیئر کراچی کی فلموں میں ایک میوزیشن کی حیثیت سے شامل ہوتا تھا، جس طرح اس کا ساز خوبصورت تھا اسی طرح یہ خود بھی خوبرو جوان تھا، پھر وحید مراد نے اسے پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' میں بطور موسیقار لیا تھا۔ اس کی ''ہیرا اور پتھر'' میں شاندار کارکردگی کے بعد فلم ارمان اور دوراہا کی موسیقی نے بھی فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ چند گیت تو بہت ہی مقبول ہوئے تھے جن میں:
٭مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا
٭اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم
٭ہاں اسی موڑ پر اس جگہ بیٹھ کر
٭چندا رے چندا
یہ وہ گانے تھے جو پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے دن و رات میں کئی کئی بار نشر ہوتے تھے۔ موسیقار سہیل رعنا نے بحیثیت کمپوزر اپنے کیریئر کا آغاز EMI گراموفون کمپنی کی ریکارڈنگ سے کیا تھا اور جس پہلی غزل کی دھن بنائی تھی وہ ان کے والد مشہور شاعر رعنا اکبر آبادی کی ایک غزل تھی، جو اس دور کے ریڈیو کے گلوکار ایس جی جون کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی جس کے بول تھے:''اڑے ہوش اس در پہ جانے سے پہلے'' ریڈیو، EMI گراموفون کمپنی کے بعد سہیل رعنا نے فلموں میں کامیاب ہونے سے پہلے کراچی ٹیلی ویژن سے بچوں کے لیے بھی ایک موسیقی کا پروگرام شروع کیا تھا۔ اور یہ جب فلموں کی طرف آیا تو سہیل رعنا کی دلنواز دھنوں نے لاکھوں دلوں کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔
اب میں آتا ہوں وحید مراد کے تیسرے اسکول کے دوست پرویز ملک کی طرف جو بیرون ملک چلا گیا تھا اور جب وہ واپس پاکستان آیا تو کراچی میں جب وحید مراد سے ملا اور وحید مراد کو پتہ چلا کہ پرویز ملک بیرون ملک سے فلم تکنیک کی جدید تعلیم لے کر آیا ہے تو اس نے اپنی زیر تکمیل پہلی ذاتی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کی ڈائریکشن کی ذمے داری پرویز ملک کے کاندھوں پر ڈال دی تھی، جسے پرویز ملک نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا تھا اور پھر یکے بعد دیگرے وحید مراد کی کئی ذاتی فلموں میں ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے اور کامیاب ہدایت کاروں کی صف میں پرویز ملک کا بھی پھر ایک مقام بن گیا تھا۔
''ہیرا اور پتھر''، ''ارمان''، ''دوراہا'' میں شاعر مسرور انور کو وحید مراد ہی نے بطور نغمہ نگار شہرت کی رہگزر کا مسافر بنادیا تھا اور مذکورہ فلموں کے خوبصورت گیتوں کی مقبولیت نے مسرور انور کے لیے بھی لاہور کی فلمی دنیا میں نئے راستے بنادیے تھے، پھر مسرور انور کو بھی لاہور کے فلمسازوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور اس دور میں مسرور انور ہر دوسری فلم کے گیت لکھ رہا تھا اور بحیثیت نغمہ نگار مسرور انور کی بھی چاندی ہوگئی تھی۔ اب لاہور کی فلم انڈسٹری میں وحید مراد، ندیم اور محمد علی کے نام بکتے تھے۔
ان کے ناموں سے فلمیں سیٹ پر آنے سے پہلے ہی تقسیم کار اداروں کے کھاتے میں چلی جاتی تھیں۔ وحید مراد نے کبھی یہ خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وقت کبھی کسی کا یکساں نہیں رہتا اور اس کے گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ آج اس کی شہرت کے آنگن میں چھاؤں ہے تو کل دھوپ کا بسیرا بھی ہوسکتا ہے۔ پھر ہوا یوں کہ جگدیش چند آنند نے اداکار محمد علی کو کراچی بلایا اور اس کو بطور ہیرو اپنے فنانس کے ساتھ فلم ''جیسے جانتے نہیں'' پروڈیوس کرنے کا موقع فراہم کیا اور شرط یہ رکھی گئی کہ فلم کی ہیروئن ہر صورت میں زیبا ہوگی۔
محمد علی نے یہ آفر قبول کرتے ہوئے زیبا کو ہیروئن کاسٹ کرلیا۔ زیبا کو بھی بڑے عرصے کے بعد محمد علی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور فلم ''جیسے جانتے نہیں'' کا بڑی دھوم دھام سے آغاز کیا گیا، اب یہاں زیبا اور محمد علی کی زندگی میں وقت ایک نئی کروٹ لیتا ہے، دونوں کے دلوں میں محبت کی وہ پرانی چنگاری جو ان دونوں کی پہلی فلم ''چراغ جلتا رہا'' کے دوران بھڑکی تھی وہ پھر سے روشن ہوگئی۔ فلم ''انسان اور آدمی'' کے بعد ''جیسے جانتے نہیں'' کے دوران زیبا اور محمد علی کے رومانس نے پھر سے کروٹ لی اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
اسی دوران وحید مراد کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں وہ بری طرح زخمی ہوگیا تھا۔ وہ صحت یاب ہوکر جب دوبارہ لاہور گیا تو اس کے چہرے پر آئی ہوئی خراشیں اس کے ہیرو شپ پر اثرانداز ہوتی چلی گئیں، لاہور کے فلمسازوں اور ہدایت کاروں نے وحید مراد سے عدم دلچسپی کا اظہار کرنا شروع کردیا، اس طرح ایک عظیم ہیرو کی انا قدم قدم پر مجروح ہوتی رہی۔
وحید مراد کے اپنے دوستوں جن میں ہدایت کار پرویز ملک اور مسرور انور بھی شامل تھے، وحید مراد سے کنی کترانے اور دامن بچانے لگے اور اب وحید مراد کی حیثیت ایک کٹی ہوئی بے وقعت پتنگ کی سی ہوگئی تھی، یہ صدمہ اس کے دل میں اترتا چلا گیا۔ پھر وہ پنپ نہ سکا اور صرف 45 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس طرح ایک بے مثال ہیرو کی اپنی کہانی انتہائی دردناک انجام کی تصویر بن کر رہ گئی۔