قومی اثاثوں کی نجکاری اور تکنیکی مباحث
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہیں
BANGKOK:
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ بے روزگار ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں، ایک سروے کے مطابق جون 2016 تک تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد 25 لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہر سال 30 ہزار نوجوان روزگار تلاش کرنے والوں کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں بے روزگاری انتہائی سنگین صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں بے روزگاری میں اضافے کی شرح ہولناک حد تک بڑھی ہوئی ہے اور ہمارے ارباب اختیار اب تک اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ لوگوں کو جمی جمائی نوکریوں سے بے دخل کرنے کے جتن ان کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف نہیں تو اور پھر کیا ہے؟
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر لوگوں کے ہاتھ پاؤں پھیلانے، انھیں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا کرنے یا پھر انھیں ڈپریشن کا شکار بنانے کے لیے گولڈن ہینڈ شیک، ڈاؤن سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے نام پر ایک انجانی تلوار ان کے سروں پر مسلط کردی جاتی ہے، پاکستان میں قومی اثاثوں کی نجکاری کے حوالے سے آج کل بہت سی باتیں ہورہی ہیں، احتجاجی بیانات ریکارڈ کرائے جارہے ہیں اور جو ادارے پرائیویٹ کردیے گئے ان پر شکوک و شبہات کا اظہار اب تک ہر خاص و عام کررہے ہیں۔
ان دنوں بھی پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن جیسے ادارے نجکاری کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ہماری حکومتوں کو تو شاید اس بات کا احساس نہ ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے اور حساس قومی اداروں کی نجکاری کا معاملہ ایک ایسا سیاسی ایشو بن جاتا ہے جسے اپوزیشن میں رہنے والی سیاسی جماعت حکومت وقت کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ ماضی میں جن قومی اداروں یا اثاثوں کو نجی شعبے کے حوالے کرتے ہوئے جو قیمت وصول کی گئیں انھوں نے عام لوگوں کو بھی حیران و پریشان کردیا تھا اور وہ اس صورت حال سے مطمئن نہیں تھے۔ بعض حلقوں نے تو یہاں تک کہا کہ نجکاری کے اس عمل کو مستقبل میں اپوزیشن پاکستان کی تاریخ کے ایک بہت بڑے مالیاتی اسکینڈل میں دیکھے گی اور واقعتاً ایسا ہوا بھی۔
مسلم لیگ ن کے پچھلے دور حکومت میں جب بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کی نجکاری ہوئی تو صرف ان اداروں سے وابستہ محنت کشوں نے چیخ و پکار کی، کیوں کہ وہ بہت بری طرح متاثر ہوئے تھے، ان کے علاوہ عام آدمی نجکاری کے حوالے سے باتیں نہیں کرتا تھا لیکن پھر بھی یہ معاملہ حکومت کی عدم مقبولیت میں ایک بہت بڑی وجہ بنا۔ کیوں کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری سے ایک عام آدمی کا روزگار ختم ہوجاتا ہے اور ملک میں بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔
یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ قومی اثاثوں (اداروں) کی اس طرح بے دریغ نجکاری ہونی چاہیے یا نہیں، جس طرح ہمارے ملک میں ہورہا ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے منافع بخش اداروں کو نجی شعبے کو ایسی قیمتوں پر آخر کیوں فروخت کیا گیا جنھیں بعض لوگ یا چوٹی کے تنقید نگار کوڑیوں کے مول بیچنے سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ پھر یہ سوال بھی اٹھا کہ اب تک جتنے بھی ادارے نجکاری کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائے گئے ان سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ان سوالوں سے قطع نظر ملک میں نجکاری کے حامی حلقے یہ کہتے ہیں کہ سرکاری کنٹرول میں اداروں کی کارکردگی بہتر نہیں رہتی، لیکن ایسے میں ان سے یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر پوری حکومت کیسے چلالی جاتی ہے؟ پاکستان کے آمر اقتدار پر قبضہ کرتے وقت یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ سیاست دان حکومتی معاملات کو درست سمت میں نہیں چلارہے تھے، اب وہ سارے معاملات کو ٹھیک کرلیںگے (حالانکہ ان کا مملکتی نظام چلانے کا کوئی سابقہ تجربہ بھی نہیں ہوتا)
اگر اس جواز کو حق بجانب تسلیم کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے تجربہ کار اور ماہر افراد کی خدمات حاصل کیوں نہیں کی جاتی ہیں؟ ہماری دانست میں اگر ماہر لوگوں کی خدمات اداروں کی فلاح اور اس کی بہتری کے لیے حاصل کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاملات کو ٹھیک نہ کیا جاسکے، وطن عزیز میں ایسی بہت سی شخصیات ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں تجربے، صلاحیت، بصیرت اور مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان میں کئی بڑے بڑے اداروں کا خسارہ خاصے عرصے سے ایک ایسا سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی ہولناکی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی محسوس ہورہی ہے۔ ملکی تاریخ کے حوالے سے یہ افسوسناک سچائی ہے کہ ہر سال عوام کے ٹیکسوں کی 500 ارب روپے سے زائد رقم اس قسم کے ''بیمار اداروں'' پر خرچ کی جارہی ہے، مگر اصلاح احوال کی صورت نہ تو پچھلے کئی برسوں میں نظر آئی نہ موجودہ ڈھانچے کے ساتھ انھیں چلانے کی صورت میں آیندہ کئی برسوں تک اس صورت حال میں بہتری کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں سرکاری صنعتی اداروں کی نجکاری کا فلسفہ سامنے آیا تھا جسے بروئے کار لاکر کئی ممالک اپنے صنعتی خساروں سے نجات پانے کے علاوہ نئے آئیڈیاز اور نئے خون کے ساتھ اپنے اداروں کے متحرک و فعال ہونے کے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب رہے، پاکستان میں بھی سرکاری ملکیت کے بینکوں سمیت کئی اداروں کی احتیاط کے ایسے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نجکاری کی گئی ہے کہ ان کے ملازمین کی بے روزگاری یا معاشی بد حالی کی صورت میں معاشرے پر ایک نیا بوجھ نہ آنے پائے۔ اب بھی ہمارے جن قومی اثاثوں یا اداروں کو ''پرائیویٹائز'' کرنے کا جو پروگرام بنایا گیا ہے اسے روبہ عمل لاتے ہوئے یہ احتیاط ملحوظ رکھنی ہوگی کہ نجکاری کے بعد ان اداروں کے ملازمین کی ملازمتوں کو تحفظ دیا جائے اور اگر ''چھانٹی'' ناگزیر ہو تو فارغ کیے جانے والے ملازمین کو قوانین اور ضوابط کے تحت مناسب معاوضے اور سہولتوں کے ذریعے اپنا کاروبار کرنے سمیت ''معاشی تحفظ'' مل سکے۔
اس مقصد کے لیے ایسے مزدور دوست قوانین بناکر جلد از جلد سامنے لائے جانے چاہئیں جن کے ذریعے پرائیویٹائز ہونے والے اداروں کے ملازمین کو اضطراب و بے چینی سے بچایا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹیکس نیٹ بڑھانے، ٹیکس ایڈمنسٹریشن درست کرنے اور ایف بی آر کو فعال بنانے کی تدابیر کی جانی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بار بار قرضوں کی ضرورت نہ پڑے۔
پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے پاکستان کی کرنسی جو اس وقت دنیا کی 10 سے 12 کرنسیوں میں شمار ہوتی تھی اور مضبوط ترین حیثیت کے لحاظ سے گنی جاتی تھی۔ یک لخت 50 فی صد گھٹا دی اور 5 روپے کا ڈالر پہلے 11 روپے پھر چند دن بعد 10 روپے کا کردیا گیا جس سے ملک میں مہنگائی کا پہلا پتھر نصب کیا گیا۔ راتوں رات اشیائے صرف کی قیمتیں دُگنی ہوگئیں۔
اس پر بھی بس نہیں کیا گیا ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی بڑی بڑی صنعتیں جن میں ٹیکسٹائل، آئرن، بینک، انشورنس، کاٹن انڈسٹریز سب کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے 10 سالہ صنعتی انقلاب پر پانی پھیر دیا گیا، جس سے ملک معاشی طور پر مفلوج ہوگیا تمام بڑے کارخانے، ملیں مالکان سے چھین کر کارکنوں کے حوالے کردی گئیں، ہر طرف یونین سازی ہوگئی تمام بڑے بڑے صنعت کار ملک چھوڑ گئے سرمایہ اور دماغ دونوں ملک سے باہر چلے گئے حد تو یہ رہی کہ تمام تعمیل ادارے بھی قومیالیے گئے اور کسی کو ایک پیسہ نہیں دیاگیا۔
ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ ماضی کی نجکاری کے غلط اقدامات سے مکمل طور پر اجتناب کرے اور اول تو اپنی نجکاری کی پالیسی پر نظر ثانی کرے، اداروں کو کوڑیوں کے دام بیچنے کے بجائے ان میں بہتر قیادت لانے کی کوشش کرے کیوں کہ نجکاری سے نہ صرف پاکستان کے حساس اور اسٹریٹجک قومی اثاثہ جات کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں بلکہ اس سے قومی معیشت کی بنیادیں بھی کمزور ہورہی ہیں اور لوگوں میں بھی بے چینی پیدا ہورہی ہے نجکاری کے حوالے سے تکنیکی مباحث میں الجھنے کی بجائے قومی معاملات کو مد نظر رکھا جائے وگرنہ تو افسوسناک سچائی اٹل ہے کہ پاکستان کتنے آنسوؤں اور کتنی قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا جسے ہم اس طرح نظر انداز کررہے ہیں جیسے یہ کوئی ارزاں جنس ہو۔