آرمی چیف نے پھر لیڈ لے لی
جنرل راحیل شریف آرمی چیف کی تین سالہ مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔
جنرل راحیل شریف آرمی چیف کی تین سالہ مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ جنوری اور نومبر کے درمیان 10 ماہ کا فاصلہ ہے مگر آرمی چیف نے ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کر کے کچھ کو حیران' کچھ کو پریشان اور حکمرانوں کو اطمینان سے مالا مال کر دیا۔ ملکی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی آرمی چیف نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے اتنا عرصہ پہلے وقت پر ریٹائر منٹ کا اعلان کیا ہے۔
کچھ عرصہ سے اس طرح کی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ تین وفاقی وزراء نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کر کے انھیں مدت ملازمت میں توسیع لینے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ مدت ملازمت میں توسیع لینے نہ لینے کے حوالے سے خبریں بھی تواتر کے ساتھ میڈیا میں آ رہی تھیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک نے اس ''کار ِخیر'' میں اپنا حصہ ڈالا۔ پرویز مشرف بھی اپنے ہر انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ جنرل راحیل کو ایکسٹیشن لے لینی چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں آرمی چیف کے حوالے سے کہا تھا کہ ''پاک فوج ایک عظیم ادارہ ہے اور میں مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا، مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جاؤں گا جب کہ دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے کوششیں پورے عزم و استقلال کے ساتھ جاری رہیں گی، پاکستان کا قومی مفاد مقدم ہے جس کا تحفظ ہر صورت یقینی بنایا جائے گا''۔ آرمی چیف کا یہ بیان بڑا سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا لگتا ہے۔
قومی مفاد کے تحفظ، دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو جاری رکھنے کا عزم اس بیان کا اہم حصہ ہے، انھوں نے فوج کو عظیم ادارہ قرار دیتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ ادارے شخصیات سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اداروں کی مضبوطی کے نعرے اور دعوے تو بہت سنائی دیے مگر عملاً شخصیات کو مضبوط کرنے کا کام ہوتا رہا۔ پرویز مشرف کی آخری تقریر کے وہ الفاظ آج بھی آپ کو یاد ہوں گے جن میں موصوف نے کہا تھا کہ اب اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو وہ امیر المومنین بننے چل پڑے تھے۔
جنرل ایوب نے خود کو فیلڈ مارشل تک قرار دے دیا۔ آصف زرداری مفاہمت کی جادوگری کرتے کرتے 5سال تک خود کو بچاتے رہے۔ ضیاء الحق 11 سال اپنی شخصیت کو ملک کے لیے نا گزیر قرار دیتے ہوئے نکال گئے۔ غرض جو بھی آیا اس نے اپنی ذات کو مقدم جانا۔ آج ہمارے اداروں کی تباہ حالی کی وجہ بھی یہی ہے۔
ماضی میں عوام اپنے حکمرانوں کی ''کرم فرمائیوں'' سے جب بھی پریشان ہوئے انھوں نے فوج کو نجات دہندہ سمجھا اور جو بھی آرمی چیف سامنے پایا اس سے امید وابستہ کر لی۔ اس بار صورتحال مختلف ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنے اقدامات کی وجہ سے ملک کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ جس کا بین الاقوامی سطح پر بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔
آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نے انھیں ہیرو بنا دیا۔ یوں بھی ہوا کہ کسی تقریب میں وزیر اعظم اور آرمی چیف دونوں موجود تھے مگر لوگوں کی توجہ کا مرکز صرف جنرل راحیل شریف بنے رہے۔ کرپشن کے خلاف ان کا دوٹوک موقف بھی عوام میں بہت مقبول ہوا۔ انھوں نے ہمیشہ کہا کہ دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب کرپشن کے خلاف کارروائی کے حوالے سے لوگ قدرے مایوسی کا شکار ہیں۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کو بھی یہ پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا ہے کہ کراچی میں آپریشن ہو یا کرپشن کے خلاف کارروائی سب کچھ ان دو جماعتوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ پنجاب میں کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا۔ بڑے بڑے نام کرپشن کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی کی کسی میں جرات نہیں ہے۔
جنرل راحیل نے ہر موقع پر لیڈ لی۔ زلزلہ آیا تو سب سے پہلے آرمی چیف متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔ دہشتگردی کی کوئی بڑی کارروائی ہوئی تب بھی سب سے پہلے پہنچنے والے راحیل شریف ہی تھے۔ ہمارے وزیر اعظم ایسے مواقع پر اکثر ملک سے باہر پائے گئے۔ دہشتگردی کی تازہ ترین کارروائی باچاخان یونیورسٹی پشاور میں ہوئی، وزیر اعظم اس وقت سوئٹزر لینڈ کے دورے پر تھے۔
الیکٹرانک میڈیا کی زبان میں بات کی جائے تو سب سے زیادہ ریٹنگ اس وقت بھی جنرل راحیل شریف کی ہے۔ انھوں نے 10ماہ پہلے ٹائم پر ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کر کے اپنی ریٹنگ میں مزید اضافہ کر لیا ہے۔ جس ملک میںکرکٹر ریٹائرمنٹ نہ لیتے ہوں وہاں اتنا عرصہ پہلے ریٹائر ہونے کا اعلان کرنا معمولی بات نہیں۔
ہمارے سیاستدان جنرل راحیل کے اعلان پر جشن منا رہے ہیں، جمہوریت نواز اس فیصلے کو جمہوریت کی مضبوطی قرار دے رہے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ جنرل راحیل کے دور میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ آرمی چیف کی وجہ سے سیاسی قیادت نے بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
اے پی ایس پشاور میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تو عمران خان بنی گالا سے نکل کر وہاں نہیں گئے، باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے بعد نہ صرف عمران وہاں پہنچے بلکہ انھوں نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو بھی ڈیووس سے واپس بلوا لیا۔ وزیر اعظم بھی زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقوں کے دورے پر اسی وجہ سے گئے تھے کہ آرمی چیف ایسا کر رہے تھے۔
جنرل کیانی نے تین سال کی توسیع لے لی تھی اس لیے سمجھا جا رہا تھا کہ جنرل راحیل بھی یہی کریں گے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اقتدار پر قبضے کے لیے جس قدر سازگار حالات موجودہ آرمی چیف کو میسر آئے، ان کے پیشرؤں کو کم ہی ملے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ آج تک قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر دیا تھا۔
جنرل اسلم بیگ بھی ضیاء الحق کے بعد اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے مگر انھوں نے الیکشن کرانے کو ترجیح دی۔ کچھ اور مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں لیکن جنرل راحیل کا بطور آرمی چیف کنڈکٹ سب سے جدا نظر آئے گا۔ جنرل صاحب کے قریبی لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا پہلے دن سے یہی موقف ہے کہ وہ وقت پر ریٹائر منٹ لیں گے۔ گذشتہ برس لندن میں بھی انھوں نے اس کا اظہار کیا تھا۔
جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے یہ واضح اعلان کر دیا ہے کہ جمہوری قیادت نے ہی یہ ملک چلانا ہے۔ فوج اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی تک محدود ہے۔ ٹائم پر ریٹائرمنٹ کے اعلان سے سیاسی قیادت خوش ہوئی ہے۔ سیاستدانوں کا خوش ہونا بنتا ہے۔ سارے پریشر ختم ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد جنرل راحیل پر بھی کوئی پریشر نہیں رہا۔ اب ان کے کسی اقدام کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس میں ان کا کوئی ذاتی مفاد ہے۔
وہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالیں گے تو حکومت کو ان کی بات ماننا پڑے گی۔ ن لیگ کی قیادت کاا لبتہ ایک مسئلہ ہے' اسے جب یقین ہو جائے کہ چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا تو پھر اس کی حالت کچھ ''گلیاں ہو جان سُنجیاں، وچ مرزا یار پھرے'' والی ہو جاتی ہے۔ یہ عام حالات میں غلطیاں اور ایسے حالات میں بلنڈر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ نواز شریف کب تک اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مارتے۔ ماننا پڑے گا جنرل راحیل شریف نے پھر لیڈ لے لی ہے۔