ہم کب تک لکیر کے فقیر بنے رہیں گے

چند ماہ قبل امریکی حکومت نے پاکستان کو مزید چند ایف سولہ طیارے دینے کا اعلان کیا تھا


عثمان دموہی January 28, 2016
[email protected]

بھارت کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کو کسی بھی ملک سے جدید اسلحہ نہ ملنے پائے اور اگر کوئی ملک اسے اسلحہ دینے کی پیشکش کرے تو اسے روکا جائے، چنانچہ اسی پالیسی کے تحت بھارت شروع سے ہی امریکا روس فرانس اور دیگر ممالک سے پاکستان کو جدید اسلحے کے حصول کو مشکل بنانے میں لگا ہوا ہے۔

چند ماہ قبل امریکی حکومت نے پاکستان کو مزید چند ایف سولہ طیارے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن بھارت امریکا کی اس پیشکش کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ چند دن قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ارکان کو بطور خاص مطلع کیا کہ امریکا سے ملنے والے ایف سولہ طیاروں کی پاکستان منتقلی کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف بھارت بلکہ پیپلز پارٹی کے امریکا میں مقیم ایک رہنما حسین حقانی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔

حسین حقانی نے اس سلسلے میں نہ صرف اپنی جانب سے صفائی پیش کر دی ہے بلکہ الٹا حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی درست نہیں ہے۔ اب رہی بات بھارت کی تو وہ اپنی قومی پالیسی کے تحت لازمی طور پر اس سلسلے میں رکاوٹ ڈالنے سے باز نہیں آئے گا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کے پاس جدید اسلحے کے انبار لگے ہوئے ہیں، جدید ترین روسی اسرائیلی اور فرانسیسی جنگی جہازوں سے اس کے ایئرفورس کے ان ویئر بھرے ہوئے ہیں لیکن اسے پاکستان کو چند ایف سولہ طیاروں کا حصول بھی گوارا نہیں، حالانکہ یہ طیارے امریکی حکومت ضرب عضب آپریشن میں تیزی لانے کے لیے دے رہی ہے۔

ان طیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے مگر بھارت پاکستان کو ہمیشہ اپنے مقابلے میں کمزور رکھنے کا خواہاں ہے تا کہ وہ پاکستان پر اپنی برتری قائم رکھ سکے اور دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل کو یا تو ہمیشہ کھٹائی میں ڈالے رکھے یا پھر اپنی مرضی کے مطابق حل کرا سکے۔ بھارت کی یہ نادانی ہے کہ آخر اس نے پاکستان سے کیوں مخاصمت کی فضا کو قائم کر رکھا ہے۔

اگر وہ دونوں ممالک کے مابین موجود دیرینہ مسائل کو حل کر لیتا تو نہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جنگیں ہوتیں اور نہ ہی آیندہ کی جنگ کا خطرہ ہوتا۔ اس طرح وہ اسلحہ خریدنے کے بوجھ سے محفوظ رہتا اور اسلحے پر بے دریغ خرچ ہونے والے وسائل عوام کی غربت کو دور کرنے پر صرف کرتا تو آج بھارت ننگے بھوکوں کا ملک نہ کہلاتا۔ تاہم لگتا ہے بھارت اپنے بڑے رقبے کے مطابق خود کو سپرپاور بنانا چاہتا ہے تا کہ پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر نچا سکے شاید اسی مقصد کے تحت وہ اپنی فوجی طاقت میں بے دریغ اضافہ کرنے پر کمربستہ ہے۔

جب سے مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے وہ بھارت کو جلدازجلد سپرپاور بنانے پر تلی ہوئی ہے مگر انھیں کوئی سمجھائے کہ سپرپاور بننے کے لیے معاشی عروج لازمی امر ہے تاہم مودی جی معاشی ترقی کے بجائے محض اسلحے کے انباروں کے ذریعے بھارت کو سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ ویسے تو بھارت دنیا کے ہر اسلحہ ساز ملک سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے مگر اس وقت اسرائیل اس کی خاص توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیلی اسلحے کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس کے ہاں تیار کردہ اسلحہ کوالٹی میں امریکا سے بھی بہتر سمجھا جا رہا ہے۔

چنانچہ مودی سرکار اسرائیلی اسلحے کی خاص خریدار بن گئی ہے اور بعض اسلحہ جو امریکا بھارت کو فروخت کرنا چاہتا ہے بھارت امریکی پیشکش کو ٹھکرا کر اسرائیل سے وہی اسلحہ خرید رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دفاعی گٹھ جوڑ کے حوالے سے اب دنیا کے اکثر اخباروں میں مضامین شایع کیے جا رہے ہیں اور انھیں اسلحے کی تیاری اور خرید و فروخت کے اعتبار سے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی صف میں شامل کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی موجودہ بی جے پی حکومت نہ صرف تشدد پسندانہ مذہبی رجحانات کی حامل ہے بلکہ وہ بھارت میں بسنے والی دیگر اقوام کی دشمن ہے اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مذموم ایجنڈا رکھتی ہے، بالکل ان ہی رجحانات کی حامل اسرائیل کی موجودہ لیکوڈ حکومت ہے، وہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کر کے اور انھیں فلسطین سے بے دخل کر کے ان کے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔

اس طرح دونوں ہی حکومتوں کا دشمن ایک ہے اور وہ مسلمان قوم ہے چنانچہ ان دونوں میں گٹھ جوڑ کا پروان چڑھنا فطری بات ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس وقت اسلحے کی تیاری اور خرید و فروخت کے سلسلے میں اہم تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ بھارت میں تعینات اسرائیلی سفیر ڈینیئل کارمون نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھے ہوئے انسانیت کش فوجی تعاون کے سلسلے میں بڑی ڈھٹائی سے کہا ''ہم دونوں ملکوں کو اپنے فوجی تعاون کو خفیہ رکھنے کے بجائے اس کا کھل کر ذکر کر نے پر اب نہ تو کوئی ہچکچاہٹ ہے اور نہ شرمندگی ہے'' گزشتہ سال فروری میں اسرائیل کے وزیر خزانہ نے بھارت کا دورہ کر کے کھل کر کہا تھا کہ بھارت اسرائیل کے ہتھیاروں کے لیے ایک نہایت اہم منڈی ثابت ہوا ہے۔

انھوں نے بھارت کی نجی دفاعی صنعتوں کو بھی مدد دینے کی پیشکش کی تھی۔ اسرائیلی وزیر خزانہ کے اس بیان کے بعد بھارت کی کئی نجی کمپنیوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر بھارت میں جدید فوجی ساز و سامان تیار کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا۔ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تو 1992ء میں قائم ہوئے تھے مگر بھارت نے 1990ء سے ہی اسرائیل سے جدید اسلحہ خریدنا شروع کر دیا تھا۔ ایک طرف وہ فلسطینیوں کا بڑا خیرخواہ بنا ہوا تھا اور دوسری جانب اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا بھارت کی اس دو رخی پالیسی کو یاسر عرفات بھی نہیں سمجھ سکے تھے، وہ اپنی زندگی کے آخری وقت تک بھارت سے یہ امید لگائے رہے کہ وہ انھیں اسرائیل سے آزادی دلانے کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام بھارتی حکومتوں نے اپنا مفاد مقدم رکھا اور وہ کبھی بھی فلسطینیوں سے مخلص نہیں تھیں۔ اسرائیل سے بھارت نے اپنے سفارتی تعلقات قائم ہونے سے پہلے 1990ء میں جو جدید اسلحہ خریدا تھا اس کی مالیت 670 ارب روپے تھی اس میں لیزر گائیڈڈ میزائل بھی شامل تھے، جنھیں بھارت نے کارگل کی جنگ میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ یہ میزائل بھارت کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے تھے جن کے لیے بھارت نے اسرائیل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا تھا۔ بھارت نے مئی 2009ء میں اسرائیل سے 73.7 ارب روپے مالیت کا فالکن ایئربورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم خریدا تھا۔

ابھی حال ہی میں اسرائیل سے جدید میزائل سسٹم، یو اے وی ٹوہ لینے والی تکنیک، الیکٹرانک وار فیئر سسٹم اور بڑی مقدار میں گولا بارود خریدنے کا سودا کیا ہے۔ بھارتی بحریہ کے پاس اس وقت اسرائیل سے درآمدشدہ تین آپریشنل اواکس موجود ہیں جلد ہی دو مزید اواکس بھارت کو ملنے کی امید ہے۔ مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی اسرائیل سے ایک جدید ترین اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ بھارت کا اسرائیل سے ایک اہم سمجھوتہ ہے جس کی مالیت 965 کروڑ روپے ہے۔

گزشتہ یوپی اے حکومت نے اسے خریدنے کا معاہدہ کرنے کے بعد اسے منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن مودی سرکار نے اسے بھارت کی دفاعی قوت بڑھانے کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ امریکا نے اپنے جیوئل میزائل بھارت کو فروخت کرنے کی بہت کوشش کی مگر بھارت نے انھیں خریدنے کے لیے ان کی ٹیکنالوجی بھی بھارت کو دینے کی شرط رکھی تھی جسے امریکا نے قبول نہیں کیا چنانچہ بھارت نے ان کے بدلے اسرائیل سے 2680 کروڑ روپے مالیت کے 10 ہیران ٹی پی یو وی اے بغیر پائلٹ والے جہاز خریدنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس سے بھارت کو اپنی سرحدوں کی نگرانی کے علاوہ پڑوسی ممالک میں تاک جھانک کی سہولت حاصل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بھارت اسرائیل سے جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر نگرانی کو مزید موثر بنانے کے لیے جدید تکنیک حاصل کر رہا ہے۔

اس تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ بھارت اسرائیل سے دوستی کر کے نہ صرف خوب فائدے حاصل کر رہا ہے بلکہ اسی وجہ سے وہ مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارہ بن چکا ہے اور ہمیں اسرائیل سے دشمنی کی مسلسل سزا دی جا رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک لکیر کے فقیر بنے رہیں گے ہم کب زمانے کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو استوار کریں گے جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے سعودی عرب اور اسرائیل کی خطے سے متعلق پالیسیوں میں یکسانیت پیدا ہو چکی ہے، اب اسرائیل عربوں کے لیے اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا کہ عرب ممالک خود ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ مغربی ممالک عراق اور لیبیا کو محض ان کے اسرائیل مخالف رویے کی وجہ سے ہی تباہ و برباد کر چکے ہیں شام کی تباہی ابھی جاری ہے کہیں اس کے بعد ہماری باری تو نہیں آنے والی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں