کیا یہ جھوٹ نہیں کہ پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی

حکومت کی ساری کارکردگی قرضے کے بل بوتے پر دکھائی جاتی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ یہ قرضہ واپس کون کرے گا؟


محمد نعیم January 28, 2016
آج تک ملکی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی کرپٹ پکڑا گیا ہو اور اس سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر ملکی خزانے میں جمع کروائی گئی ہو۔ فوٹو: فائل

مبارک ہو اہل پاکستان، یہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اہلِ وطن کو اپنی رپورٹ کی صورت ایسی خبر سنائی کہ جس پر اب تک یقین نہیں ہورہا۔ تو جناب خبر یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس یعنی 2015ء میں کرپشن کی شرح کم ہوئی ہے۔ 2015 میں 9 درجے بہتر کارکردگی کے بعد عالمی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر کرپشن زدہ ملکوں کی فہرست میں 126 سے 117 نمبر پر آگیا ہے۔

بظاہر یہ بڑی اچھی رپورٹ ہے۔ ہر گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنی شاندار کارکردگی دکھا رہی ہے۔ الفاظوں کا ہیر پھیر، بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان، عوام کو ہر بجٹ کے بعد خوشحالی کی نوید، یہ ہر حسبِ سابق موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر ہے۔

لیکن ایک مسئلہ ہے۔ پاکستان کے کروڑوں افراد جو کچھ کما رہے ہیں اور کمائی کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کروا رہے ہیں۔ اس کا مصرف کیا ہے؟ کیوںکہ اس وقت عوامی استعمال میں آنے والی ماچس جیسی حقیر چیز پر بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے کسی کو استثناء حاصل نہیں۔

ممکن ہے ماہانہ کروڑوں کمانے والے کو ٹیکس کی مد میں کوئی چھوٹ مل جائے، مگر ماہانہ 5 ، 7 یا 15 ہزار کمانے والا، ماچس، گھی، صابن، پٹرول ہر چیزکی خریداری میں بالواسطہ ٹیکس دے رہا ہے۔

ٹیکسوں کے بوجھ نے معاشرے میں یہ صورتحال پیدا کردی ہے کہ پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا کنبہ کھاتا تھا۔ مگر آج حالات اِس نہج تک آپہنچے ہیں کہ پورا خاندان حصولِ معاش کے لیے دن رات مصروف ہے، مگر خرچے ہیں کہ پورے ہی نہیں ہورہے۔ جبکہ دوسری طرف امن، تعلیم، افلاس، صحت، انصاف یہ چیزیں ملک سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔

بہت سے لوگوں کے ذہن میں خیال آیا ہوگا کہ عوامی ٹیکسوں سے حکومت پورا ملک چلا رہی ہے، کارخانے لگ رہے ہیں، ڈیم بن رہے ہیں، سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ اتنا کچھ تو ہو رہا ہے۔ اب عوام اگر یہ سوچتے ہیں کہ مہینے میں وہ چند ہزار ٹیکس دے کراس کے علاوہ بھی کچھ سہولیات حاصل کرلیں تو ایسا ممکن نہیں۔

لیکن جناب افسوس اسی بات پر ہے کہ ڈیم، سڑکیں اور جتنے بھی ترقیاتی منصوبے ہیں وہ ملکی خزانے سے نہیں بن رہے۔ ملکی خزانہ تو صرف سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پیٹ بھرنے کے لئے ہے۔ بلکہ پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہے۔ جتنے بھی بڑے منصوبے ہیں وہ سب عالمی قرضوں سے شروع کیے گئے ہیں اور مکمل کیے جائیں گے۔

میں نے گزشتہ تحریر میں چند مخصوص شہروں اور من پسند جگہوں کو چھوڑ کر باقی پاکستان کو لاوارث چھوڑ دینے کی بات کی تھی ۔ مگر کہنے والوں نے کہا کہ یہ عصبیت کی بات ہے۔ تم سندھ والے جلتے کیوں ہو۔ تم بھی یہ سب کچھ کرلو اپنے صوبے میں۔ مگر جب تھر میں لوگ مریں گے، بلوچستان والے محروم رہیں گے، سندھ 2016 میں بھی پتھر کے دور کا کوئی دیس لگے گا، خیبرپختون خواہ والا اب بھی روزگار کے ذرائع کے لیے دوسرے صوبوں کا محتاج رہے گا تو اس میں قصور عوام کا ہے یا حکومتِ وقت کا۔ اگر صوبوں کو حصہ نہیں مل رہا تو کون دلوائے گا؟ مل رہا ہے اور عوام پر خرچ نہیں ہو رہا تو اس بات کی باز پرس کس نے کرنی ہے؟ درحقیقت یہ کام تو حکومت کا ہے مگر وہ حکومت ہی کیا جو اپنے کام مکمل ذمہ داری سے سرانجام دے دے۔

ایک منصوبہ جو 4 سال میں مکمل ہوسکتا ہے، مگر نااہلی یہ کہ اُس کے لئے 7 سال وقت رکھا جاتا ہے۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چار سال میں بننے کے سبب جو کا ایک ارب روپے میں ہوسکتا تھا اب وہ 5 ارب میں ہوگا۔ لیکن کمال تو یہ بھی ہے کہ جو کام چار سال میں کرنے کے بجائے 7 سال میں کرنے کا عہد کیا تھا وہ 7 سال میں بھی نہیں ہوتا، جس کے سبب فنڈ ختم ہوجاتے ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ جو کام صرف 4 سال کے عرصے میں ایک ارب میں ہونا تھا اب وہ 15 سالوں میں 20 ارب میں تکمیل کو پہنچتا ہے۔

یہ ساری کارکردگی قرضے کے بل بوتے پر دکھائی جاتی ہے۔ قرضہ واپس کون کرے گا؟ ملک کیسے یہ رقم ادا کرے گا؟ مزید ٹیکس لگا کر اور ٹیکسوں کی شرح بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی سے متاثر ہوں گے اور ہو رہے ہیں عوام۔

نہ تو عوام کو اس بات کی فکر ہے اور نہ کسی نے عوام کو اس قابل چھوڑا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی، بچوں کی شادی اور اپنے گھر کی فکر کی حدود سے باہر نکل کر کچھ سوچ سکیں۔ آج تک ملکی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی کرپٹ پکڑا گیا ہو اور اس سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر ملکی خزانے میں جمع کروائی گئی ہو۔ کیوںکہ ملکی دولت اور سرکاری خزانہ صرف لوٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ تو تھی بات حکومتی منصوبوں اور بیرونی قرضوں کی! اب ایک اور پہلو سے جائزہ لیں۔ وی آئی پی کلچر اور عوامی بدحالی کا۔ حملے اسکولوں پر ہو رہے ہیں، مساجد و مذہبی مقامات پر ہو رہے ہیں، مگر ان کے تحفظ کے لئے سیکورٹی اداروں کے پاس افرادی قوت نہیں، وسائل نہیں۔ اسکولز پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ رکھیں۔ بازار یا سڑک پر موجود ہزاروں افراد کی حفاظت کے لئے حکومت زنگ لگی بندوق والا ایک سپاہی ہی دے پاتی ہے۔ باقی سیکورٹی اداروں کی جتنی نفری، وسائل اور قوت ہے وہ چند سو لوگوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ تحریر کسی سازش کا حصہ ہے تو حکومت کے لیے پُرخلوص مشورہ ہے کہ وہ ذرا ایک سروے کروالے کہ ملک کے کتنے فیصد عوام حکمرانوں کو اچھا سمجھتے ہیں۔

جب تک یہ تقسیم ختم نہیں ہوگی یا عوام کے لئے سنجیدگی سے سوچا اور عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حکمرانوں سے گذارش ہے کہ امن، ترقی، خوشحالی کی بات بھی نہ کیا کریں۔ کیوںکہ اب ایسی باتیں اور نعرے نمک پاشی کا کام کرنے لگی ہیں۔
[poll id="919"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں