سائنس بھی جن سے پردہ نہ اٹھاسکی
زندگی منطق کے بغیر تو گزر سکتی ہے، جذبات، احساسات اور وجدان کے بغیر نہیں۔
زندگی منطق کے بغیر تو گزر سکتی ہے، جذبات، احساسات اور وجدان کے بغیر نہیں۔ پراسراریت میں انسان کی دلچسپی ازلی ہے اور ابد تک رہے گی، گو پراسرار مافوق الفطرت باتوں کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور نہ سائنس کے مروجہ اصولوں سے انھیں ثابت کیا جاسکتا ہے، لیکن عشق محبت اور سچے خوابوں کی بھی تو کوئی عقلی توجیہہ یا تشریح نہیں کی جاسکتی، ان کا ہونا ہی ان کی سائنس ہے۔ عقل کی محدودات میں انھیں سمیٹا نہیں جاسکتا، یہ سب بظاہر غیر عقلی باتیں بھی لوازمات حیات ہیں۔
یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے کئی حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے، آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں ہونے والے انوکھے حوادث، جنھیں ہم توہمات یا اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن کیا کائنات میں ان کی کوئی حکمت، منطق یا قانون موجود نہیں ہے۔ کیا چیز ہے جو دو چیزوں کے درمیان ایک انجان ناتا پیدا کرتی ہے۔ کیا کائنات میں کوئی ان دیکھی ڈور یا وائبریشن ہے جو ایک طرف سے چھیڑی جائے تو دوسری جانب اس کا اثر ہوتا ہے یا کوئی پر اسرار قوت ان سب باتوں کے پیچھے کار فرما ہے؟
ہم سب کے بڑے بوڑھے یہ کہتے ہیں کہ جب مکان کی چھت پر کوا آکر بولے تو مہمان آنے کی خبر دے رہا ہوتا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ کئی مرتبہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسا ہوبھی جاتا ہے لیکن کئی مرتبہ غلط بھی ہوجاتا ہے۔ تو پھر آخر یہ کیوں مشہور ہے کہ کوا مہمان کی آمد کی خبر دیتا ہے۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس قسم کی بہت سی باتیں ہمارے ہاں عام ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ اگر بلی راستہ کاٹ لے یا اگر بلی روئے تو کوئی آفت آتی ہے۔
جمعہ کو عید حکمران پر بھاری ہوتی ہے یا کچھ لوگ دنوں کے بارے میں خیال رکھتے ہیں کہ کوئی دن منحوس ہوتا ہے یا پھر کوئی دن خوش قسمت ہوتا ہے۔ یہ سب شاید ہمارے توہمات ہیں۔ لیکن اگر یہ توہمات ہیں تو یہ کیسے بنے؟ آپ میں سے بہت سے یہ کہیں گے کہ یہ باتیں تو کئی مرتبہ سچ بھی ثابت ہوتی ہیں، اگر ایک مرتبہ کوئی چیز ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اتفاق ہے لیکن اگر کئی مرتبہ ہوجائے تو یقیناً اس کے پیچھے کوئی بات ہوگی۔
لندن کے نواحی علاقے نارفونک کے Tarner نامی ایک نہایت غریب آدمی نے خواب دیکھا کہ ''تو لندن جا اور لندن پہنچ کر فلاں پل کے اوپر کھڑا ہوجا، وہاں تجھے ایک شخص ملے گا وہ تجھے ایک ایسی بات بتائے گا جو تیری خوش حالی کا باعث ہوگی۔''اس غریب آدمی نے جو مزدور پیشہ تھا اپنی بیوی کو یہ خواب سنایا، بیوی بھی مسکراکر خاموش ہوگئی اور اسے ایک وہم قرار دیا۔
اس کے بعد اس شخص نے مسلسل تین دن تک یہی خواب دیکھا اب اسے یقین ہوگیا کہ مجھے ضرور اس خواب کے ذریعے ملنے والی اطلاع پر عمل کرنا چاہیے، چنانچہ وہ پیدل ہی نارفونک سے 90 میل کا فاصلہ طے کرکے لندن پہنچا اور اسی پل پر جا کھڑا ہوا۔ مسلسل دو دن اسی طرح وہاں کھڑا رہا، لیکن نہ تو کوئی خاص واقعہ رونما ہوا اور نہ ہی کوئی شخص اس سے ملنے آیا۔ تیسرے دن بھی اسی طرح وہ پل پر جاکر کھڑا ہوگیا سارا دن گزر گیا اور کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی جب شام ہونے کو آئی اور اس نے مایوس ہوکر وہاں سے جانے کا ارادہ کیا تو ایک شخص اس کے قریب آکر بولا ''میں تم کو تین دن سے اس پل پر کھڑا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
کیا تم کسی کا انتظار کررہے ہو؟'' ''اس مزدور نے جواب دیا میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور اس خواب کی وجہ سے ہی میں یہاں آیا ہوں''یہ سن کر وہ اجنبی بہت ہنسا اور پھر بولا تم بھلے مانس معلوم ہوتے ہو۔ خواب وہم سے زیادہ نہیں ہوتے اور ان پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اب مجھے دیکھو میں بھی تین رات سے مسلسل ایک خواب دیکھ رہا ہوں جس میں مجھ سے کہا جارہا ہے کہ اگر تم لندن سے 90 میل کے فاصلے پر واقع گاؤں نارفونک میں چلے جاؤ تو وہاں تمہیں لکڑی کا کام کرنے والے ایک کاریگر کے گھر میں سیب کے درخت تلے دبا ہوا اشرفیوں سے بھرا ایک صندوق ملے گا۔
اگر میں تمہاری طرح بے وقوف ہوتا تو میں بھی ہزار مصائب اٹھاکر وہاں چلا جاتا اور خواب کی حقیقت دریافت کرتا۔ جاؤ بھائی اور جاکر اپنے گھر میں آرام کرو۔ وہ شخص تو یہ کہہ کر چل دیا لیکن اس مزدور کو یقین ہوگیا کہ اسے اس کی خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔ چنانچہ وہ پیدل واپس اپنے گھر پہنچا اور فوراً سیب کے درخت کے نیچے زمین کھودی تو اشرفیوں سے بھرا ہوا ایک صندوق برآمد ہوا، اس صندوق پر یہ عبارت بھی درج تھی کہ ''اس سے نیچے ایک اور ہے جو مجھ سے دوچند ہے۔ اور اس نے دوسرا صندوق بھی نکال لیا اور پھر امیر کبیر ہوگیا۔
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کا کاروبار اچانک بند ہوگیا ہو، آپ مالی مشکلات سے دو چار ہوگئے ہوں، گھر کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز اور بنیادی اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اچانک آپ کی ملاقات کسی پرانے دوست سے ہوجاتی ہے اور اس کی مدد سے آپ کو ایک بزنس کنٹریکٹ مل جاتا ہے۔ آپ آفس کی بڑھتی پریشانیوں سے تنگ آکر نوکری چھوڑ دیتے ہیں، پریشان حالت میں گھر آتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے لیے کسی کمپنی کا Appointment Letter آیا ہوا ہے جسے آپ نے کافی عرصے پہلے اپنی سی وی بھیجی ہوئی تھی۔
آپ اداسی محسوس کرتے ہیں اور آپ کی زندگی میں خوشی رہنے کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی آپ کو ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کی رہنمائی کرے اور پھر اچانک کسی انجان یا اپنے سے ملاقات ہوتی ہے جو جانے انجانے باتوں ہی باتوں میں وہ کچھ ایسا کہہ دیتا ہے کہ آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔ ایسے واقعات کو کیا ہم محض اتفاق کہیںگے؟ سوئٹزرلینڈ کے مشہور نفسیات دان کارل (Carl Jung) نے ان جیسے واقعات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے اور پرکھا ہے اس کا نام سنکرونیسٹی (Synchronicity) یا ''ہم زمانی'' رکھا، جس کا مطلب ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعات جن کی وجہ سے سمجھ نہ آئے لیکن خود وہ واقعات مطلب رکھتے ہوں مگر وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔
انسان کی زندگی میں دو چار واقعات ایسے ضرور پیش آتے ہیں جن کی وہ کوئی عملی، عقلی، سائنسی توجیہ پیش نہیں کرسکتا۔ انہونی باتیں ہوتی رہتی ہیں، آدمی اتفاق کہہ کر گزرتا رہتا ہے حالانکہ کائنات میں کسی اتفاق کسی حادثہ کو کوئی دخل نہیں ہے دراصل یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر ہم زبانی کلامی تو یہ ضرور کہتے ہیں کہ اﷲ خالق ہے اور وہی ہمیں رزق فراہم کرتا ہے لیکن زندگی کے اکثر مراحل پر ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے کہ سب کچھ اتفاق سے ہورہا ہے، اتفاق سے ملازمت مل گئی، اتفاق سے ملازمت میں ترقی ہوگئی بلکہ زیادہ تر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر میں محنت نہ کرتا تو شاید ترقی ممکن ہی نہ تھی۔
زندگی اور زندگی میں کام آئے وسائل کے حوالے سے ہماری اصل سوچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتفاق سے ہی ہورہا ہے، محض زبان سے ہم یہ کہتے ہیں کہ اﷲ رزق دیتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اﷲ اگر نہ چاہے تو کوئی بندہ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ آپ نے دیکھا ہوگا یا سنا ہوگا کہ ایک آدمی نہایت خطرناک ایکسیڈنٹ میں اس طرح زندہ سلامت بچ جاتا ہے کہ اس کے جسم پر ایک خراش تک نہیں آتی جب کہ ایک شخص چلتے چلتے ٹھوکر لگنے سے گرتا ہے اور سر کسی چیز سے اس طرح ٹکراتا ہے کہ آناً فاناً موت واقع ہوجاتی ہے۔ کیا یہ سب اتفاق ہے؟یہ واقعات و اتفاقات، قدرت کے وہ احکامات ہوتے ہیں جو دنیاوی قوانین کی گرفت میں نہیں آتے، مفکرین نے بہت غور و فکر کے بعد یہ بات کہی کہ ان اتفاقات کو محض اتفاق سمجھنا مناسب نہیں۔