خوف کے سائے
اسی طرح تعلیمی اداروں کی تعداد بھی زیادہ ہو رہی ہے گوکہ اتنی زیادہ نہیں ہے
تعلیمی اداروں پر ایک مرتبہ پھر حملہ اور کئی جانوں کا نقصان۔ پورے ملک میں تعلیمی اداروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے اور بہت سوں کو سیکیورٹی کی وجہ سے بند بھی کردیا ہے کچھ روز کے لیے۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد سے کچھ خوف کے سائے ہیں تعلیمی اداروں پر اور آج تک لگاتار یہی صورتحال ہے، جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے تمام ادارے بھی اپنے آپ کو پھیلا رہے ہیں۔ پہلے کبھی اتنے ٹیوشن سینٹر نہیں تھے جتنے آج پھیل رہے ہیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کی تعداد بھی زیادہ ہو رہی ہے گوکہ اتنی زیادہ نہیں ہے کہ تمام آبادی کو کور کرسکے، پچھلے دنوں سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم 2 فیصد اور کم ہوگئی ہے۔ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان زیادہ ہو رہا ہے یا کم اس کا اندازہ ہم سب کو خوب ہے۔ مگر اپنی نسل کو بہترین بنانے کے لیے تعلیم اور تعلیمی اداروں پر بے پناہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ اور سوات اور گردونواح میں تعلیمی اداروں پر جو خوف کے سائے تھے وہ آج بھی نظر آرہے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ ہماری بہترین افواج اپنے دن و رات ایک کرکے سخت محنت و مشقت کے ساتھ عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے اور دشمنوں سے مقابلہ کامیابی و کامرانی سے جاری ہے۔ افواج اور فورسز کے جوان شہادت کے درجوں پر پہنچ رہے ہیں مگر پھر بھی دشمن اپنی چالوں سے باز نہیں آرہا پاکستان ایک انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے چائنا سے سعودی عرب تک، امریکا سے ایران تک، روس سے افغانستان تک تمام دنیا کے لیے اور خاص طور پر مسلم ممالک کے لیے پاکستان کی ایک مضبوط حیثیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔
اندرونی اور بیرونی چاروں طرف پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور حالت جنگ کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہم سب کو بہترین یکجہتی کی شدید ضرورت ہے اور اس یکجہتی کو اس دن کے لیے نہ اٹھا کر رکھیں جب دشمن حملہ کرے بلکہ ہمیں اب اپنے آپس کے اختلافات کو جلسوں جلوسوں کی بجائے ٹیبل ٹاک کے ذریعے سے حل کرنا چاہیے۔
ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے گند اپنے تک بھی پہنچتا ہے۔ دوسری بہت اہم چیز جو پاکستان بننے کے بعد سے missing ہے وہ ہے خلوص نیت، ایمانداری۔ پاکستان سے بالکل ویسی ہی جیسے اپنے گھر سے جیسے اپنے بچوں سے جو آیا اس نے اپنی 7 نسلوں تک کے لیے ذخیرہ کیا اور پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پوری دنیا میں پاکستان کے حکمراں اسی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ چھوٹے عہدوں سے سیاست شروع کرنے والے آج فرعون کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ تھر اور مٹھی میں بھوک افلاس سے، غربت سے اموات سیکڑوں تک پہنچ چکی ہیں۔
اور پچھلے کئی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر اللہ کی پناہ کہ بڑے بڑے سیاستدان صرف اپنی سیاست چمکانے کی بات کرتے ہیں۔ سب کو درد محسوس ہوتا ہے۔ ہیلی کاپٹر سے تھر جاکر فوٹو سیشن ہوتے ہیں اور پھر بہت دردمندانہ بیانات سامنے آتے ہیں مگر تھر اور مٹھی کی حالت نہیں بدلتی۔ خدارا ہماری بھی آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ اللہ کے واسطے تھر اور مٹھی میں ہنگامی بنیادوں پر انسانوں کی فلاح و بہبود کے کام شروع کیے جائیں۔
اور قیمتی جانوں کو مرنے سے بچایا جائے۔ حالانکہ اب ہمارے ملک میں انسانی جانوں کا ضیاع شاید جانوروں سے بھی برے حال میں ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر دیہی علاقوں تک، جو ترقی رسمی نظر آتی ہے اسے ہنگامی بنیادوں پر آگے لانا ہوگا، کرپشن کی شرح بڑھا کر قوم میں جو خوف پھیلتا جا رہا ہے اس سے یقینا ہمارا مورال پست ہوگا اخلاقیات اور تعلیم و تربیت کا جو فقدان بحران کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اس سے آنکھیں چرانا پوری قوم کے لیے خودکشی ہوگی۔
تھر اور مٹھی پر ڈاکومنٹری فلمیں بنانا، ان پر ٹاک شو کرنا، اچھی بات ہے مگر یہاں کے مکینوں کو فوری طور پر بڑے بڑے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ کھانے پینے کا سامان، اسپتال، پانی، تمام بنیادی ضروریات سے لے کر آگے تک، اب حکمران بس کردیں اور آنکھیں چرانے کی بجائے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔ ہم سب کو خالی ہاتھ ہی قبر میں اتار جائے گا اور ہم سب اپنے اپنے اعمال کے ذمے دار ہوں گے۔
میری تمام سیاستدانوں سے، تاجر برادری سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اللہ کے خوف سے ڈریں اور اپنے بچوں کا درد محسوس کرتے ہوئے تھر کے لیے مل کر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ تھر کا نقشہ ہی بدل جائے۔ انسانوں کو انسانوں والے حقوق دیے جائیں۔بے حسی کی چادر میں لپٹے ہوئے برانڈڈ سوٹ، جوتے اور خوبصورت جملے کسی کو زندگی نہیں دے سکتے یہ صرف اور صرف ہمارا اپنا satisfaction ہوسکتا ہے مگر سامنے والے کو اس کا ذرا بھر فائدہ نہیں ہوگا، خالی پیٹ تو کھانے سے بھرتے ہیں میٹھی میٹھی باتوں سے نہیں، یہ حال اگر دیہی علاقوں کا ہوگا تو پھر شہر بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے بے حسی کوئی اچھی چیز نہیں یہ ہمیں انسانوں کی حیثیت سے باہر نکال کر جانوروں کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں، اپنی ہی صفوں میں کھڑے منفی سوچ رکھنے والے دشمنوں کو پہچانے، ملک دشمن عناصر کسی بھی شکل میں ہوں ان کے ساتھ کسی بھی حال میں نہ کھڑا ہوا جائے، چھوٹے پیمانے سے بڑے بڑے عہدوں تک جو لوگ صرف اپنی فلاح و بہبود کر رہے ہیں اور قوم کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں وہ کیسے پاکستان کا اور قوم کا دوست ہوگا، میر جعفر بننے میں اور قائداعظم بننے میں، سوچ و اعمال کا اتنا ہی باریک فرق ہوگا، جیسے شاید اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور نمکین پانی کے سمندر میں رکھا ہے کہ اس طرف کڑوا اور اس طرف میٹھا۔عمران خان ایک بہترین اور کامیاب سوشل ورکر کہ انھوں نے اپنی سحر انگیز شخصیت کا استعمال کیا ایک بہترین مقصد کے لیے اور شوکت خانم کینسر اسپتال کھڑا کردیا۔ زبردست مقصد اور زبردست قوم کے لیے بھلائی اور مسلسل کامیابی سے اس مقصد کو چلا رہے ہیں۔
مشکل اور انتہائی جدوجہد کے ساتھ تمام لوگوں سے لڑتے جھگڑتے عمران خان نے لاہور کے اور پشاور میں بھی اسپتال کھڑا کردیا ہے اور اب کراچی کی طرف آرہے ہیں۔ عمران خان کو دیکھ کر بہت سی گلیمرس شخصیات اس طرف آتی ہے اور اپنے اپنے طور پر کام بھی کر رہے ہیں مگر عمران خان نہ صرف ایک رول ماڈل بن گئے ہیں بلکہ اب بچوں سے لے کر بڑوں تک کوئی شکایت نہیں کہ عمران خان ایک بہترین سوشل ورکر مانے جاتے ہیں۔ سیاست میں ان کی قسمت کیا کرتی ہے، یہ الگ چیز ہے۔
کسی بھی جماعت سے حکمراں تعلق رکھے اگر عہدوں پر موجود ہیں تو صرف پاکستان کا سوچیں۔ صدر فاروق لغاری کو صدر بے نظیر بھٹو نے بنایا، پیپلز پارٹی کے جیالے تھے اور بے نظیر کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ایک سخت اقدام بھی اٹھا گئے، اور جو وجوہات انھوں نے بتائیں وہ بھی سب جانتے ہیں۔بے پناہ اہمیت کا مالک یہ ملک، بے پناہ معدنیات اور ذخیروں سے بھرا ہوا ہے، ہمت مرداں سے منفی سیاست کا رخ موڑا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں امر کرلیجیے اپنے آپ کو ایک بہترین انسان دوست کی شکل میں، چور، لٹیرے، ڈاکو وغیرہ وغیرہ کے خطاب تو سب کو مل ہی چکے ہیں کیا ہی اچھا ہے کہ ہم ایدھی کی روایات کو آگے بڑھائیں، عمران خان کے مقصد میں ان کے ہاتھ مضبوط کریں وہ اسپتال بنائیں یا تعلیمی ادارے، بھلائی تو ہماری اور ہمارے بچوں ہی کی ہے۔