جھیل پر تیرتی بستیاں

گھاس پھوس سے بنے جزائر کے مکین دور جدید میں قدم رکھ رہے ہیں


Mirza Zafar Baig January 31, 2016
گھاس پھوس سے بنے جزائر کے مکین دور جدید میں قدم رکھ رہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

Uru قوم بہت قدیم دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ ''انکا تہذیب'' سے بھی قدیم ہیں اور پیرو اور بولیویا میں واقع جھیل Titicaca کے پانی پر تیرتے ہوئے 42 جزیروں میں آباد ہیں۔ اس قوم کے تین بڑے گروپ ہیں جن کے نام یہ ہیں:Uru-Chipayas، Uru-Muratos اور Uru-Iruitos۔ ان میں سے بعدالذکر گروپ آج بھی جھیل Titicacaکے بولیویا والے حصے اور دریائے Desaguadero کے پانی پر رہتا ہے۔

٭Uru قوم کی تاریخ:Uru قوم اصل میں ہزاروں سال قدیم ایک تاریخی قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور مقامی کہانیوں اور روایات کے مطابق یہ لوگ اصل میں "pukinas" ہیں جو Uro یا Pukina نامی زبانیں بولتے ہیں۔ قدیم روایات کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہی لوگ یعنی Uru قوم اس جھیل اور اس کے پانی کے مالک ہیں۔Uru قوم کے لوگوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا خون سیاہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں سردی بالکل نہیں لگتی۔

اس کے علاوہ یہ لوگ خود کو "Lupihaques"بھی کہہ کر پکارتے ہیں جس کا مقامی زبان میں مطلب ہے:''سورج کے بیٹے۔'' بہرحال آج کلUru قوم کے لوگ نہ تو اپنی قدیم اور اصل زبان Uru بولتے ہیں اور نہ ہی اپنے پرانے عقائد پر قائم ہیں۔ یہ لوگ کسی حد تک موڈرن ہوچکے ہیں، مگر اب بھی Uru قوم کے متعدد لوگوں نے اپنی پرانی روایات اور رواجوں کو سینے سے لگا رکھا ہے اور وہ انہیں کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔

٭پانی پر تیرتے اس جزیرے کے قیام کا مقصد:پانی پر تیرتی اس بستی کے قیام کے بنیادی مقصد کے حوالے سے ماضی میں بھی باتیں کی جاتی رہی ہیں اور دور حاضر میں بھی ماہرین نے اس ضمن میں کافی ریسرچ کی ہے جس کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی:

پانی پر تیرتی یہ آبادی اصل میں زمانۂ قدیم میں Uru قوم کے لوگوں کے لیے ایک دفاعی قلعے کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔

اگر اس انوکھی بستی کے محل وقوع پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ یہ ایک پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ کسی زمانے میں یہ لوگ اوپر پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہیں انہوں نے اپنے مستقل مسکن بنا رکھے تھے۔ مگر بعد میں کسی اور قوم یا قبیلے نے ان لوگوں پر حملہ کردیا اور ان کے پہاڑوں پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔

Uru قوم کے لوگوں کو جب کوئی اور جائے پناہ دکھائی نہ دی تو انہوں نے وہاں سے نقل مکانی تو کی، مگر وہ کسی خشکی کے علاقے پر نہیں گئے، بل کہ نیچے موجود جھیل کے پانی پر جا اترے۔ یہاں انہوں نے اپنے رہنے کے لیے پہلے تو اپنی قدیم کشتیوں کو جائے پناہ بنایا، مگر بعد میں اسی جھیل میں اپنی مستقل بستی بنالی۔ یہ ایسی بستی تھی جو زمین یا خشکی کے ٹکڑے کے بجائے پانی پر بنائی گئی تھی۔

٭تجارتی تعلقات:Uru قوم کے لوگوں نے بعد میں اپنے ہی خطے کی ایک اور قوم یا برادری کے ساتھ تجارتی روابط بھی استوار کرلیے تھے جس کا نام تھاAymaraقبیلہ مگر اس قبیلے کے ساتھ ان کے تعلقات اس حد تک مضبوط ہوگئے کہ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنی زبان کو فراموش کردیا اور Aymaraقبیلے کی زبان کو مکمل طور پر اختیار کرلیا۔

ان دونوں قبیلوں کے درمیان جب تعلقات بڑھے تو یہ آپس میں شادیاں بھی کرنے لگے اور ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کو بھی اختیار کرتے چلے گئے۔ اس سے سب سے بڑا نقصانUru قوم کے لوگوں کو یہ ہوا کہ ان کی اپنی قدیم اور اصل زبان کہیں کھو گئی اور دوسرے قبیلے کی زبان اپنی جگہ بناتی چلی گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ لگ بھگ پانچ سو سال پہلے انہوں نے اپنی اصل زبان کو کھویا تھا ۔

٭یہ جزیرے کس چیز سے بنتے ہیں؟: کہتے ہیں کہ Uru قوم کے لوگ اپنے ننھے منے رہائشی جزیرے جنگلی درختوں کے نرسل اور سرکنڈوں کی مضبوط ڈوریوں سے تیار کرتے ہیں۔ یہ سرکنڈے اور مضبوط جنگلی ڈوریاں اسی علاقے کے جنگلات میں اگتی ہیں۔ ان درختوں اور پودوں میں پیدا ہونے والی مضبوط جنگلی بیلوں اور ڈوریوں کو ملاکر اور آپس میں بن کر ایک قدرتی تہہ تیار کی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں Khili کہا جاتا ہے۔ یہ تہہ لگ بھگ ایک سے دو میٹر موٹی ہوتی ہے۔

یہ سمجھ لیں کہ یہی تہیں اور ڈوریاں ان مصنوعی جزیروں کو سہارا دیتی اور قائم رکھتی ہیں۔ بعد میں ان قدرتی پلیٹ فارموں میں مضبوط رسیاں باندھی جاتی ہیں اور یہ رسیاں قبیلے کے ماہر غوطہ خور اور تیراک نیچے لے جاکر جھیل کی تہہ میں باندھ دیتے ہیں۔ ان جزیروں کی تہوں کو باندھنے والی یہ رسیاں چوں کہ جلد گل سڑ جاتی ہیں، اس لیے انہیں جلدی جلدی بدل دیا جاتا ہے اور نئی مضبوط رسیاں تیار کرکے ان کی جگہ لگادی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور لگ بھگ ہر تیسرے ماہ ان سرکنڈوں اور نرسل کی رسیوں کو بدل دیا جاتا ہے۔

یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، بلکہ بلاشبہہ ایک بہت بڑا ایڈونچر ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور اسی لیے ان رسیوں کی تبدیلی کے عمل کو دیکھنے کے لیے سیاح بڑے شوق سے یہاں آتے ہیں اور Uru قوم کے لوگوں کے اس بے مثال کام کو دیکھ کر خوب سراہتے ہیں۔ موسم برسات میں یہاں آنا اور چہل قدمی کرنا بہت اہم ہوتا ہے ، کیوں کہ اس موسم میں سرکنڈوں اور نرسل سے تیار کردہ رسیاں جلد ہی گل سڑ جاتی ہیں۔ جب لوگ اس مصنوعی جزیرے پر چلتے ہیں تو ہر قدم کے ساتھ ہی یہ جزیرہ تھوڑا بہت پانی میں ڈوب جاتا ہے، لیکن اس کا دارومدار اس کی گنجانیت پر ہوتا ہے۔ جب سرکنڈوں اور نرسل کی رسیاں خشک ہوتی ہیں تو لوگوں کے چلنے کی وجہ سے وہ زیادہ جلدی ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔

جب یہ رسیاں ٹوٹتی ہیں تو ان کے اندر نمی یا رطوبت داخل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جلد ختم ہونے لگتی ہیں۔ چناں چہ Uru قوم کے لوگ سرکنڈے اور نرسل کی نئی ڈوریاں یا رسیاں مسلسل تیار کرتے رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر فوری طور پر پرانی ڈوریاں ہٹاکر نئی ڈوریاں لگادی جاتی ہیں۔چوں کہ Uru قوم کے لوگوں کو دن رات سیاحوں پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے، اس لیے ان کے پاس اپنے جزیروں کی چوکسی یا پہرے داری کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اب ہر چیز پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بہت زیادہ وقت لگانا پڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ اپنے ''مادر وطن'' کی حفاظت بھی کرپاتے ہیں اور وہاں آنے والے سیاحوں کی میزبانی کا فریضہ بھی انجام دے پاتے ہیں۔

٭سیاحت: ان کی آمدنی کا ذریعہ: Uru قوم کے لوگوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ دنیا بھر کے وہ سیاح ہیں جو بڑے ذوق و شوق سے ان کے انوکھے اور بے مثال جزیروں کو دیکھنے آتے ہیں اور جھیل کے پانی میں تیرتی ہوئی ان کی بستی کو بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں۔ چناں چہ سیاحوں کی آمد سے یہاں کے لوگوں کو آمدنی کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی خصوصی ہنرمندی سیاحوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ ان ہنرمندوں اور دست کاروں کی تیار کردہ چیزیں یہاں کی سوغات سمجھ کر بڑے اہتمام سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ اپنی قدیم روایات سے جڑے ہوئے ہیں، دوسری جانب Uru قوم کے لوگ جدیدیت کی طرف بھی آرہے ہیں۔

٭سطح سمندر سے بلندی: Uru قوم کے یہ مسکن، ان کی تیار کردہ یہ تیرتی بستیاں سطح سمندر سے لگ بھگ 3810میٹر بلند ہیں۔ یہ پونو پورٹ سے محض پانچ کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہیں۔

٭آبادی کا تخمینہ: 1997کی مردم شماری کے مطابق Uru قوم کے لوگوں کی آبادی 2000کے قریب تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب چند سو ہی ایسے مصنوعی جزائر پر رہتے ہیں اور ان کی اکثریت اب خشکی کی طرف نقل مکانی کرگئی ہے اور اس طرح فی الحال اپنا وجود کھوچکے ہیں۔

٭موت اور آخری رسوم: Uru قوم کے لوگ موت کے بعد اپنے مردوں کو اپنی مقدس جھیل کے پانی کے حوالے نہیں کرتے، بل کہ اس کے لیے انہوں نے خشکی پر اپنے مخصوص قبرستان بنارکھے ہیں جہاں وہ اپنے مردوں کو اپنی قدیم رسوم اور رواجوں کے مطابق دفن کردیتے ہیں۔

٭کھانا پکانا اور آگے سلگانا: Uru قوم کے لوگوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہاں آگ جلانا ہے، کیوں کہ تین وقت کھانے کے لیے انہیں کھانا بھی پکانا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ تمام مصنوعی جزائر سرکنڈوں اور نرسل سے تیار کیے گئے ہیں اور گھاس پھوس جلد آگ پکڑتی ہے۔ اس کا حل Uru قوم کے لوگوں نے یہ نکالا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مخصوص جزائر کے قریب ننھے منے گھر سے بنالیے ہیں جہاں انہوں نے پتھروں کے ڈھیر بھی جمع کرلیے ہیں۔ یہیں پتھریلے چولہوں پر کھانا پکایا جاتا ہے۔

٭خوراک اور علاج معالجہ:ایک بہت اہم اور خاص بات یہ ہے کہ Uru قوم کے لوگوں کی زندگیوں میں totoraکے نرسل اور سرکنڈوں کی بنیادی حیثیت ہے۔ اسی سے انہوں نے ان جزائر کو تعمیر کیا ہے اور ان کی خوراک اور دوائیں بھی اسی سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب بھی ایک reed کو اس کی جڑ سے کھینچا جاتا ہے تو اس کے نچلے حصے کو آئیوڈین کی کمی پوری کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔ اس سے گلے کی تمام بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے اور گوئٹر کی بیماری بھی نہیں ہوپاتی۔ Uru قوم کے لوگوں نے اس بیماری کا علاج پہلے ہی دریافت کرلیا ہے۔

اس سرکنڈے کے سفید حصے کو مقامی زبان میں ''چلو'' کہا جاتا ہے۔ جس طرح پیرو کے جزائر میں رہنے والے جنگلی لوگ سخت آب و ہوا اور بھوک کے سخت اثرات سے بچنے کے لیے کوکا کی پتیاں کھاتے ہیں، اسی طرح Uruقوم کے لوگ مذکورہ مشکلات میں ٹوٹورا کے نرسل اور سرکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے جسم میں کسی بھی طرح کا درد ہوتا ہے تو یہ لوگ متاثرہ مقام پر انہی سرکنڈوں اور نرسلوں کو پٹیوں کی طرح لپیٹ لیتے ہیں جو درد کو کھینچ لیتی ہیں۔

سخت گرمی کے موسم میں یہ لوگ مذکورہ نرسل اور سرکنڈوں کے سفید حصے کو توڑ اور کچل کر اپنے ہاتھوں اور پیشانی پر مسل لیتے ہیں۔ سرکنڈوں کا سفید حصہ Uru قوم کے لوگوں کی خوراک کا بنیادی جزو ہے۔ یہ لوگ اس سے مزے دار چائے بھی تیار کرتے ہیں۔مقامی لوگ مچھلی پکڑ کر بڑے شوق اور اہتمام سے کھاتے ہیں۔ 1940میں اس جھیل میں کینیڈا سے ٹرائوٹ مچھلی لاکر ڈالی گئی تھی جس کے بعد ارجنٹائن کی کنگ فش بھی متعارف کرائی گئی۔ اس کے علاوہ Uru قوم کے لوگ پرندوں کا شکار بھی کرتے ہیں جن میں سمندری بگلے، سمندری بطخیں اور فلمینگوز شامل ہیں۔

٭خصوصی اسٹال:Uru قوم کے لوگ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اسٹال بھی لگاتے ہیں جن میں ہر سال ان جزائر پر آنے والا بے شمار سیاح دل چسپی لیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ آنے والے سیاحوں سے مقامی نرسل اور سرکنڈوں کے پودوں کے عوض اپنی ضرورت کی چیزیں لیتے ہیں۔ لیکن یہ سارا لین دین روپے پیسے کے عوض نہیں ہوتا بلکہ یہاں سب کچھ بارٹر سسٹم کے تحت ہوتا ہے جس چیزوں کے بدلے چیزیں بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔

٭مویشی اور جانور پالنا: Uru قوم کے لوگ مقامی جانوروں اور مویشیوں کو بھی بڑے شوق اور توجہ سے پالتے ہیں۔ یہ تمام جانور اور مویشی بعد میں ان کے بہت کام آتے ہیں۔ یہ متعدد کاموں میں اپنے مالکوں کی معاونت بھی کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے خوراک بھی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر Uru قوم کے لوگ آبی پرندے بھی پالتے ہیں جن کے ذریعے یہ مچھلی کا شکار کرتے ہیں اور انہیں پیروں سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مقامی پرندہ ibis بھی پالتے ہیں جو انڈے دیتا ہے اور ان کی خوراک کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ یہ پرندہ گوشت حاصل کرنے کا بھی خاص ذریعہ ہے۔

٭جدیدیت کی طرف: اب Uru قوم کے لوگ اتنے باشعور ہوگئے ہیں کہ وہ جدیدیت کی طرف آنے لگے ہیں اور ماڈرن ٹیکنالوجی پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی متعدد کشتیوں میں موٹرز بھی لگادی گئی ہیں۔بعض گھروں میں تو سولر پینل بھی لگادیے گئے ہیں جن سے ٹی وی وغیرہ چلائے جاتے ہیں۔ Uru قوم نے اپنی تفریح طبع کے لیے ایک ایف ایم ریڈیو بھی شروع کردیا ہے جہاں سے ہر روز کئی گھنٹوں موسیقی کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔متعدد جزائر میں چھوٹے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے جن میں روایتی اسکول بھی شامل ہیں اور مشنری کے اسکول بھی۔ بڑی عمر کے بچے اور نوجوان اور یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات بھی بڑے جوش و خروش سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔