تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا خطرناک رجحان
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زندہ معاشروں اور انسانی بستیوں میں بحران اور مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں
SEOUL:
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زندہ معاشروں اور انسانی بستیوں میں بحران اور مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا حل تلاش کرنے کے لیے ادارے اور زندگی کی ہر سطح پر قیادتیں موجود ہوتی ہیں۔ جب کہ ہمارے ملک پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ادارے بھی کمزور ہیں اور سیاسی قیادتوں کا حال بھی بڑا ہی ناگفتہ بہ ہے۔
ایک عشرے سے زائد عرصے کے دوران ریموٹ کنٹرول اور خودکش دھماکوں سمیت دہشتگردی کی وارداتوں کا سامنا کرنیوالی پاکستانی قوم اپنی سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں، سیاسی شخصیات، علمائے کرام، ماہرین تعلیم، بیوروکریٹس اور عام لوگوں سمیت 60 ہزار کے لگ بھگ لاشیں اٹھا چکی ہے۔ 1980 کی دہائی میں افغان جہاد اور مشرف دور میں امریکا کا اتحادی بننا ہماری بہت بڑی قومی غلطیاں تھیں اور پاکستان ایک ایسا کردار ادا کر رہا ہے جو اس نے اپنی 68 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں کیا، تاہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی پالیسیوں کی اصلاح کرنا اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہی وہ طرز عمل ہے جو قوموں کے مستقبل کے لیے ترقی کے دروازے کھولتا ہے۔
اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ 2016 دہشت گردی کے خاتمے کا سال ثابت ہوگا مگر دہشتگردی کے خاتمے کے فیصلہ کن سال کا آغاز افسوسناک طور پر تباہ کن ہوا، سال نو کے پہلے ہی مہینے میں دہشتگردی کے چار حملے ہوچکے ہیں جس میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے، باچا خان یونیورسٹی کے سانحے سے صرف ایک روز قبل فورس کی چیک پوسٹ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے۔
ملکی منظرنامے کی ہولناکی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا خطرناک رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان میں تعلیمی ادارے سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے ہیں، پاکستان کے اداروں اور تعلیمی مقاصد کے لیے قائم عمارتوں پر اب تک 851 حملے ہوچکے ہیں جن میں 470 سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں۔
یوں تو دہشت گردی یا تخریب کاری سے ہمارا پورا ملک ہی دوچار ہے لیکن سب سے زیادہ لپیٹ میں خیبرپختونخوا (پشاور) کا صوبہ رہا ہے اور اس شہر کو پاکستان کا اس لحاظ سے سب سے بدقسمت شہر کہا جا سکتا ہے اور یہ کتنی بڑی ستم ظریفی کہی جاسکتی ہے اس شہر کی خیبرپختونخوا کی سب سے اہم سیکیورٹی فورس ''ایف سی'' کے حالات اس شہر کی طرح کبھی اچھے نظر نہیں آئے۔ ایف سی کمانڈر لیاقت علی خان نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ایف سی کے پاس نہ مکمل طور پر اسلحہ ہے اور نہ ہی پہننے کے لیے جوتے ہیں، ایف سی کے بیشتر اہلکاروں کے پاس سونے کی چارپائیاں تک نہیں ہیں اور وہ زمین پر سوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا جو دہشتگردی کی فرنٹ لائن بنا ہوا ہے وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کے ایسے حالات تشویشناک ہیں۔ چارسدہ میں دہشتگردی کے واقعے نے سیکیورٹی اقدامات پر پھر سے سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے اور اس حوالے سے ''نیشنل ایکشن پلان'' پر عمل درآمد کا چیلنج بڑھ رہا ہے۔یہ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ خیبرپختونخوا تقریباً 14 سال تک وزیر داخلہ سے محروم رہا ہے اور یہ اہم قلم دان وزیراعلیٰ کے پاس رہا ہے اور پچھلے تیرہ چودہ برسوں کے حالات جس میں خصوصی پالیسی بنانے کی ضرورت تھی اس کے باوجود وزیر داخلہ نہیں نامزد کیا گیا، اب کافی عرصے بعد خیبرپختونخوا میں وزیر داخلہ تعینات ہوئے ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ دہشتگرد حملوں میں حالیہ تیزی طالبان کے مذاکرات مخالف گروپ کی طرف سے طاقت کا اظہار ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ہمارا اچھے طالبان اور برے طالبان کا فلسفہ بالکل غلط تھا۔ پاکستان میں ابھی تک دہشتگردوں کی کمر توڑی نہیں جاسکی ہے۔ حکیم اللہ محسود کے مرنے کے بعد دہشتگرد حملوں میں گو کمی ہوئی لیکن دیکھنے کو یہ بھی مل رہا ہے کہ فوج تو اپنا کام کر رہی ہے لیکن ''سول حکومت'' کہیں نظر نہیں آتی۔
بہت سے ایسے گروپ جنھیں سپورٹ کیا گیا وہ اب ہمارے خلاف ہوگئے ہیں اور افغانستان میں جاکر بیٹھ گئے ہیں، پاکستان طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے افغان سرحد عبور نہیں کرسکتا ہے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان اگر افغان طالبان کو یہاں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہے تو افغانستان کیوں اپنے علاقے سے پاکستانی طالبان کو نکالے گا۔ جب سے آپریشن ضرب عضب لانچ کیا گیا تو اس میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر بارڈر مینجمنٹ پر بھی زور دیا گیا تھا، بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں اس پر زیادہ پروگریس نہیں ہوسکی۔
سانحہ چارسدہ کو سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سنگین مجرمانہ غفلت سے تعبیر کیا جارہا ہے، کیونکہ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے پشاور سمیت کئی شہروں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کی پیشگی اطلاع کردی تھی۔ لیکن اس کے باوجود باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردی کی کامیاب کارروائی کو صرف افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہی کہا جائے گا اور اس سے زیادہ کچھ اور نہیں، آخر کیوں؟ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں کارروائیاں جاری ہیں لیکن اس کے باوجود دہشتگرد مکمل منصوبہ بندی کرکے اپنے اہداف کو آسانی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ سب کا سب ہماری دفاع سے متعلق تمام شعبوں کے وجود اور اس کے مقاصد پر سوالیہ نشان ہے۔کوئی کچھ بھی کہے، کسی قسم کی تاویل ملائے لیکن یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا رجحان حد درجہ خطرناک ہے اور ایسے حادثے بار بار رونما ہونا حکومت کے وژن کی کمی کا غماز ہی کہا جاسکتا ہے۔
ہم یہ پوچھنے یا کہنے میں کیا حق بجانب نہیں ہیں کہ ہمارے اور آپ کے بچے کیا اپنی اپنی درس گاہوں میں غیر محفوظ ہوکر نہیں رہ گئے؟ اور کیا ہمارے وطن کے لوگ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں یا ان کی قربانیاں دینے کے لیے انھیں روزانہ گھروں سے روانہ کرتے ہیں؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ دہشتگرد تعلیمی اداروں پر حملے کرکے ہماری نئی نسل کو تعلیم سے دور کرنے کے درپے ہیں۔ امریکا، بھارت اور فرانس سمیت کئی ممالک میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے لیکن ان کے خفیہ اداروں نے واقعات کی تحقیقات کرکے ان کے مرکزی ملزمان کا سراغ لگا لیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ذمے داروں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے دہشتگردی اور بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں چند اندرونی اور زیادہ بیرونی ہیں۔ بالخصوص افغان خانہ جنگی اور دہشتگردی کے خلاف جن میں ہزاروں شہری جاں بحق اور لاکھوں اپاہج ہوچکے ہیں۔ پاکستان معاشی طور پر تباہ ہوچکا ہے جب کہ پاکستان میں صوبائیت، لسانیت اور فرقہ پرستی کو فروغ ملا ہے۔
قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونا ان سارے عوامل کی وجہ بنا، آج بھی کالعدم تنظیمیں فعال ہیں اور ملک میں اسلحے کو کنٹرول کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔افغان سرحد پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور یہی دہشتگردی کے حوالے سے مجرمانہ غفلت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔بہرکیف اب ہمارے ارباب اختیار کو ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں کیونکہ اب ''اگر مگر'' کی ذہنیت سے نکلنے کا وقت آ پہنچا ہے، اگر اے پی ایس کا سانحہ ''بیدار'' ہونے کی کال تھی تو سانحہ چارسدہ تنبیہہ اور آخری یاد دہانی ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ہم نہیں جان رہے کہ قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب آپریشن کے مخالفین ہماری آستینوں میں رینگ رہے ہیں جنھیں ہم بخوشی پال بھی رہے ہیں ۔ پھر بھی ہم امریکا کے صدر اوباما کے ریمارکس پر چیں بہ جبیں ہیں کہ ''پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔'' نادان اوباما نہیں جانتا کہ ہم دنیا کو بدل کر رکھ دیں گے، البتہ اپنا الٹا پاجامہ سیدھا کرکے ہرگز نہیں پہنیں گے۔