آئی ایم ایف کی کارستانی
1947-48 میں دفتروں میں پن نہیں ہوتی تھیںِ، اس کی جگہ کیکڑ کے کانٹے استعمال کیے جاتے تھے۔
1947-48 میں دفتروں میں پن نہیں ہوتی تھیںِ، اس کی جگہ کیکڑ کے کانٹے استعمال کیے جاتے تھے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہونے کے باوجود یہاں صرف چار مل فیکٹریاں تھیں، ایک گنیش کھوپرا مل لیاری، دوسری ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری، تیسری ہڈی مل لانڈھی اور چوتھی لانڈھی ماچس فیکٹری۔ لیکن کراچی میں ٹرام چلتی تھی، ڈبل ڈیکر بسیں اور لوکل ٹرین چلتی تھیں۔ زندگی بہت سادہ تھی اور معاشرہ پرامن تھا۔ ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ روز پانی سے دھلتا تھا۔ لوگ باآسانی لوکل ٹرین سے سفر کرتے تھے۔
پولیس کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتا تھا، چند افسروں کے پاس بندوقیں ہوتی تھیں، موبائل نہیں تھا اور نہ موٹر سائیکل، شاید اس لیے چھیناجھپٹی، چوری، اغوا اور قتل بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب پاکستان بنا تو ایک ڈالر کے برابر تین روپے ہوتے تھے اور آج ایک ڈالر کے برابر ایک سو چھ روپے ہیں۔ ہم اس وقت سامراجی قرضوں تلے دبے ہوئے نہیں تھے لیکن آج ساٹھ بلین ڈالر کے مقروض ہوچکے ہیں۔ 1948 میں اگر چاول ایک آنہ کلو تھا تو تنخواہیں بھی ایک مزدور کی تیس روپے سے زیادہ نہ تھی۔ مگر لوگ کھا پی کر مہینے کے آخر میں ایک آدھ روپے بچا ہی لیتے تھے۔ بعد ازاں امریکا کے ہم پر مسلط ہونے کے لیے گھٹیا گندم اور اونٹ گاڑی پر پاؤڈر ملک رکھ کر اونٹ کے گلے میں تختی لٹکا کر سڑکوں پر وہ گاڑی گھمائی جاتی تھی اور اس تختی پر لکھا ہوتا تھا کہ 'تھینک یو امریکا'۔
1970 میں ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں کی تنخواہ 68 روپے تھی اور سونا 72 روپے تولہ۔ مزدوروں نے اپنی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر کروانے کے لیے لانڈھی کراچی میں ہڑتال کی تھی۔ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر تنخواہ تو نہ ہوپائی لیکن مزدوروں نے تنخواہ 70 کروالی تھی۔ لیکن آج سونا اگر 50 ہزار روپے تولہ ہے تو ایک مزدور کی کم از کم تنخواہ 13 ہزار اعلان کرنے کے باوجود نوے فیصد مزدوروں کو دس ہزار روپے سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔
پاکستان جب بنا تو تعلیم، صحت اور دفاع کا بجٹ تقریباً ایک جیسا تھا، اور اب تعلیم کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم اور صحت کا بجٹ عشاریہ پانچ فیصد ہے۔ امریکا ہمیں ایک ڈالر امداد دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف سے ہم نے کئی ارب ڈالر کے قرضے لیے، جس کا ٹیکس عوام پر مسلط کیا گیا اور نتیجتاً بیشتر اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اب پھر قرض لے کر عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادا جارہا ہے۔
ایف بی آر نے 120 ارب روپے سے زائد مالیت کے نئے ٹیکس لگانے کا جائزہ لینا شروع کردیا، جس کے بارے میں آئی ایم ایف کو آیندہ ہفتے دبئی میں شروع ہونے والے مذاکرات میں آگاہ کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ کے سینئر افسر نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے طے شدہ شرط کے مطابق سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ میں جی ڈی پی کے 0.3 فیصد برابر ٹیکس میں چھوٹ اور رعایت کے ایس آر اوز واپس لینے سے متعلق ورکنگ شروع کردی گئی۔ پہلے ہی دو مرحلوں میں اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ اور رعایت کے ایس آر اوز واپس لیے جاچکے ہیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دسویں اقتصادی جائزہ سے متعلق ٹیکنیکل سطح کے مذاکرات شروع ہوں گے۔ مذاکرات میں شرکت کے لیے پاکستان کی ٹیکنیکل ٹیم دبئی جائے گی۔ پاکستان نے دسواں اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی تقریباً تمام شرائط پوری کردیں اور پی آئی اے سے متعلق شرط بھی پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ توقع ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط مل جائے گی اور اسی سال پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کرلے گا اور آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا جائے گا۔
سامراجی معاہدات کی وجہ سے ہمیں ان کے احکامات کی بجاآوری کرنی پڑتی ہے، جیسا کہ پانی، آٹا، ادویات، توانائی، گیس، چاول، کتابوں اور مواصلات پر جو سبسڈیز حکومت کی جانب سے دی جاتی تھیں، انھیں آئی ایم ایف وغیرہ کے حکم پر حکومت نے واپس لے لیا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، کنسورشیم، ایشین ڈیولپمنٹ بینک وغیرہ، ہمیں جو قرضہ جات دیتے ہیں، ان ہی کو سود ادا کرتے کرتے پاکستان کا ہر آدمی اوسطاً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔
پاکستان تو پاکستان، سعودی عرب جیسا تیل سے مالامال ملک بھی آئی ایم ایف کا مقروض ہوچکا ہے۔ جب مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت تھی تو قطر نے اسے چار ارب ڈالر کی امداد دی اور پھر جب مصر میں فوجی حکومت قائم ہوئی تو سعودی عرب نے اس حکومت کو چھ ارب ڈالر کی امداد دی، اس سے قبل پاکستان کو بھی تین ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ جب کہ قطر اور سعودی عرب دونوں ملکوں میں امریکا کا فوجی اڈہ ہے۔
سعودی وزیر نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی عرب میں 25 فیصد لوگ بے روزگار ہیں اور 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پر گزارا کرتے ہیں۔ دوسروں کو امداد دینے والا اور تیل سے مالامال ملک ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کا مقروض ہے۔ اس لیے کہ مشرق وسطیٰ میں پراکسی وار کے لیے بے تحاشا اسلحہ چاہیے۔ یہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے۔ ہم دوسروں کی جنگ لڑ رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضے لیے جارہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں 80 فیصد رقم امریکا اور برطانیہ کی ہے۔ وہ اسلحہ بیچ کر ہمیں جنگوں میں مسلط کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم مقروض ہو کر قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے کراہنے لگتے ہیں۔ ان مصیبتوں سے چھٹکارے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم شمالی کوریا، کیوبا، بولیویا، بیلاروس، وینزویلا اور زمبابوے کی طرح ان سامراجی قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرلیں۔ ہم چٹنی روٹی کھائیں، لیکن ادھار بریانی کھانا چھوڑ دیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے ایسا نہ کیا تو کل عوام خود کرلیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم، وہ دن جلد آنے والا ہے کہ دنیا ایک ہوجائے گی۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔