تبدیلی کے لیے ایمانداراورمخلص لوگوں کی ضرورت
پشاور میں ایک طویل عرصہ سے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہو سکا تھا
پشاور میں ایک طویل عرصہ سے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہو سکا تھا اور ایسا صرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہی نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی عوامی نیشنل پارٹی اور ایم ایم اے کی حکومتیں بھی پشاور کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پائی تھیں ۔ایم ایم اے کی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے اپنے آبائی ضلع بنوں کو گل گلزار بنا دیا اس حوالے سے ان پر بہت تنقید بھی ہوئی مگر انھیں معلوم تھا کہ اس صوبے کے عوام دوبارہ کسی کو کم ہی موقع دیا کرتے ہیں چنانچہ انھیں ووٹوں کے لیے اپنے ہی شہر جانا ہے کم از کم وہاں انھیں ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جب امیر حیدر خان ہوتی صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی توجہ کا مرکز ان کا آبائی شہر مردان ٹھہرا ۔انھیں بھی معلوم تھا کہ شاید دوبارہ انھیں وزارت اعلیٰ کا موقع نہ ملے، ماضی ان کے سامنے تھا کہ جنرل فضل حق نے کیا کچھ نہیں کیا تھا لیکن مردان کے عوام نے انھیںمسترد کر دیا تھا اور پھر بے شمار ترقیاتی منصوبوں کے باوجود مردان نے ان کا مان تو رکھ لیا لیکن عوامی نیشنل پارٹی کو اس کی خدمات کا صلہ نہ دیا۔امیر حیدر ہوتی نے پشاور میں جی ٹی روڈ پر ایک پل بنایا جس کے بارے میں یہاں کے شہریوں کو اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اس کا مقصد کیا تھا؟
دوسرا پل جو ان کے دور میں شروع ہوا ساڑھے چھ سال کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔گویا پشاور ان کے دور میں بڑی حد تک احساس محرومی کا شکار رہا۔جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پشاور کے باسی یہ سوچنے میں غلط نہ تھے کہ اب سارے وسائل نوشہرہ میں استعمال ہوں گے۔ لیکن اللہ پرویزخٹک کا بھلا کرے انھوں نے پشاور پر رحم کیا جو تاخیر ہوئی وہ ان کی حکومت کی جانب سے کنسلٹنٹس کی تقرری اور پھر قانون سازی کے باعث ہوئی۔ایسے میں پشاور کے کنٹونمنٹ ایریا میں جو ایک وسیع ترین علاقہ ہے اور بہت بڑی آبادی یہاں مقیم ہے۔
سڑکوں کی حالت اچانک بدلنے لگی، سڑکوں پر کیٹ آئیز لگا دی گئیں، کئی مقامات پر بس اسٹاپ بنا دیے گئے ۔یہ بس اسٹاپ اس لیے بھی حیرت کا باعث بن رہے تھے کہ اعلیٰ کوالٹی کی کرسیاں یہاں نصب کی گئیں۔خالد بن ولید پارک اور ڈیفنس پارک کے نقشے ہی بدل گئے ۔سولر لائیٹس نے رات کو دن کا سماں پیدا کر دیا۔صدر میں چوک ایک نیا منظر پیش کرنے لگا۔یونی ورسٹی روڈ پر امریکن قونصلیٹ کے سامنے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چوک کو امن چوک کا نام دے دیا گیا۔غیر متوقع طور پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اس چوک کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی تھے وہ بھی خاصے حیران ہوئے کہ ان کی حکومت کے کئی ادارے یہ کام نہیں کر پائے لیکن کوئی ایک شخص یہ سب کچھ کر رہا تھا۔
وزیر اعلیٰ تقریب کے بعد واپس چلے گئے لیکن رات کو انھوں نے اس شخص کو ٹیلی فون ملایا جو پشاور صدر کے علاقہ کو تبدیل کر رہے تھے اور یہی تبدیلی پی ٹی آئی کو سارے پشاور میں درکار تھی۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے کنٹونمنٹ آفیسر سلیم حسن وٹوکو پیش کش کی کہ اگر وہ وفاقی حکومت سے صوبائی حکومت میں آنا چاہئیں تو وہ انھیں اہم ذمے داری سونپنے کو تیار ہیں۔ سلیم حسن وٹو انکار نہ کر سکے اور پھر چند ماہ بعد انھیں پشاور ترقیاتی ادارے کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔یہ موصوف وہی ہیں جنہوں نے پشاور میں باب پشاور فلائی اوور کے منصوبہ کو وزیر اعلیٰ کی خواہشات کے عین مطابق بر وقت پایہ تکمیل تک پہنچا کر کارنامہ انجام دیا۔
افتتاحی تقریب میں جب عمران خان بھی شریک تھے انھوں نے فلائی اوور کی تعمیر پر کئی بار اس نوجوان کو خراج تحسین پیش کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسے ہی چند لوگ پی ٹی آئی کو درکار ہیں جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کچھ کرنا چاہتے ہیں، معمولی تنخواہ پر اپنی گذر بسر کرنے پر یقین رکھنے والے بڑے بڑے کمیشن کی بجائے صرف اپنی تعریف کو ہی اپنی زندگی کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔
صوبائی حکومت پر باب پشاور بنانے کے حوالے سے کوئی اس لیے بھی انگلیاں نہیں اٹھا سکا کہ مقامی ٹھیکیداروں کی بجائے انھوں نے فلائی اوور کا ٹھیکہ پاکستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ عسکری ادارے نیشنل لاجسٹکس سیل کو دیا اس پر اخراجات کا کل تخمینہ ایک ارب 72 کروڑ روپے لگایا گیا تھا جس میں سے اب تک این ایل سی کو صرف نوے کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں اور باقی ابھی ادا کیے جانے ہیں اس کے باوجود یہ فلائی اوور جس کی لمبائی دو کلومیٹر سے زیادہ اور لیول ٹو ہے جو کراچی کے بعد پاکستان میں بننے والا دوسرا لیول ٹو فلائی اوور ہے۔
اس کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے مطابق لاہور میں بنایا جانے والا فلائی اوور ساڑھے چار ارب روپے میں تیار ہوا۔فلائی اوور کی تقریب میں جب سلیم حسن وٹو فلائی اوور کی تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے تو عمران خان کے چہرے پر مسکراہٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ فلائی اوور اور میٹرو بس بنانے کے خلاف نہیں ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ پہلے عوام کو ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کر دی جائیں تو اس کے بعد ترقی کا سفر باآسانی طے کیا جا سکتا ہے ۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی اور وہ اس لیے بھی کہ پانچ ماہ میں ایک بڑا منصوبہ مکمل ہوا۔
لاگت بھی کم آئی،پشاور میں کسی بھی بڑے ترقیاتی منصوبے کا خواب بھی پورا ہوا اور انھوں نے جس افسر پر اعتماد کیا اس نے بھی پی ٹی آئی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔سلیم حسن وٹو کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے افسر ہیں ۔ہر روز اپنے دفتر آخری دن سمجھ کر آتے ہیں ۔پشاور کے لیے اپنے چیف سیکریٹری امجد علی خان، ایڈیشنل چیف سیکریٹری اعظم خان (ان کے بارے میں آیندہ کالموں میں آپ پڑھیں گے) اور سیکریٹری بلدیات جمال الدین شاہ کے ساتھ مل کر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ تمغہ امتیاز کے بعد بہت سے اور ایوارڈ ان کے منتظر ہیں ۔اب پشاور کے شہری جنوبی رنگ روڈ پر چالیس کلومیٹر سروس روڈ پر کام ہوتا دیکھیں گے جو این ایل سی ہی کرے گا۔ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا اور رنگ روڈ کو ٹریفک کی روانی کے قابل بنا دیا جائے گا۔
حیات آباد کے مکین اپنی کوٹھیوں کے سامنے نئی سڑکیں دیکھیں گے اور یونی ورسٹی ٹاؤن میں رہنے والے بہت جلد ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے نجات حاصل کر لیں گے۔دو بڑے منصوبے پشاور پریس کلب سے پشاور گیریژن کلب تک فلائی اوور جب کہ ٹول پلازہ سے حیات آباد تک ایکسپریس وے اگر منظور ہو جاتے ہیں توپشاور پھولوں کا شہر بھی ہو گا اور صوبہ خیبر پختون خوا کا ایک ایسا دارالحکومت جس کے بارے میں یہ کوئی نہ کہہ سکے گا کہ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ نے فنڈ اپنے آبائی ضلع منتقل کر دیے بلکہ پرویز خٹک کا نام ہمیشہ پشاور کے شہریوں کے دلوں پر راج کرتا رہے گا۔