نجکاری کا فلسفہ اور عوام
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وہ ریاستیں جہاں عوامی سہولت کے ادارے سرکاری تحویل میں تھے
MULTAN:
ٹی وی اسکرین پر پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین کا واویلا' ان پر ہونے والا تشدد اور ہلاکتیں دیکھ کر مجھے افسوس ہوا اور اس کے ساتھ ہی سرد جنگ کا دور یاد آ گیا' تاریخ میں یہ زمانہ مزدوروں کی جدوجہد کے نام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا' اس دور میں سوشلسٹ جماعتیں مزدوروں کا سیاسی چہرہ ہوا کرتی تھیںجو مزدوروں کو ان کا حق دلانے کے لیے سیاسی جدوجہد کرتی تھیں' سرد جنگ کا دور تاریخ انسانی کا وہ عہد ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام والی ریاستوں میں پہلی بار ملازمت کی شرائط طے ہوئیں۔
آٹھ گھنٹے ڈیوٹی' زائد ڈیوٹی پر اوور ٹائم' مزدوروں یا کسی بھی ملازم اور اس کے اہل خانہ کو علاج و معالجے کا تحفظ' ہفتہ وار چھٹی' طبی بنیادوں پر تنخواہ میں بغیر کٹوتی چھٹیاں' سالانہ چھٹیاں وغیرہ جیسی سہولتیں اسی عہد میں ملیں اور یہ سب کچھ کیمونسٹ اور سوشلسٹ تحریکوں کی مرہون منت تھا' ورنہ پہلے تو ایک طرح سے غلامی کا دور تھا' مزدور کو فیکٹری یا دفتر میں آنے کے وقت کا پتہ تو ہوتا تھا لیکن واپس جانے کا کوئی علم نہیں' کئی جگہ پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر کام لیا جاتا' زرعی مزدور کی حالت یہ تھی کہ اسے صرف کھانے کو گندم ملتی تھی' اس کے عوض سارا خاندان مزدوری کرتا تھا۔ جب میں میٹرک پاس کر کے کالج میں پہنچا تو سرد جنگ کا آخری راؤنڈ شروع ہوا' افغانستان میں سوشلسٹ اور کیپٹلسٹ قوتوں کا آخری معرکہ ہوا۔ اس تاریخی معرکے میں کمیونزم شکست کھا گیا' سوویت یونین بکھر گیا۔
سرد جنگ امریکا اور اس کی حامی قوتوں نے جیت لی' معروف جاپانی نژاد امریکی دانشور فوکویاما نے اس فتح کوتاریخ کا اختتام (End of the History) قرار دیا۔ یہ سرمایہ داری نظام کی فتح کا اعلان تھا۔ یوں کیپٹلسٹ سسٹم کی فتح مندی کا دور شروع ہو گیا'دنیا بائی پولرسے یونی پولر ہوگئی۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور کے منصب پر فائز ہو گیا۔ امریکا عراق پہلی جنگ میں بش سینئر نے اس نئے دور کو نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا۔ یہی وہ نیو ورلڈ آرڈر ہے جس نے پوری دنیا میں تباہی پھیلا رکھی ہے اور دہشت گردی کو جنم ہی نہیں دیا بلکہ زندگی دی ہے۔ دنیا میں عہد قدیم کا وہ نظام واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں صرف آقا کی مرضی چلتی ہے اور وہ جو چاہے کرے ' وہ کسی کو جواب دہ نہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وہ ریاستیں جہاں عوامی سہولت کے ادارے سرکاری تحویل میں تھے وہ اس سے دست کش ہونے لگیں۔ پاکستان میں بھی ریاست نے اپنے شہریوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتار دیا ہے۔ نجکاری کے حامی کہتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کا کام کاروبار کرنا یا ادارے چلانا نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اسی فکر و فلسفے کی حامی ہے بلکہ اب تو پیپلز پارٹی بھی یہی روپ دھار چکی ہے۔ تحریک انصاف کا معاشی فکر و فلسفہ مسلم لیگ ن سے مختلف نہیں ہے۔ اس لیے نجکاری کا عمل جاری رہے گا۔
مجھے یاد ہے کہ غالباً یہ 1975'76کی بات ہے' لاہور میں لال رنگ کی سرکاری بسیں چلا کرتی تھیں' مال روڈ لاہور اور لاہور شہر کے کئی روٹس پر ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں' انھیں اومنی بسیں کہا جاتا تھا اور یہ سرکار کی ملکیت ہوتی تھیں' کسی شخص یا کمپنی کی نہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے جی ٹی ایس کی بسیں چلا کرتی تھیں۔ یہ بھی سرکاری بسیں تھیں اور ان کی سروس بھی لاجواب ہوا کرتی تھیں۔ اگر کسی نے لاہور سے کراچی یا پشاور سفر کرنا ہوتا تو وہ جی ٹی ایس کی بسوں پر سفر کرتا تھا۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا دور تھا' طالب علموں کے لیے رعایتی کرائے ہوا کرتے تھے' اس وقت شہر لاہور میں چلنے والی اومنی بس پر سفر کے لیے طالب علم کا چار آنے کرایہ مقرر تھا' دیگر مسافروں کے لیے بھی کرایہ زیادہ نہیں تھا' بسوں میں خواتین کے لیے بھی الگ حصہ نہیں تھا لیکن کبھی کسی خاتون سے بدتہذیبی کا منظر آنکھوں نے نہیں دیکھا' طالب علم کیا' جو بھی جوان لڑکا سیٹ پر بیٹھا ہوتا' وہ خاتون کو دیکھ کر سیٹ خالی کر دیتا تھا' ضروری نہیں کہ خاتون بوڑھی ہو' نوجوان لڑکی کے لیے بھی سیٹ خالی ہو جاتی تھی بلکہ بوڑھے مرد بھی بچی کے لیے سیٹ چھوڑ دیتے تھے۔
اسکول سرکاری تھے' فیسیں ایک دو روپے کے قریب ہوتی تھیں' اسپتال بھی سرکاری تھے۔ شہر میں سرکاری ڈسپنسریوں کا جال بچھا ہوا تھا' جہاں نزلہ و زکام اور معمولی نوعیت کے بخار کی ادویات و تشخیص مفت ہوتی تھی' زیادہ سیریس مریض اسپتال جاتے تھے۔ شہر میں چلنے والے تانگوں کے گھوڑوں کے لیے پانی کے تالاب بنے ہوئے تھے۔ یہ تالاب بھی سرکاری ہوتے تھے جہاں گھوڑے اور دیگر جانور پانی پیا کرتے تھے۔ انسداد بے رحمی جانوراں کا محکمہ بھی موجود تھا گو یہ ہمارے بچپن میں زوال کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بہر حال موجود تھا۔
لاہور کا لارنس گارڈن ساری رات کھلا رہتا تھا۔ اس کے بند ہونے کا تصور ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے ارد گرد لوہے کی نہیں بلکہ پودوں کی باڑ تھی۔ مزدور اس باغ میں رات کو سو جایا کرتے تھے اور انھیں کوئی اٹھاتا نہیں تھا۔ مجھے بچپن کا یہ زمانہ سنہری دور لگتا ہے' لیکن ضیاء الحق کے دور میں جیسے ہی جنگ افغانستان شروع ہوئی' پاکستان تبدیل ہونے لگا' افغانستان میں جیسے جیسے جنگ تیز ہو گئی' پاکستان میں گھٹن بڑھتی گئی' سماجی و معاشرتی سطح پر بھی گھٹن میں اضافہ ہوا جب کہ معاشی سطح پر سرمایہ کاروں زمینداروں کی طاقت بڑھنی شروع ہوئی۔
معاشرے میں افغانوں کی آمد شروع ہوئی' ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا جس کے نتیجے میں جرائم کی بھرمار ہوگئی۔ قتل و غارت بڑھنا شروع ہوئی تو پارکوں میں لوہے کے جنگلے اور دروازے لگنا شروع ہو گئے۔ پھر پارک کھلنے کا ٹائم مقرر ہو گیا۔ ادھر بھٹو دور میں قومیائے گئے اداروں کی نجکاری کا آغاز ہو گیا' آغاز میں ان اداروں کی نجکاری شروع ہوئی جو بھٹو حکومت نے قومیائے تھے۔ معاملہ بڑھتے بڑھتے سرکاری اداروں اور اثاثوں تک آ گیا۔
آج کے لاہور میں اومنی بسیں خواب و خیال ہو گئی ہیں۔ کم سن بچے اور نوجوان یہ سن کر حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی سرکاری بسیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ پاکستان میں سرکاری سیکٹر جسے پبلک سیکٹر کا نام بھی دیا جاتا کی اہمیت کم کرنے میں مسلم لیگ ن کا اہم کردار ہے۔ آج پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی باتیں ایسے ہی نہیں ہو رہیں 'اس کے پس پردہ ایک فکر و فلسفہ ہے۔ وہ فکر و فلسفہ یہ ہے کہ ریاست کا کام ادارے چلانا یا کاروبار کرنا نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ریاست کا کام کیا ہے؟
اگر ریاست اپنے عوام کو علاج بھی مہیا نہیں کرتی' قوم کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے سے بھی معذور ہے' سفر کی سہولتیں وہ فراہم نہیں کر سکتی تو پھر یہ ٹیکسوں کی بھرمار کس لیے ہے۔ عوام پر ٹیکس عائد کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ حکومت اس ٹیکس سے انھیں سہولت فراہم کرے گی۔ یہ سہولتیں کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب سب کو معلوم ہے۔ کیا ہمارے حکمران عوام سے وصول کردہ ٹیکس سہولتوں کی شکل میں انھیں واپس لوٹا رہے ہیں ؟ کیا ریاست پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندوں کو اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے۔