فیصلہ کن گھڑی

امریکی صدر صرف امریکا کا صدر نہیں ہوتا بلکہ وہ حقیقی معنوں میں پوری دنیا کی قیادت سنبھالتا ہے۔


Zamrad Naqvi November 04, 2012
زمرد نقوی

امریکا میں صدارتی انتخابات سے قبل ڈیمو کریٹ پارٹی کے امیدوار بارک اوباما اور ری پبلکن امید وار مٹ رومنی کے درمیان تیسرا اور آخری مباحثہ ہوا جس میں دونوں صدارتی امیدواروں نے اتفاق کیا کہ پاکستان پر ڈرون حملے بڑھائیں گے۔

مٹ رومنی نے کہا کہ پاکستان کے پاس 100 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ ''اگر پاکستان ٹوٹا تو یہ افغانستان اور امریکا کے لیے بڑا خطرہ ہو گا۔'' اس کی امداد روکنا درست نہیں۔ اگر صدر منتخب ہوا تو پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھوں گا اور اس کی امداد مشروط کر دوں گا۔ رومنی نے کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ اسلام آباد کو حقانی نیٹ ورک سے خطرات لاحق ہیں۔ جب کہ امریکی صدر اوباما نے کہا کہ اسامہ کی ہلاکت میرا بڑا کارنامہ ہے۔ اگر پاکستان کو آپریشن کے بارے میں بتاتے یا اس سے اجازت لیتے تو اسامہ بن لادن اپنے ٹھکانے سے فرار ہو جاتا۔

دہشت گردوں کے خلاف پاکستان سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ پاکستان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ بارک اوباما نے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے امریکی عوام کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ پاکستان میں ہوا تو حملہ کروں گا۔ پاکستان کی امداد روکنا درست نہیں۔ اگر پاکستان ناکام ریاست بن گیا تو امریکا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو گا۔ مستحکم افغانستان کے لیے پاکستان میں جمہوریت کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے اور پاکستان کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے خطرات لاحق ہیں۔

مٹ رومنی نے کہا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ رہنمائوں کی ہلاکت پر صدر باراک اوباما کو مبارکباد پیش کرتا ہوں لیکن ہم اب بھی دہشت گردی کے عفریت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ روس اب بھی جیو پولیٹکل لحاظ سے خطرہ ہے اور ایران بھی امریکا کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ صدر بن کر ایران پر پابندیاں مزید سخت کروں گا۔ انھوں نے پاکستان کے حوالے سے اوباما کے موقف پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ میں ڈرون حملوں کی حمایت کرتا ہوں اور مکمل طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ صدر اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کر رہے ہیں۔ رومنی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو ان لوگوں کا پیچھا جاری رکھنا چاہیے جو ہمارے ملک اور ہمارے دوستوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ رومنی نے اوباما پر الزام لگایا کہ ایک آدمی کو پکڑنے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور اسے پکڑنے کے لیے پاکستان سے اجازت لینی چاہیے تھے۔

اوباما نے جواباً کہا کہ اس آدمی کو پکڑنے کے لیے درحقیقت زمین آسمان ایک کرنے کی ضرورت تھی اور ہم نے ایسا ہی کیا اور اگر ہم نے پاکستان کی اجازت لی ہوتی تو ہم اسامہ کو کبھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔ اوباما نے کہا کہ پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑا نہیں جاسکتا۔ وہ بھی ایسے میں جب اس کے پاس سو سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں جن کی تعداد بڑی تیزی سے دو سو تک پہنچنے والی ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا امریکا کو پاکستان کو ''طلاق'' دیدینی چاہیے۔ رومنی نے تعلقات کو جاری رکھنے کی حمایت کی تاہم کہا کہ یہ تعلقات کانگریس سے منظور کردہ قانون سازی کے مطابق ہوں۔

انھوں نے کہا کہ کرہ ارض پر موجود اس ملک کو طلاق دینے کا ''یہ وقت نہیں'' جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور وہ کسی بھی وقت ان کی تعداد دوگنا کرنے کے راستے پر ہے اور ایک ایسا ملک جس کو اس کے اپنے ہی اندر کے دہشت گرد گروپوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ جو امداد ہم اس کو دے رہے ہیں اسے پاکستان میں سول سوسائٹی کی تشکیل کی جانب بڑھنے جیسے معاملات پر ''پیش رفت'' سے منسلک کرنا ہوگا۔ بہرحال ان دونوں صدارتی امیدوارں کے بیانات سے یہ بالکل واضح ہے کہ ان کی نظروں میں پاکستان کی حیثیت ایک مشکوک ملزم سے بڑھ کر ہے جس پر حیرت انگیز طور پر ان دونوں میں مکمل طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ امریکی انتخابات 6 نومبر کو ہو رہے ہیں۔

آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ امریکی صدر صرف امریکا کا صدر نہیں ہوتا بلکہ وہ حقیقی معنوں میں پوری دنیا کی قیادت سنبھالتا ہے۔ تاریخ میں یہ معجزہ پہلی مرتبہ رونما ہوا ہے۔ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں ہمیشہ طاقت کے مراکز ایک سے زائد رہے اور یہ سب طالبان کی مہربانی سے ہوا ہے کہ آج امریکا پوری دنیا کا چوہدری بنا بیٹھا ہے۔ طالبان سمیت آج کی مذہبی قیادت ہمیں بار بار تلقین کرتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کو کبھی اپنا دوست مت سمجھو۔ لیکن آج سے تیس سال پہلے اسی مذہبی گروہ نے انھیں اپنا دوست و مربی بنالیا اور یہ سب انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا اور آج ہم اس کا عذاب بھگت رہے ہیں۔

افغانستان، عراق، سعودی عرب، پاکستان سمیت دنیا پر امریکا کا قبضہ ''مکمل'' ہوگیا۔ یہ ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی معافی نہ انھیں اس دنیا میں ملے گی نہ آخرت میں جب لاکھوں کروڑوں مسلمان بیوائیں اور ان کے یتیم بچے ان کے گریبانوں کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے۔ 1980ء دہائی کے پرانے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں کہ ان لوگوں کی امریکا اور اسرائیل سے دوستی اور محبت کا کیا عالم تھا۔ یہ امریکا سے اس درجہ عشق و محبت ہی تھا جس سے متاثر ہوکر سابق امریکی صدر ریگن نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ''طالبان مجاہدین'' کا رتبہ امریکا کے بانیان کے مساوی ہے۔

اندازہ کریں کہ ریگن صاحب امریکا کو دنیا کا چوہدری بنانے پر طالبان سے اتنے خوش ہوئے۔ جس میں امریکا کا ایک بھی فوجی نہیں مارا گیا کہ انھوں نے طالبان کا مقام ان امریکیوں کے برابر قرار دے دیا جنہوں نے امریکا بنایا تھا۔ اسی سے آپ ان کی عقل کا انداہ کر سکتے ہیں پہلے انھوں نے ''بڑی محنت اور جاں فشانی'' سے 80 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرا کے مسلم دنیا پر امریکا کا قبضہ کرایا۔ اب اسی کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، یہ ہے ان کی عقل، دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کا عالم۔ نام نہاد دانشوروں نے افغانستان ایران عراق اور پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ تاریخ کی وہ فیصلہ کن گھڑی آ پہنچی ہے کہ جب پاکستانی عوام کو طالبان یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

ملالہ کی صحت کے حوالے سے اگلا مرحلہ 9-8 نومبر سے 18-17 نومبر کے درمیان کے عرصے میں شروع ہو گا جس میں اس بات کا بھی پتہ چلے گا کہ اس کا اگلا آپریشن کب ہو گا۔

18-17-16 نومبر سے 27-26-25 نومبر اور اس کے درمیان کا عرصہ جمہوریت اور سیاست دانوں کے لیے احتیاط طلب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں