عوامی امنگوں کا احترام کیا جائے
جنرل راحیل شریف پاک فوج کے پہلے بولڈ سپہ سالار ہیں جنھوں نے دس ماہ قبل ہی وقت مقررہ پر اپنے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا
جنرل راحیل شریف پاک فوج کے پہلے بولڈ سپہ سالار ہیں جنھوں نے دس ماہ قبل ہی وقت مقررہ پر اپنے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ نہ جانے کیوں وقت سے پہلے ہی ان کے ریٹائرمنٹ اور مدت ملازمت میں توسیع کے موضوع پر میڈیا میں بحث چھڑگئی تھی۔ اس بحث کوکیوں شروع کیا گیا تھا اور اسے کس نے شروع کرایا تھا یہ باتیں بڑی اہم ہیں۔
اس بحث سے ایک طرف جنرل صاحب کی ذات متاثر ہورہی تھی تو دوسری جانب ان کے شروع کیے گئے آپریشن 'ضرب عضب' پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے لگے تھے۔ افسوس کہ ہمارے بعض سیاستدان اتنے نادان یا پھر اپنے مفادات کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں ملک کی اور معیشت کی تباہی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ملک میں پھیلی ہوئی دہشتگردی کی وجہ سے نہ صرف ملک کے امیج کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ دہشتگردی کے خاتمے میں لیت و لال برتنے کی وجہ سے بیرون ملک ہمیں شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔اس ملک کا چپہ چپہ ہمارے لیے مقدس ہے، ہم نے بڑی قربانیاں دے کر اسے حاصل کیا ہے۔ یہ مسلمان برصغیر کی امیدوں کا مرکز اور ہماری نسلوں کی ترقی اورخوشحالی کا محور ہے۔
آج سے 69 برس قبل اس ملک نے بے سروسامانی کے عالم میں اپنا سفرشروع کیا تھا جس کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بڑے طنز سے کہا تھا ''پاکستان تو ایک عارضی کیمپ ہے'' یعنی کہ وہ کبھی بھی ختم ہوسکتا ہے مگر واہ رے بانیان پاکستان! اور معماران پاکستان! کہ جنھوں نے محض 69 برسوں میں اسے ایک ایٹمی طاقت بناکر دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ آج بھارت محض اس لیے ہم سے خوف زدہ ہے کہ ہمارے پاس نہ صرف ایٹم بم ہے بلکہ ایسے ایسے میزائل ہیں جو چشم زدن میں اس کے غرور کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔
بھارتی نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیئر اکثر اپنے مضامین میں یہ خدشہ ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ چھڑ گئی تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا اس لیے کہ دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اب تو وہ کھل کر دونوں ممالک کے درمیان اصل وجہ نزاع مسئلہ کشمیر کے حل پر بھی زور دیتے رہتے ہیں جب کہ پہلے وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ مانتے تھے اب وہ واضح طور پر لکھ رہے ہیں کہ کشمیر کو بھارتی حکمرانوں کی جانب سے بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا سراسر غلط ہے کیونکہ کشمیر ایک خودمختار ریاست ہے اس کا بھارت سے الحاق ضرور ہوا ہے مگر وہ بھارت کا حصہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان ستر کی دہائی والا پاکستان نہیں ہے بلکہ ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت ہے۔ ہم نے اپنے وطن کو یہ عروج بڑی محنت و مشقت کے بعد دلوایا ہے۔ اگر ہم امریکا کے حکم پر افغانستان کی خونی دلدل میں پھنسنے سے انکارکردیتے تو آج ہم یقینا ایشین ٹائیگر بن چکے ہوتے۔ مغربی طاقتیں جو ہماری ترقی ہی کیا ہمارے وجود کے بھی خلاف ہیں انھوں نے ہمیں اپنی مذموم حکمت عملی کے تحت طالبان القاعدہ اور اب داعش کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ طالبان اور القاعدہ سے دشمنی ہمیں بہت مہنگی پڑی ہے ہم نے اتحادی افواج کے ساتھ مل کر انھیں ختم کرنے کی کوشش کی۔
وہ اتحادی افواج کے جدید اور خطرناک جنگی ہتھیاروں کی تاب نہ لاسکے اور چھاپہ مار جنگ کی جانب مائل ہوگئے بدقسمتی سے پاکستان میں ان کی حمایت میں کچھ قبائل ان کا ساتھ دیتے ہوئے ہمارے خلاف کھلی دہشتگردی پر اتر آئے۔ انھوں نے پورے ملک کو اپنے خودکش دھماکوں کے ذریعے ہلاکر رکھ دیا۔ ان کے بعض گروپوں نے بھارتی ''را'' اور افغان ''خار'' کے ہتھے چڑھ کر ہمارے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ وہ ہمارے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے لگے اور قیمتی دفاعی اثاثوں کو تباہ کرنے لگے۔ ان کی تخریبی سرگرمیاں اس لیے بھی حد سے تجاوز کرگئیں کیونکہ ملک کی کچھ مذہبی جماعتیں ان کا دم بھرنے لگیں اور پھر ملک میں سزائے موت کے خاتمے نے بھی ان کی خوب ہمت افزائی کی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھال کر پہلے تو دہشت گرد عناصر سے مصالحت کی کوشش کی مگر جب حالات حد سے زیادہ خراب ہوگئے تو نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حکومت کے ساتھ مل کر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کردیا یہ آپریشن اس وقت انتہائی کامیابی سے جاری و ساری ہے۔
اس کا سہرا عوام حکومت کے بجائے جنرل راحیل شریف کے سر باندھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ہیں بھی ان کے مستحق۔ جنرل راحیل شریف کے ریٹائرمنٹ اور مدت ملازمت میں توسیع کے معاملات شاید کبھی بھی زیر بحث نہ آتے اگر کرپشن کرنیوالی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ نہ ڈالا جاتا اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک میں دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع نہ کیا جاتا۔ بس جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے سندھ میں رینجرز کے کام میں رخنے ڈالے جا رہے ہیں۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے وہ اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے یہ بات بھی نہیں ہے کہ کرپشن صرف سندھ میں ہے اور باقی صوبے اس لعنت سے پاک ہیں تاہم اگر سندھ سے کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز ہوگیا ہے تو یہ سلسلہ لازمی طور پر دوسرے صوبوں تک دراز ہوگا۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں یہ سلسلہ جلد شروع ہونا چاہیے تاکہ سندھ کا اعتراض ختم ہو۔ حالانکہ ابھی کرپشن کے خلاف مہم کا صرف آغاز ہوا ہے تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں یہ برائی کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی بابت ٹرانسپیرنسی کی یہ برسوں بعد کوئی مثبت رپورٹ آئی ہے۔
اس سے ملک کی معیشت پر لازمی طور پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ملکی معیشت ابھی بھی خطرے کے نشان پر بدستور موجود ہے مگر ملک میں کرپشن کے خاتمے سے اس میں یقینا بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ اب رہی بات دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی تو ان ظالموں کا بھی دہشتگردوں جیسا حشر ہونا چاہیے۔ شاید ہمارے ملک میں دہشتگردی اتنی جڑ نہ پکڑتی اگر شروع سے ہی دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کی گرفت میں لینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اب جب سے سہولت کاروں کی گرفتاریاں عمل میں آنا شروع ہوئی ہیں تو یہ راز بھی عیاں ہوگیا ہے کہ انھیں رقم فراہم کرنیوالے ہمارے دشمن ملک ہیں۔ سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارا دشمن بھی جنرل راحیل شریف سے متاثر نظر آتا ہے۔
بھارت میں ان کی پراثر شخصیت، کارکردگی اور سنجیدگی کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ان کے ایک پیشہ ور سپاہی اور شہید گھرانے سے تعلق رکھنے سے بھی لوگ مرعوب ہیں۔ خود ہمارے بیشتر دانشور جنرل راحیل کی دلیر اور مدبرانہ شخصیت سے متاثر نظر آتے ہیں انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر اقتصادی بحران کے حل اور مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات کو ختم کرانے کے لیے جس مدبرانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اس سے ان کے عالم اسلام سے والہانہ لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے جنرل راحیل شریف کے ریٹائر ہونے کی خبر پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ان کا موقف ہے کہ ابھی تو ان کا مشن جاری ہے اور ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو پایا ہے تو قوم انھیں اپنے مشن کو ادھورا چھوڑ کر جانے کی کیسے اجازت دے سکتی ہے؟ ادھر جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ آرمی چیف جمہوریت پر مکمل یقین رکھنے والے ہیں وہ تو خیر غیر سیاسی آدمی ہیں ہی ان کے خاندان کے بھی کسی فرد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔
وہ دہشتگردی کے خاتمے میں جمہوری حکومت کی ہر قدم پر مدد کرکے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فوج کا کام حکومت کرنا نہیں بلکہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اور ہر قیمت پر ملک میں امن وامان قائم رکھنا ہے چنانچہ اگر ایسے جمہوریت پسند اور قومی شعور رکھنے والے جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے تاکہ وہ اپنے شروع کیے گئے مشن کو انجام تک پہنچا سکے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہوگی کیونکہ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اگر ایسا ہونے میں کچھ مشکلات حائل ہو رہی ہیں تو فوج کے سربراہوں کا دورانیہ پھر سے یکم مارچ سے شروع کرنے سے بھی یہ معاملہ بخیر و خوبی عوامی امنگوں کے مطابق طے پاسکتا ہے۔