قومی اثاثے اورسیاست
صرف اورصرف سیاست ہورہی ہے۔وہ بھی ایسی جس جس کا پہلااصول محض بے اصولی ہے
صرف اورصرف سیاست ہورہی ہے۔وہ بھی ایسی جس جس کا پہلااصول محض بے اصولی ہے۔ہراہم قومی معاملہ پراتنی گرداچھالی جاتی ہے کہ حقائق کوسامنے لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتاہے۔اہم معاملات پر فیصلہ کرنا اب غیرمعمولی قوت ارادی اورحوصلہ کامتقاضی ہے۔یادرہے قومی اورریاستی مفادہرچیزسے بالاتر ہے۔
انسانوں کی قومی مفاد کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔کسی کی بھی نہیں۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے صاحب الرائے لوگ ہواکارخ دیکھ کربات کرتے ہیں۔صرف اس لیے کہ کسی گروہ یاجماعت کی مخالفت مول نہ لینی پڑے۔ ڈر، خوف اوراندیشہ، سچ کی نفی ہیں۔
ہرسال دوسے چارمرتبہ غیرممالک میں جانے کااتفاق ہوتاہے۔اسٹاف کالج کی جانب سے ہربرس،کم ازکم دوبار طویل سفرکرناپڑتاہے۔مجھے جب بھی موقعہ ملتاہے میں صرف پی آئی اے P.I.Aپرسفرکرتاہوں۔ضدسے نہیں بلکہ جذبہ سے۔آج تک جب بھی امریکا گیاہوں توصرف اپنی قومی ائیرلائن پر۔جب کرایہ دیناہے توکیوں نہ اپنے ملک کے خزانے میں جائے۔جب نیویارک کے ائیرپورٹ پر گہرے سبزرنگ سے مزین قومی جہازدیکھتاہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ روح میں توانائی سی آگئی ہے۔پردیس میں اپنے قومی تشخص سے مطابقت رکھنے والی ہرچیزکاشدت سے انتظار ہوتا ہے۔
امریکا میں ہرباردوست پوچھتے ہیں کہ پی آئی اے پرکیوں سفرکرتے ہو۔میراجواب ہمیشہ ایک جیساہے کہ اس میں تمام سہولتیں موجودہیں جوکسی بھی اچھی بین الاقوامی ائیرلائن میں ہوتی ہیں۔اپنی قومی شناخت سے اپنائیت کارشتہ بھی ہے۔ صرف یہ عرض کرونگاکہ میراجذبہ ایک جانب مگرچندایسے تلخ واقعات بھی ہیں،جسکاذکرمیں نے کبھی بھی نہیںکیا۔مگرآج کی صورتحال دیکھ کرکچھ لکھنے پر مجبور ہوں۔ دل شکنی کرنا قطعاً مقصود نہیں۔محض عرض کرناہے کہ پی آئی اے کواس زبوں حالی پر کس ظالمانہ طرزِعمل نے پہنچایا۔
دس مہینے پہلے میں لاہورسے نیویارک جارہا تھا۔ جہاز نے حسبِ معمول مانچسٹرائیرپورٹ پرتیل کے لیے رُکنا تھا۔ مقصودمسافروں کی دوبارہ تلاشی لینابھی ہوتاہے جوکہ اب بالکل نارمل سالگتاہے۔P.I.Aکی بزنس کلاس میں سفر کر رہا تھا۔ واپس جہازمیں آیاتودوبارہ پروازسے آدھ گھنٹہ پہلے ایک خاتون انتہائی طنطنے سے تشریف لائیں۔بزنس کلاس کے برسرسے پوچھاکہ کون سی سیٹ خالی ہے۔پھروہاں آرام سے براجمان ہوگئیں۔وہ اکانومی کلاس سے اُٹھ کربلاتکلف بزنس کلاس میں آگئیں۔
میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے جب کیبن کریو(Crew)سے پوچھاکہ یہ موصوفہ کون ہیں تو بتایا گیاکہ یہ ائیرلائن ہی کی ملازم ہیں اورذاتی کام سے لندن سے نیویارک جارہی ہیں۔حقیقت یہ تھی کہ ان کے پاس اکانومی کلاس کابھی مفت واؤئچریاٹکٹ تھااوروہ موقعہ دیکھ کرآرام سے بزنس کلاس میں سفرکرنے لگ گئیں۔جہازکے عملے کے کسی بھی شخص نے اس بے ضابطگی کاقعطاًنوٹس نہیں لیا۔ ساتھ بیٹھا ہوا مسافرکہنے لگاکہ دیکھو ہم ڈھائی لاکھ روپیہ خرچ کرکے سفر کررہے ہیںاوریہ موصوفہ بالکل مفت ۔میں خاموش سا ہوگیا۔ پردل میں غباربہرحال ضرورتھا۔
بالکل اسی طرح کچھ عرصہ پہلے نیویارک سے واپسی پر اپنی نشست پرپہنچاتوایک مہذب شخص پہلے سے میری نشست پربیٹھاہواتھا۔یہ بزنس کلاس کاکیبن تھا۔سمجھ نہ آئے کہ کس طرح اتنے مہذب انسان کوکہوں کہ آپ غلطی سے کسی اور کی نشست پرسفرکررہے ہیں۔جی کڑاکرکے مودبانہ گزارش کی،کہ جناب،یہ اتفاق سے میری سیٹ ہے۔اگر گستاخی نہ سمجھیں تواپنی مخصوص جگہ پرتشریف لے جائیں۔ شخص بڑے آرام سے اُٹھااورجہازکے کاک پٹ میں چلا گیا۔
مجھے عجیب سالگاکہ کاک پٹ توانتہائی حساس جگہ ہے اورایک مسافر بڑے آرام سے وہاں چلاگیاہے۔حیران رہ گیاکہ جہاز پروازکرنے لگامگرپھربھی وہ کاک پٹ میں ہی موجود رہا۔ اُڑان کے بیس منٹ کے بعد محترم بڑے آرام سے بزنس کلاس میں آئے توخالی ایک نشست دیکھ کربیٹھ گئے۔ چند منٹ بعدساراجہازان کے خراٹوں سے مستفید ہورہا تھا۔
پوچھنے پرپتہ چلاکہ یہ موصوف ائیرلائن کے سینئر ملازم ہیں اور شائد مفت یاآدھے ٹکٹ پرسفرکررہے ہیں۔ان کے کپڑے اورآن بان دیکھ کراندازہ ہورہاتھاکہ اس جہازکے مالک ہیں۔تحقیق سے پتہ چلاکہ موصوف اصل میں اکانومی کلاس میں سفرکرنے کے مجازہیں مگرکیونکہ پوچھنے والاکوئی نہیں توبزنس کلاس میں بغیر کسی ترددکے سفرفرمارہے ہیں۔
خدمت میں ایک اورگزارش کرتاچلوں۔جب بھی لاہورسے امریکا گیاتومجھے ایسے لگاکہ جہازمیں فضائی عملہ تعدادمیں بہت زیادہ ہے۔نیویارک کے سفرکی طوالت میں کئی ایسے مناظربھی دیکھنے کوملے جوکسی اورائیرلائنزکے سفر میں نصیب نہ ہوئے۔لاہورسے مانچسٹرتقریباًچھ سے سات گھنٹے کادورانیہ ہے اورتقریباًاتناہی مانچسٹرسے نیویارک تک کا۔ عملہ مانچسٹرپرتبدیل ہوجاتاہے۔
دومرتبہ دیکھاکہ کام ختم کرنے کے بعدائیرہوسٹس اورمردانہ عملہ پردہ کے پیچھے جہاز کے فرش پربیٹھے ہوئے ہیں۔میرے لیے یہ حیرانی تھی کہ عملہ فرش پرچوکڑی مارکربیٹھنے پر مجبور ہیں۔پوچھنے پرمعلوم ہواکہ امریکا جانے کی ڈیوٹی لگوانے کے لیے بہت تگ ودوکرنی پڑتی ہے۔کئی بارسفارش بھی کام آتی ہے۔چونکہ سفارشی تعدادزیادہ ہوتی ہے لہذافضائی عملہ اتنابڑھ جاتاہے کہ اس تناسب کے حساب سے ان کے بیٹھنے کاانتظام نہیں ہوسکتا۔ مجبوراً وہ جہازکے فرش پرکئی گھنٹے بیٹھنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔
آپ ائیرلائن کے عملہ سے صَرفِ نظرکرلیجئے۔جس بے رحمی سے ڈیپوٹیشن پرگئے ہوئے افسران نے ائیرلائن سے استفادہ کیاہے،اپنی جگہ ایک اندوہناک داستان ہے۔نام لیے بغیرعرض کرونگا۔چندبرس پہلے لاہورسے ایک افسر وہاںڈیپوٹیشن پرچلے گئے۔میرے خیال سے وہ وہاںڈیڑھ برس رہے۔ڈیڑھ برس میں ان کا طریقہ واردات انتہائی منفرد تھا۔انھوں نے تمام سینئرافسران کو کہہ رکھاتھاکہ جیسے ہی ٹکٹ لیں توانھیں فوراً بتائیں۔
اکانومی کلاس کے ٹکٹ کوایک لمحہ میں بزنس کلاس میں بغیر اخراجات کے اَپ گریڈکروادیتے تھے۔ تمام سینئرافسران ان کے گرویدہ ہوگئے۔ایک دن شام کوبتانے لگے کہ میں تو لندن میں چھ سویاسات سوپاؤنڈکے کمرے میں ٹھہرتا ہوں۔ ان کی باتیں غورسے سنتارہا۔ سوال کیا، جناب آپ قومی خرچ پراتنے مہنگے ہوٹل کے کمرے میں کیوں قیام کرتے ہیں۔ ہوٹل میں کم قیمت کے کمرے بہم میسرہوتے ہیں۔ میرا سوال انھیں کافی ناگوارگزرا۔سیٹیں اَپ گریڈ کرواکرموصوف بڑے آرام سے اچھی جگہ پراپنی پوسٹنگ کرواتے رہے۔اب شائدریٹائرڈہوچکے ہیں۔اپنے آپکو اتنا ایماندار افسر بتاتے ہیں ۔
گزارشات کامقصدصرف یہ ہے کہ ائیرلائن ہویا ہمارا کوئی اورقومی اثاثہ۔اسکوبربادکرنے میں تمام عناصر برابرکے فریق رہے ہیں۔سیاست دان،سیاسی حکومتیں، فوجی حکومتیں، عملہ،میرے جیسے افسران،سب ان اداروں کی شریانوں سے خون نچوڑتے رہے ہیں۔اب جب صورتحال مشکل سے مشکل ترہوگئی ہے توایسے لگتاہے کہ یہ تمام بربادی چنددنوں میں برپاہوگئی۔کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ کوئی یہ کہنے کو آمادہ نہیں کہ آئیے تحقیق کرلیجئے کہ،اس خرابی میں کون کون حصہ دارہے۔
تصویرکے دوسرے رخ کی طرف نظر ڈالیے۔ ہمارے ملک میں اداروں کی نجکاری کاعمل عمومی طور پر غیرشفاف رہا ہے۔1950ء کی دہائی کودیکھیے۔پاکستان کی ترقی کابے مثال دور تھا۔پاکستان انڈسٹریل بورڈنے پچاس ادارے بنائے۔ ان کوانتہائی محنت سے چلایا۔ معاشی طورپر پیروں پرکھڑا کیا۔ اس کے بعدحکومتی پالیسی کے تحت نجی شعبہ کو فروخت کرتی ہے۔
یہ ایک عجیب اور پُراسرارطرح کی نجکاری کاعمل تھا۔دیکھتے دیکھتے پاکستان میں بائیس خاندانوں کے پاس ملک کی اَسی فیصد دولت ارتکاز کرگئی۔ میری نظرمیں بھٹوکی نجی اداروں کوقومی تحویل میں لینااسی پرانی پالیسی کاردِعمل تھا۔خیر نئی پالیسی بھی ناکام رہی اوروقت نے ثابت کیاکہ قومیانے سے انڈسٹری بربادہوگئی۔ضیاء الحق سے لے کراب تک، نجی شعبہ کواثاثہ جات فروخت کرنے کے عمل کے متعلق بہت سے سنجیدہ سوالات ہیں۔
میں نام بھول رہاہوں۔فوج کے ایک ریٹائرڈجنرل جو نجکاری کے وزیر رہے ہیں۔ان کے دورمیں اس قدربے ضابطگیاں کی گئیں کہ کرپشن کی حیران کن کہانیاں سامنے آئیں۔شائدوہ کچھ عرصے کے لیے گرفتاربھی کیے گئے۔پراس سے کرپشن کے جذبے بالکل سردنہ ہونے پائے۔ شائد لوگوں کو یادنہیں کہ سب سے زیادہ سرکاری اثاثے،شوکت عزیزکے زمانے میں فروخت ہوئے۔ایک تحقیق کے مطابق ستر فیصد قومی اثاثے 2004ء سے لے کر2007ء تک نجی شعبے کے حوالے کردیے گئے۔انھیں کوڑیوں کے دام بیچا گیا۔ ہماری یاداشت اتنی کمزورہے کہ ہم اس عرصے کے متعلق کوئی بات کرنے کوتیارہی نہیں۔
پی آئی اے کاموجودہ بحران طویل بدنظمی،لوٹ ماراور میرٹ کی تذلیل کانتیجہ ہے جسکی ذمے داری لینے کے لیے کوئی بھی تیارنہیں۔ہرفریق پارسائی کادعوی کرکے ایک بلند اخلاقی پہاڑ پر کھڑا ہوا تقریرکررہاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہماراقومی خزانہ تین سوارب روپے کاخسارہ برداشت کرنے کی استطاعت رکھتا ہے؟
کیاہم اس وقت اس اَمرکے متحمل ہوسکتے ہیں کہ اپنی معاشی شہہ رگ سے مسلسل خون بہنے دیں۔جواب، حقائق کی روشنی میں فوراًآپکے سامنے آجائیگا۔مگرکیالکھیں اورکیا سوچیں۔خسارے دینے والے اداروں کی نجکاری ایک مستند معاشی اصول ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اس ہتھیارکوکیسے اور کیونکراستعمال کیا جاتا ہے۔فی الوقت اس اہم قومی مسئلہ پر صرف سیاست ہورہی ہے۔صرف سیاست!