ترقی پسند ادیب ہی معاشرے کے حقیقی مسائل اورتضادات اُجاگر کررہے ہیں ڈاکٹرسید جعفر احمد

منٹو اور قرۃ العین کو ترقی پسند تسلیم کرنے میں تامل ترقی پسندی کے ایک محدود تصور کا نتیجہ تھا


Ashraf Memon/iqbal Khursheed February 07, 2016
ممتاز اسکالر، ڈائریکٹر، پاکستان اسٹڈی سینٹر، کراچی یونیورسٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکریٹری، ڈاکٹر سید جعفر احمد کا خصوصی انٹرویو ۔ فوٹو : فائل

تدریس؛ اُن کا جنون۔ تحقیق؛ سچ تک رسائی کا راستہ۔ بنیادی وظیفہ؛ معاشرے کی فکری رفوگری۔ جن نظریات کو درست جانا، اُنھیں اوزار بنایا۔ اعتدال کا دامن تھامے رکھا۔ اور یہ لازم بھی تھا کہ استاد ہیں، سماج کا دماغ ہیں!

ڈاکٹر سید جعفر احمد ان کم یاب افراد میں شامل ہیں، جن کے ساتھ دانش وَر کا سابقہ جچتا ہے۔ ایک عرصے سے ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر، کراچی یونیورسٹی کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسے فعال بنایا، اس کے تحت 65 سے زاید تحقیقی کتب شایع کیں۔ خود بھی تصنیف و تالف میں جُٹے رہے۔ اپنی کتابوں کی تعداد21 ہے اور ہر ایک قابل ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کیمبرج یونیورسٹی جیسی درس گاہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ دنیا کی نمایاں جامعات میں لیکچرز دیے۔

تحقیقی مقالات مستند ریسرچ جرنلز میں شایع ہوئے۔ معروف روشن خیال تنظیم، ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے وابستگی پرانی ہے۔ چار برس اُس کے صدر رہے۔ علمی و ادبی جریدے ''ارتقا'' کے مدیر ہیں۔ ایک عرصے انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے صدر کا منصب سنبھالا۔ رواں برس انھیں وفاقی تنظیم کا سیکریٹری منتخب کیا گیا، تو مناسب جانا، اُن سے اس تنظیم، اس کے مستقبل اور دیگر اہم علمی مسائل سے متعلق تفصیلی گفت گو کی جائے۔

آئیں، گفت گو شروع کرتے ہیں:
سوال: انجمن ترقی پسند مصنفین تاریخی پس منظر کی حامل ہے۔ یہ عشروں تک اردو ادب پر غالب رہی، مگر گذشتہ کچھ برس سے یوں لگتا ہے، یہ تنظیم ہمارے سماج میں غیرمتعلقہ ہوگئی ہے؟
جعفر احمد: انجمن ترقی پسند مصنفین بلاشبہہ ایک عظیم تہذیبی ورثے کی امین ہے۔ 1936میں اپنے قیام کے بعد تنظیم سے وابستہ ادیبوں نے اس وقت کے طلاطم خیز سیاسی ومعاشی حالات کے تناظر میں جو ادب تخلیق کیا، وہ اردو کا قابلِ ذکر سرمایہ ہے۔

انگریزی استعمار کے خلاف جاری جدوجہد اور پھر تقسیم کے موقعے پر فسادات کے تناظر میں جو فکشن لکھا گیا یا جو شاعری کی گئی، وہ ادب میں تو اپنا مقام رکھتی ہی ہے، اب پچھلے دو تین عشروں میں خود تاریخ نویسوں نے اس ادب کو اُس عہد کی تاریخ دریافت کرنے کے ضمن میں ایک مفید ماخذ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

یہ ایسی ہی صورت ہے، جیسے صنعتی انقلاب کے زمانے کے برطانیہ کی تہذیبی تاریخ لکھتے وقت چارلس ڈکنز کے ناولوں کو تاریخ نویس ایک ماخذ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ترقی پسند ادب کا جو غلغلہ اس زمانے میں دیکھنے میں آیا، گزشتہ چند عشروں میں اس کی وہ تیزی وطراری نظر نہیں آتی۔

اس ضمن میں میری گزارش یہ ہے کہ تقسیم کے بعد جو مابعد استعماری ریاستیں پاکستان اور ہندوستان کی صورت قائم ہوئیں، وہ اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ان آدرشوں سے یک سر مختلف سمت میں گام زن ہوئیں، جن آدرشوں کو آزادی سے قبل عوام الناس کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

ہندوستان میں بھی جس طرح ایک مرکزیت پسندانہ ریاست قائم کی گئی، تلنگانہ میں کسانوں کی بغاوت کو جس بے دردی سے کچلا گیا، اور جس کا بہترین تخلیقی اظہار کرشن چندر کے ناولٹ ''جب کھیت جاگے'' میں ہوا، وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کہ یونین جیک کے اترنے اور ہندوستان کا جھنڈا چڑھنے سے ایک عام آدمی کی زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ پاکستان کی صورت حال اس سے بھی ابتر تھی۔ پاکستان میں تو آئین اور جمہوری اداروں کی بھی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ ہمارے ادیبوں نے ان حالات کا جس عزم کے ساتھ مقابلہ کیا، اُس کو آپ کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں۔

1954 میں جب انجمن پر پابندی لگائی گئی، تو ساتھ ہی بہت سارے ادیبوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا، جب پاکستان سیٹو اور بغداد پیکٹ جیسے معاہدوں میں شامل ہوا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں کے خلاف ریاستی جبر کی پالیسی کا ایک اہم پہلو امریکا کو ہمارے حکم رانوں کی طرف سے یہ باور کرانا بھی تھا کہ وہ ہر اس رجحان کو تہہ تیغ کرنے کے لیے تیار ہیں، جو معاشرے میں کسی بھی بامعنی تبدیلی کا جُویا ہو۔ انجمن کے خلاف جس پیمانے پر کارروائی ہوئی، اس کو دیکھیں، تو یہ بات بجائے خود حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ادیبوں نے اس تمام جبر کے باوجود سرِ تسلیم خم نہیں کیا۔ تنظیم کے طور پر انجمن کو نقصان ضرور پہنچا، لیکن ترقی پسند ادب ایک توانا رجحان کے طور پر معاشرے میں موجود رہا۔

سوال: کچھ افراد جبر کے باعث تحریک سے الگ بھی ہوئے!
جعفر احمد: ترقی پسند ادب کے مخالفین اکثر بعض نام لے کر الزام لگاتے ہیں کہ فلاں فلاں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کیا۔ عرض یہ ہے کہ چند ایک لوگوں کی موقع پرستی کا حوالہ دے کر آپ نہ تو اپنی موقع پرستی پر پردہ ڈال سکتے ہیں، نہ ہی اس طرح آپ سب ترقی پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری کہکشاں ہے، جس نے اپنی اور اپنی اولاد کی خوشیوں اور خوش حالی کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام دوستی کا وہ راستہ اختیار کیا، جس کا صلہ صرف سزاؤں اور عقوبت خانوں کی صورت مل سکتا تھا۔کیا یہ بات ہمارے لیے باعث فخر نہیں ٹھہرتی کہ آج جب آزادی کے بعد کی تاریخ کے سب ہی فوجی آمروں پر ہر شخص تنقید کر رہا ہے، ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے، ان ادوار میں یہ صرف ترقی پسند ہی تھے، جو معتوب ہو رہے تھے، اور مزاحمت کر رہے تھے۔ کیا ہم حبیب جالب، خالد علیگ، ظہیر کاشمیری، فارغ بخاری، گل خان نصیر، شیخ ایاز اور ایسے بیسیوں ادیبوں اور شاعروں کی قربانیوں سے نظریں چُرا سکتے ہیں۔

یہ ترقی پسند ادیب ہی ہیں، جو آج بھی پاکستانی معاشرے کے حقیقی مسائل اور تضادات اپنی تحریروں میں اجاگر کر رہے ہیں۔ میں یہ بھی عرض کروں، جب ہم ترقی پسند ادب کے حوالے سے گفت گو کرتے ہیں، تو ہمیں صرف اردو زبان تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ہمارے حاشیۂ خیال میں ملک کی تمام زبانوں میں تخلیق ہونے والا ادب اور ادیبوں کی خدمات موجود رہنی چاہییں۔ میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ انجمن ملک میں سرگرم بائیں بازوں کی یا سماجی انصاف اور جمہور کی حکم رانی کے لیے مصروفِ عمل کسی ایک سیاسی جماعت کی پیروکار نہیں ہے، بلکہ یہ اُن سب تنظیموں کے ادبی وثقافتی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتی ہے۔

سوال: آج انجمن کے تحت سیمینارز تو ہوتے ہیں، مگر نہ تو ان کا آرٹس کونسل آف پاکستان اور الحمرا کی کانفرنس کی طرح چرچا ہوتا ہے، نہ ہی آکسفورڈ لٹریچر فیسٹول کے مانند لوگ ان میں شرکت کرتے ہیں؟
جعفر احمد: آپ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ انجمن کے تحت جو سیمینار اور کانفرنسیں ہوتی ہیں، ان کا چرچا آرٹس کونسل اور الحمرا کی کانفرنسوں اور آکسفورڈ لٹریچر فیسٹول کی طرح نہیں ہوتا، لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ مذکورہ ادارے لاکھوں، بلکہ کروڑوں روپے کے بجٹ کے حامل ہیں۔ لٹریچر فیسٹول میں تو اب کارپوریٹ سیکٹر بھی کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

دوسری طرف انجمن نے اپنے لیے کچھ اصول وضع کر لیے ہیں، جن کی روشنی میں نہ تو ہم سرکاری اعانت قبول کرتے ہیں، نہ ہی کارپوریٹ سیکٹر سے کسی قسم کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انجمن کے پروگرام تمام تر آپس میں جمع کردہ چندوں کے ذریعے منعقد کیے جاتے ہیں، اور چندے کے حصول کے لیے بھی ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہم صرف اپنے اُن احباب کو زحمت دیں گے، جن کی ترقی پسندی اور کردار کسی شک وشبہہ سے بالا رہا ہو۔ اس سب کے باوجود انجمن نے گزشتہ چند برس میں بہت بڑی کانفرنسیں منعقد کی ہیں۔ ہم اپنی کانفرنسوں میں بہت سادہ کھانا پیش کرتے ہیں۔

ان کانفرنسوں کے انعقاد میں ہمارے سینئر ادیب اور شاعر بھی کارکنوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ ہمارے مدعوئین بھی اپنے خرچ پر کانفرنس میں تشریف لاتے ہیں۔ گزشتہ چند برس میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی پر ہم بڑی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کر چکے ہیں، جن کو پریس میں بھی خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔

سوال: کیا خود کو ترقی پسند مصنفین کہنے والے ادیب معاشرے سے کٹ گئے ہیں، اب سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، جالب جیسی کوئی مثال سامنے نہیں آتی؟
جعفر احمد: ترقی پسند مصنفین، اگر وہ واقعتاً ترقی پسند ہیں، تو وہ معاشرے سے کٹ ہی نہیں سکتے۔ ترقی پسندی تو نام ہی معاشرے سے جڑت کا ہے۔ بجا کہ آج ہماری صفوں میں سجاد ظہیر، فیض، جالب اور قاسمی صاحب جیسے بلند قامت لوگ نظر نہیں آتے، لیکن بڑے ادیب کسی طے شدہ قاعدے یا کلیے کے تحت وجود میں نہیں آتے۔ اصل چیز ادیبوں کا اپنے کام سے مخلص ہونا، اور اپنی تخلیقات میں نئے تجربات کرنے پر قادر ہونا ہے۔ ادب کی روایت میں اُن کو کیا مقام ملتا ہے، یہ تو وقت طے کرتا ہے۔ ادیب خود کسی مقام کو سامنے رکھ کر اُس تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، تو یہ بڑا غیر فطری عمل ہوگا۔ جو سوال آپ ترقی پسند ادب اور ہمارے خطے کے تناظر میں کر رہے ہیں، یہ دنیا کے اور بھی کئی خطوں اور زبانوں کی بابت ہو سکتا ہے۔

کیا یہ درست نہیں کہ عشرے گزر گئے، انگریزی ادب میں بائرن، شیلے، ڈکنز اور برنارڈ شا جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے، روسی ادب میں پُشکن، گوگول، گورکی کے متبادل سامنے نہیں آئے۔ دوسری طرف اسی عرصے میں لاطینی امریکا اور افریقا نے ادب کو کئی بڑے نام دے دیے۔

سوال: آج بھی ایسے کتنے ہی تخلیق کار ہیں، جو سیاسی طور پر پروگریسو نظریے کے حامی ہیں، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، مسعود اشعر، انور سجاد، مگر ادب میں یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دیتے؟
جعفر احمد: یہ درست ہے، بہت سے ادیب ترقی پسند ہونے کے باوجود اب کسی تنظیم کا حصہ بننا ضروری نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے، انھیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تصور کے مطابق فیصلے کریں، لیکن ہمیں ان کے ترقی پسند ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ ہمارے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ہماری سرپرستی بھی کرتے ہیں، لیکن اگروہ انجمن کی رکنیت کا فارم پُرکرنے کو ضروری نہیں سمجھتے، تو ہم کو ان کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے، تاہم ہماری کوشش یہی رہی ہے، آیندہ بھی ہوگی کہ ہم اپنے ان سینئر ترقی پسند ادیبوں سے، جو انجمن کے رکن نہیں ہیں، راہ نمائی حاصل کرتے رہیں۔

سوال: انجمن کے نومنتخب سیکریٹری کی حیثیت سے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟
جعفر احمد: نومبر 2015 میں انجمن کے مرکزی کنونشن کے موقعے پر جو نئی ٹیم منتخب ہوئی ہے، اس نے آیندہ کے لیے کئی منصوبے بنائے ہیں۔ سوچ بچار کا کام بھی جاری ہے۔ ہماری اگلی سینٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں مختلف تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔ مذکورہ کنونشن میں انجمن کے دستور کو بھی کئی سال کی مشاورت کے بعد منظور کر لیا گیا ہے۔ دستور میں ایک ''مجلس تحقیق'' کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے، جو انجمن کی تاریخ مرتب کرنے کے علاوہ دیگر تاریخی اہمیت کی دستاویزات اور ترقی پسند تحریک کے مختلف گوشوں پر تحقیق کرے گی، یہ سب تحقیقات کتابوں کی صورت میں سامنے آئیں گی۔

اس کے علاوہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج نوجوان نسل کو ترقی پسند ادب کی طرف مائل کرنا ہے۔ ماہانہ یا ہفتہ وار ادبی نشستیں اور ان میں تنقید کے لیے افسانے اور شاعری کو پیش کرنے کا طریقہ اپنی جگہ ایک اچھی روایت ہے، لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ ان نشستوں میں گنتی کے چند لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ایسے پلیٹ فورم تشکیل دیں، جن میں نئی نسل دل چسپی لے سکے، اور یہ ادب کی طرف ان کو راغب کرنے کا وسیلہ بن سکیں۔

ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ ادبی نشستیں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی منعقد ہوں، اور اساتذہ، انجمن کے پلیٹ فارم پر متحرک ہو سکیں۔ ہم طالب علموں کے لیے تحقیق نگاری (creative writing) کے کورسز اور ورک شاپ بھی کروانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ادب کی ترسیل اور اس پر مباحثے کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے۔ جلد ہی انجمن کی ویب سائٹ بھی کام شروع کر دے گی۔

سوال: انجمن کے تنظیمی ڈھانچے، اس کی رُکنیت اور فنڈنگ کے بارے میں کچھ بتائیں گے!
جعفر احمد: انجمن کا آئین ایک جمہوری آئین ہے، جس کی رُو سے ملک کے مختلف اضلاع میں یونٹ قائم کیے جاتے ہیں۔ ہر یونٹ میں کم سے کم دس ارکان ہوتے ہیں۔ اگر دس ارکان کی تعداد پوری نہ ہو، تب بھی ایک ضلعے میں کمیٹی کی سطح کی ایک تنظیم بنائی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کمیٹی میں پانچ ارکان ہونے ضروری ہیں۔ ضلعی یونٹس کے اوپر ڈویژنل کمیٹی اور اس کے اوپر صوبائی مجلسِ عاملہ ہوتی ہے، جس میں ہر ضلعی یونٹ اپنے صدر اور سیکریٹری کے ذریعے ضلعے کی نمایندگی کرتے ہیں۔

مرکزی سطح پر ایک وفاقی کونسل ہے، جس میں صدر، سیکریٹری جنرل، ڈپٹی سیکریٹری جنرل، رابطہ سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری، فنانس سیکریٹری اور سیکریٹری مالیات، نیز تمام صوبوں کے صدور اور سیکریٹری جنرلز شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم انجمن کا ایک مرکزی سیکریٹریٹ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک مالیات کا تعلق ہے، انجمن کی رکنیت کی فیس سو روپے، جب کہ سالانہ فیس دو سو روپے ہے۔

اس فیس سے حاصل ہونے والی رقم ظاہر ہے کہ اتنی نہیں ہوتی کہ اس سے انجمن کے تمام پروگرام مرتب کیے جاسکیں، چناں چہ ہمارا تمام انحصار آپس میں جمع کردہ چندے پر ہوتا ہے۔ جہاں تک رکنیت کا تعلق ہے، مختلف وقتوں میں ہمارے یونٹس کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک ضلعے کا یونٹ اگر علمی اور ادبی اعتبار سے فعال نہ رہے، تو وہ تحلیل ہو جاتا ہے۔

اب تک کی جو صورت حال رہی ہے، اس میں کسی ایک وقت میں ملک بھر میں ہمارے یونٹس زیادہ سے زیادہ 53 ضلعوں میں قائم ہوسکے تھے۔ ان میں سے کچھ یونٹس فعال نہیں رہے، لیکن اب بھی 30 سے 35 اضلاع میں ہمارے یونٹس فعال ہیں۔ اس وقت ہماری کوشش نئے یونٹس قائم کرنے کی بھی ہے، تاہم ہم محض یونٹس کی تعداد بڑھانے ہی کے لیے کوشاں نہیں ہیں، بلکہ ہمارا زیادہ بڑا مقصد انجمن کی ترقی پسند شناخت کو اجاگر کرنا ہے۔

سوال: انجمن ترقی پسند مصنفین کے مقاصد میں کیا یہ مقصد بھی شامل تھا کہ فکشن میں واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دیا جائے؟ اگر ایسا ہے، تو ایک مخصوص انداز بیان پر اصرار جمود کی حمایت کرنا نہیں۔ اگر کوئی جدید لہر آتی ہے، تو اس سے اجتناب رجعت پسندی نہیں؟
جعفر احمد: جس زمانے میں انجمن کا قیام عمل میں آیا، اس عہد کے حالات اور واقعات بجائے خود اتنے شورش انگیز تھے کہ ان سے صرفِ نظر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسے میں واقعیت اور حقیقت نگاری کسی منصوبے کے تحت نہیں، بلکہ ایک معروضی عمل اور فطری ردعمل کا نتیجہ تھی۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انجمن کی طرف سے کسی ایک مخصوص اندازِ بیان پر کبھی اصرار بھی کیا گیا ہو۔ یہ ضرور ہے کہ جب بہت سے ادیب اپنی تحریروں میں ایک رجحان کی عکاسی کر رہے ہوں، تو بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی شعوری منصوبہ بندی کی گئی ہو۔

یہ بھی بجا ہے کہ ہر جدید ادبی لہر رجعت پسندی نہیں ہوتی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رجعت پسندی نت نئے روپ دھار کر سامنے بھی آتی رہتی ہے۔ چناں چہ ہر نئی ادبی لہر کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ لہریں جو زمانے کو آگے لے جانے کا کام کر رہی ہوں، اور نئے تخلیقی تجربات اور جدید تر اسلوب کی ہم رکابی میں آگے بڑھ رہی ہوں، ان کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔

سوال: رجعت پسندی سے آپ ادب میں کیا مراد لیتے ہیں؟
جعفر احمد: یہ واضح ہے۔ کون خودکشی کی حمایت کرے گا۔ اگر ادب میں ایسا رجحان ہے، جو زندگی کی بے معنویت کا علم بردار ہے، تو ہم اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے۔ ہم زندگی کی معنویت پر یقین رکھتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی تلخ ہو، اور اس کی بہتری کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر ادب میں زندگی کو کم تر انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جیسے شدید مذہبی طبقات میں یہ رجحان پایا جاتا ہے، تو ہم اسے قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح بنیاد پرست فکر ہے۔ فرسودہ روایات کی ترویج، تاریخ کے ارتقا کا شعور نہ ہونا، ماضی میں اپنے ہیرو تلاش کرنا، ان کا انتظار کرنا بھی اس رویے میں شامل ہے۔ اب نسیم حجازی نے اپنے ناولوں میں تاریخ ہی کے کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔

سوال: جب آپ خود کو رجعت پسندوں سے الگ کرتے ہیں، تو انتظار حسین جیسے ادیب سے خود کو دور کر لیتے ہیں، جو مین بکر پرائز کے لیے نام زد ہونے والے اردو کے پہلے ادیب ہیں!
جعفر احمد: انتظار حسین کے ہاں ہمیں ناسٹلجیا ملتا ہے۔ ماضی کی تہذیب اور روایات کا تذکرہ ہے۔ میں ناسٹلجیا کو ادب کا حصہ سمجھتا ہوں۔ پھر ان کے آٹھ دس برس کی تحریروں میں ایک اور رجحان نظر آیا ہے۔ اب وہ پاکستان اور ہندوستان کے بہتر تعلقات کے حق میں لکھتے ہیں، سیاسی حالات پر تبصرہ نظر آتا ہے۔ ان کا پچیس تیس سال پہلے جو ڈس کورس تھا، وہ اس سے باہر نکلے ہیں۔

سوال: دنیا نے ترقی کی ہے، رجحانات بدلے ہیں، نہ تو وہ روس رہا، نہ ہی برطانیہ، آج آپ کے نزدیک اردو کے ادیبوں کو کس ملک کے ادیبوں کا ماڈل سامنے رکھنا چاہیے؟
جعفر احمد: اردو اور ملک کی دوسری زبانوں کے ادیبوں کو دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور عالمی سطح پر متشکل ہونے والے رجحانات کا شعور تو ضرور ہونا چاہیے، لیکن میں ادیبوں کو کسی خاص ملک کے ادیبوں کا ماڈل سامنے رکھنے کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔ ہم دوسروں کے تجربات اور ان کی تخلیقات سے سیکھ ضرور سکتے ہیں، اور ادب میں جو تجربات دوسرے ملکوں میں ہو رہے ہیں، ان سے مستفید بھی ہوسکتے ہیں، لیکن دوسروں کے تجربات کو ایک ماڈل بنا کر اس کی تقلید کرنا اپنے تخلیقی جوہر کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔

سوال: منٹو اور قرۃ العین کو ترقی پسندوں کے حلقے سے نکالنا کیا درست فیصلہ تھا؟
جعفر احمد: سعادت حسن منٹو اور قرۃ العین حیدر کے تعلق سے ماضی میں ہمارے بعض ترقی پسند بزرگوں نے جو رائے قائم کی، اور ان کو اپنے حلقے سے دور رکھنے کی کوشش کی، اس کے غلط ہونے کا بعد کے ترقی پسندوں کی طرف سے اعتراف بھی ہوا۔ منٹو اور قرۃ العین حیدر کو ترقی پسند تسلیم کرنے میں تامل کا مظاہرہ ترقی پسندی کے ایک محدود تصور کا نتیجہ تھا۔ بعد میں جب ذرا زیادہ کشادگی کا دور دورہ ہوا، تو منٹو اور قرۃ العین حیدر کی ترقی پسندی کو تسلیم بھی کیا گیا، اور ان کے ادب کے مقام کا اعتراف بھی ہوا۔

سوال: کیا مستقبل میں ترقی پسند فکر کی تجدید کی امید رکھتے ہیں؟
جعفر احمد: ترقی پسند فکر ہر عہد میں پائی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔ آج بھی پاکستانی ادب میں ترقی پسندی کا رجحان غالب ہے۔ اور جب میں یہ بات کہتا ہوں، تو میرے پیشِ نظر پاکستان کی سب زبانوں کا ادب ہوتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ترقی پسند فکر ہی معاشرے کی صحیح عکاس ہوتی ہے، اور معاشرے کو آگے لے جانے کا داعیہ اپنے اندر رکھتی ہے۔

سوال: آپ ''ارتقا'' کے مدیر ہیں، یہ ایک سنجیدہ پرچہ ہے، علمی و ادبی حلقوںکے مانند کیا یہ عوام میں بھی اپنے قاری تلاش کرسکا؟
جعفر احمد: ''ارتقا'' جس کے اب تک 58 شمارے شایع ہوچکے ہیں، ایک ایسا علمی پرچہ ہے، جو سکّہ بند علمی و ادبی حلقوں کے علاوہ طالب علموں اور سیاسی اور سماجی کارکنوں میں بھی مقبول رہا ہے۔ آج بھی ہمیں ''ارتقا'' کے پرانے شماروں کے تقاضے موصول ہوتے رہتے ہیں۔

آیندہ بھی ''ارتقا'' اپنا یہ معیار برقرار رکھے گا، اس کی شناخت کہ یہ ادبی تنقید اور تخلیقی ادب کے علاوہ سائنس وسماجیات کا بھی احاطہ کرتا ہے، اسی نہج پر جاری وساری رہے گی۔ 89ء میں پہلا شمارہ آیا تھا۔ اس کی بنیاد رکھنے والوں میں مجھ سمیت حسن عابد، محمد علی صدیقی، راحت سعید اور واحد بشیر شامل تھے۔ راحت سعید اس سے علیحدہ ہوگئے۔ باقی صاحبان کا انتقال ہوگیا، تو اس کی ادارت میں نے سنبھالی۔ یہ سندھ اور بلوچستان کے نوجوان سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی میں مقبول ہے۔ سالانہ خریداروں اور اشتہارات سے اس پر آنے والی لاگت پوری ہوجاتی ہے۔

سوال: پاکستان اسٹڈی سینٹر، ارتقا، ترقی پسند مصنفین، تصنیف و تالیف کا سلسلہ، ٹائم مینجمنٹ میں دقت نہیں ہوتی؟
جعفر احمد: مختلف اداروں سے وابستگی، ''ارتقا'' کی ادارت اور اپنا تصنیف وتالیف کا چھوٹا موٹا کام، نیز علمی وادبی تقریبات میں اظہارِ خیال کے لیے حاضر ہونا، یہ سب کچھ خاصا مشکل ایجنڈا ہے، لیکن ایک طرف وقت کے بہتر استعمال کی سعی اور دوسری طرف اچھی ٹیم بنا کر کام کرنے کی کوشش بہ یک وقت کئی کام کرنے کا انسان کو اہل بنا دیتی ہے۔

سوال: شدت پسندی کے خلاف فوجی آپریشن تو جاری ہے، مگر کیا ہمیں اس کے خلاف ایک علمی آپریشن کی بھی ضرورت نہیں؟
جعفر احمد: شدت پسندی کے خلاف جو انتظامی اور تادیبی اقدامات ہورہے ہیں، اور جس طرح ریاست کے بعض سرکردہ ادارے متحرک ہوئے ہیں، اس کا دائرۂ کار بہت محدود ہے، اور اسی اعتبار سے اس کی نتیجہ خیزی بھی محدود ہوگی۔ اصل کام ریاست کے نظریاتی سانچے کو درست کرنا ہے۔ جب تک ہم ایک حقیقت پسندانہ، عوام دوست اور روشن خیال قومی بیانیہ(National Narrative) تشکیل نہیں دیں گے، اور اپنی پالیسیوں کو اس کا عکاس نہیں بنائیں گے تب تک معاشرتی سطح پرکسی بڑی معنوی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

سوال: آج ادبی میلے تواتر سے ہورہے ہیں، شہر شہر ہورہے ہیں، ان سے کچھ امید ہے؟
جعفر احمد: ادبی میلے لوگوں کے قریب آنے، ان کے باہمی میل جول، ادبی اور علمی کتابوں کے تعارف، غرض اس نوع کے بہت سے سود مند نتائج کے حامل ہوتے ہیں، لیکن کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان میں مختلف مکاتبِ فکر کو نمایندگی حاصل ہو۔ دوم یہ کہ اردو اور انگریزی کے علاوہ سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو اور ملک کی دوسری زبانوں میں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، اس کو بھی ادبی میلوں میں جگہ دی جائے۔ اس سے پاکستان کی علمی وادبی فضا کی صحیح عکاسی ہوسکے گی۔

سوال: پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟
جعفر احمد: پاکستان کا مستقبل ہمیشہ زیرِ بحث رہتا ہے۔ ہم نے ماضی میں جس طرح کی ریاستی پالیسیاں بنائیں، انھوں نے ملک کو داخلی وخارجی دونوں اعتبار سے کم زور کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بنیادی طور پر ہماری غلط داخلی پالیسیوں کا ہی نتیجہ تھی۔ مشرقی پاکستان کے علاوہ ملک کے دوسرے چھوٹے صوبے بھی وقتاً فوقتاً عتاب کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پھر ہم نے افغانستان میں جس مہم جوئی کا آغاز کیا، اور پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے پر آمادگی ظاہر کی، اس نے ہمیں مضبوط بنانے کے بجائے کم زور کیا۔ 9/11 کے بعد ہم ایک اور مہم جوئی کا حصہ بنے، اور نتیجہ یہ ہے کہ ملک خدشات اور اندیشہ ہائے دور دراز کی آماج گاہ بن گیا۔ پاکستان کا مستقبل ایک حقیقی جمہوری اور وفاقی ریاست ہی سے یقینی بن سکتا ہے۔ اس ریاست کا قومی بیانیہ جمہور دوستی، روشن خیالی، سیکولرازم اور سماجی انصاف کے تصورات پر استوار ہونا چاہیے، تب ہی پاکستان اپنے وجود کو یقینی بنا سکے گا۔

سوال: آج کل کس نوع کی کتابیں زیر بحث ہیں؟
جعفر احمد: مختلف کتابیں مطالعے میں رہتی ہیں۔ ابھی ہم نے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے تحت انیس ہارون کی بائیو گرافی ''کب مہکے گی فصل گل'' شایع کی ہے، جس میں جمہوری، لیفٹ اور خواتین کی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

سوال: آپ علمی حلقوں کے لیے قابل تقلید مثال ہیں، وہ شخصیات کون ہیں، جنھیں آپ قابل تقلید ٹھہراتے ہیں؟
جعفر احمد: ہمارے ہاں سبط حسن، علی عباس جلال پوری اور ڈاکٹر مبارک علی جیسے اہم قلم کار موجود ہیں، جنھوں نے کھل کر اپنی تاریخ پر تنقید کی، صحیح حقائق بیان کیے۔ ان کی علمی اور فکری سطح بہت بلند ہے۔ ان کی تحقیقی کتب ہمارا علمی اثاثہ ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ ان کا مطالعہ کریں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فورم سے ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ ان صاحبان کی کتابیں لوگوں تک پہنچائیں۔

٭ حالات زندگی
انھوں نے 1957 میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ والد، سید محمد احمد آفندی سول سرونٹ۔ بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر چھٹا۔ مطالعے کا شوق اوائل سے ساتھ۔ عائشہ باوانی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد 72ء میں ڈی جے سائنس کالج کا رخ کیا۔ وہاں سے جامعہ کراچی پہنچے۔ 83ء میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ زمانۂ طالب علمی میں لیفٹ سے ناتا جڑا۔ پروگریسو فرنٹ کا حصہ رہے۔ سید سبط حسن، ڈاکٹر ذکی حسن، پروفیسر حمزہ علوی اور ضمیر نیاز ی جیسے بزرگوں سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ ماسٹرز کے بعد پاکستان اسٹڈی سینٹر میں لیکچرار ہوگئے۔ 87ء میں ایم فل کا مرحلہ طے ہوا۔

مقالے کا موضوع ''پاکستان کے وفاقی نظام کے آئینی پہلو'' تھا۔ پھر اسکالر شپ کیمبرج یونیورسٹی لے گئی۔ پی ایچ ڈی کے بعد 93ء میں پاکستان لوٹے۔ بھٹو دور میں مرکز اور بلوچستان وسرحد کے درمیان کشمکش اُن کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا۔ کیمبرج میں رہتے ہوئے اس بحران کے آئینی اور سیاسی پہلوئوں کا مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک اس کا سبب ریاست اور بھٹو صاحب کی شدید مرکزیت پسندانہ سوچ تھی۔ 98ء میں سینٹر کے ڈائریکٹر کی ذمے داریاں سپرد ہوئیں۔ 2004 میں پروفیسر کا منصب سنبھالا۔ 98ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔

٭ قلمی سفر کی ایک جھلک
87ء میں شایع ہونے والی ''کنفیڈریشن: راہ نجات یا راہ فرار'' اُن کی پہلی کتاب۔ Federalism in Pakistan اگلی کاوش۔ تیسری کتاب ''جمہوریت کی آزمایش'' میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کو موضوع بحث بنایا۔ ''تعلیم: مسائل و افکار'' چوتھی کتاب ٹھہری۔ مرتب کردہ کتب میں Challenges of History Writing in South Asia قابل ذکر، جس میں ممتاز مورخ، ڈاکٹر مبارک علی کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ کتاب ''پاکستان کی مزدور تحریکیں'' کو بھی علمی و ادبی حلقوں نے سراہا۔ ''محنت کشوں کے نام شاعری'' کی خاصی پزیرائی ہوئی۔ اس میں کئی ایسے شعرا کا کلام ملتا ہے، جو ترقی پسندوں کی صف میں شامل نہ تھے۔ ضمیر نیازی کی آخری کتاب Fettered Freedom بھی اُن ہی کی مرتب کردہ۔ ''ڈاکٹر فیروز احمد کے مضامین''، ''پروفیسر سید محمد نصیر کے مضامین'' اور ''حمزہ واحد اور جہدِ حیات'' اور معروف ترقی پسند ادیب اور شاعر، حسن عابدی کی آپ بیتی ''جنوں میں جتنی بھی گزری'' بھی قابل ذکر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔