قدرو قیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دشمن ہر دم نقصان پہنچانے کے در پر رہتا ہ


Naseem Anjum February 07, 2016
[email protected]

اقبال نے گردش زمانہ اور ارض سماوی آفات کو دل و دماغ میں سما کر کہا تھا کہ:
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں بجلیاں ہیں، قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادر ایّام ہیں
کلبد افلاس، دولت کے کاشانے میں موت
دشتِ ودر میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نے مجالِ شکوہ ہے، نے طاقت ِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، ایک طوقِ گلو افشار ہے

اقبال کے زمانے میں خودکش حملے اور بم بلاسٹ نہیں ہوتے تھے اموات طبعی یا غیر طبعی ہوا کرتی تھیں، جنگوں، زلزلوں اور قحط کی وجہ سے، زندگی موت میں بدل جاتی تھی لیکن اب زمانہ اور زمانے کی قدریں بدل گئی ہیں۔ جنگ کے طور طریقے اسلحے کی تباہ کاریوں کا طرز تبدیل ہوگیا ہے، ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ زمانہ کہلاتا ہے لیکن انسانیت زوال پذیر ہے، ماحول حبس زدہ ہے گھٹن نے دلوں میں بھی قبضہ جمایا ہے اور اطراف میں بھی۔

کیا پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر، علامہ اقبال نے آج کے پاکستان کا سپنا دیکھا تھا؟ قائد اعظم نے ایسے خون آلودہ پاکستان کو تعبیر دی تھی۔ قائد اعظم اور ان کے رفقاء کار نے مسلمانوں کو انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفرازکرنے کی کوشش کی تھی، لیکن چند سالوں سے کچھ الٹ ہوگیا ہے وہ تو اللہ کا بڑا ہی کرم ہے کہ پاکستان کو استحکام بخشنے اور عوام کے تحفظ کے لیے فوج کو ایک ایسے سپہ سالار کی قیادت مل گئی کہ جن کی حکمت عملی نے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا عزم صمیم کرلیا ہے۔

جنرل راحیل شریف کی نیک نیتی اور وطن و مذہب سے محبت کی بنا پر آج نہ کہ ہمارا ملک بلکہ اس کی رعایا بھی محفوظ ہے، اللہ نے ضرب عضب کی کامیابی کی بدولت دشمنوں کو نیست و نابود کردیا ہے بے شک نیت نیک اور منزل آسان ہے۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دشمن ہر دم نقصان پہنچانے کے در پر رہتا ہے، وہ خون کی ہولی کھیل کر انتقام کی آگ کو سرد کرتا ہے لیکن انتقام کس بات کا؟ پاکستان کی طرف سے کبھی بھی کسی موقعے پر کسی بھی بے قصور انسان یا ادارے کو نقصان پہنچانے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی گئی، ہمیشہ سے ہی صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا گیا، لیکن ہمارے دشمنوں کو اب بھی سکون نہیں ہے، ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے کی تعریف بھی کرتے اور دوسری طرف مزید توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان مسلسل حالت جنگ میں رہے کہ ان کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان پھل پھول نہ سکے، صدر اوباما، مودی سرکار اور افغانستان کی یہی پالیسی رہی ہے، امریکی صدر اوباما نے حال ہی میں بے اطمینانی کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار مزید ادا کرے بھارتی دہشت گردی کے بارے میں ان کی کوئی رائے یا مشورہ سامنے نہیں آتا چونکہ تخریب کاری کا شکار ہونے والے کوئی دوسرے نہیں مسلمان ہی ہیں۔ ''را'' اور اس جیسی تنظیمیں پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اللہ نے چاہا تو یہ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچیں گی۔

16 دسمبر کوگزرے ایک سال ہی ہوا ہے، اس دلخراش واقعے کو ابھی کوئی بھول نہ سکا تھا بلکہ شہدا کی برسی والے دن ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو رویا اور تڑپا تھا۔ ان معصوم پھول جیسے بہادر بچوں کے لیے جن کا کوئی قصور نہ تھا، وہ علم کے راستوں کے مسافر تھے حق کی راہ کے راہی تھے، سچ کی تلاش میں سرگرداں تھے، اپنے گھروں سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اسکول کی راہداری میں خراماں خراماں چلے جا رہے تھے، ہر غم، ہر فکر سے آزاد ہوکرکہ انھیں آگہی کے چراغوں کو پوری روشنی کے ساتھ جلانا اور دیے سے دیا روشن کرنے کی روایت کو آگے بڑھانا تھا۔

ان کے کاندھوں پر کامیابی کے خزانے کی کنجی بستے کی شکل میں جھول رہی تھی اس بستے میں لنچ باکس بھی تھا اور پانی کی بوتل بھی، انھیں نہیں معلوم تھا کہ انھیں کھانا پینا نصیب نہیں ہوگا اور ماں باپ، بہن بھائیوں سے ان کی ملاقات آخری ثابت ہوگی، وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ انھیں بے دردی سے قتل اس طرح کیا جائے گاکہ کربلا کی یاد تازہ ہوجائے گی اور پھر ہر گھر سے نوحے کی آواز بلند ہوگی، لیکن نہیں یہ شہدا کے والدین تھے، بھلا شہادت کی موت پر کون روتا ہے؟ وہ تو جنت کے باغوں اور خوشنما پھولوں کا نظارہ کرنے کے لیے سفر آخرت پر روانہ ہوئے تھے۔

باچا خان یونیورسٹی کے طلبا پر فائرنگ کرنے والے بھی 16 دسمبر کے قاتلوں کی طرح مسلمان تو دور کی بات ہے انسان بھی نہیں تھے جنھوں نے ٹھیک ایک سال 4 دن بعد 20 جنوری 2016 کو دھماکوں اور فائرنگ کے ذریعے قوم کے معماروں اور وطن عزیز کے جری اور بہادر سپوتوں کو ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سلادیا۔ خود جہنم کے حقدار ۔ علامہ اقبال نے ان کے لیے ہی کہا تھا:

اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں

اور شہدا جنت کے اعلیٰ درجات پر پہنچ گئے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، شہید کبھی نہیں مرتا، وہ تاقیامت زندہ رہے گا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔باچا خان یونیورسٹی کے شہیدوں کی تعداد 21 اور زخمی 30 تھے۔ تعلیمی اداروں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے گزشتہ سال سے ابتدا کردی ہے اور دوسرے اداروں کو جن میں اسکول، کالج، یونیورسٹیاں شامل ہیں انھیں بھی تھریڈ مل رہی ہیں۔

لیکن قابل فخر بات یہ ہے کہ ہماری بہادر فوج اور بہادر عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ مزید بلند ہوگئے ہیں اور دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا بھی عزم ہے جو نغمے کی شکل میں نظر آتا ہے، یہ بات شاعری کے انداز تخاطب میں اس لیے کہی گئی ہے کہ کہیں دشمن کی پروان چڑھنے والی نسلیں اپنے آباؤ اجداد کو دیکھ کر راہ راست سے بھٹک نہ جائیں۔ بہرحال یہ تو یوں ہی نغمہ یاد آگیا ہے۔

ورنہ پاکستان میں بسنے والے ہر شخص کی آنکھ جواں سالہ اموات نے نم کردی ہے کہ مادر علمی سے استفادہ کرنے والے طلبا کا خون بے دریغ بہایا جا رہا ہے اور بوڑھے والدین کو بے سہارا، بے یارو مددگار کردیا گیا، ان کے بچے ان کا ''کل'' تھے جو انھیں ہر طرح سے سہارا دیتے ان کی دیکھ بھال کرتے والدین اپنے بیٹوں کے سروں پر سہرا باندھنے اور آنے والے ننھے بچوں کے خواب دیکھتے اور ایک دن یہی خواب تعبیر کی شکل اختیار کرلیتے، لیکن افسوس دادا دادی بننے اور اپنی اولاد کا روشن مستقبل دیکھنا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔

سانحہ پشاور کے بعد دوسرے المیے کا جنم پریشان کن اور حیرت انگیز ہے کہا گیا باچا خان یونیورسٹی میں سیکیورٹی کا نظام ناقص تھا؟گارڈ اور پولیس کے روکنے کے باوجود وہ اس قدر آسانی کے ساتھ اپنا کام کرگئے، یہ وہ موقع تھا کہ باچا خان یونیورسٹی میں مشاعرہ ہو رہا تھا، باچا خان کی برسی تھی، بڑی تعداد میں لوگ آئے ہوئے تھے، تین ہزار طلبا اور 600 مہمان، اس خاص موقعے پر سیکیورٹی گارڈز کو عقب میں متعین کرنے کی ضرورت تھی، دھند اورکھیتوں کی اوٹ سے انھوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔

جانے والے دور بہت دور چلے گئے، زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنوں کی آنکھوں سے دور ہیں، اقبال نے کہا تھا:

موت تجدیدِ مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
کہتے ہیں اہل جہاں، دردِ اجل ہے لادوا
زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

یقینا وقت زخموں کا بہترین مرہم ہے آہستہ آہستہ زندگی معمول کے مطابق آجائے گی کہ شہیدوں کے رفقا اور ان کے اپنے موت کے رتبے سے اچھی طرح واقف ہیں، جس کا اظہار علامہ نے اس طرح کیا ہے:
نظر اللہ پر رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے؟ فقط عالمِ معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں