انجان قاتل بے قصور مقتول
قتل کی سزا ہر ملک میں سخت ترین ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا سفاک امر ہے کہ جس کی معافی ناممکن ہے۔
HYDERABAD:
قتل کی سزا ہر ملک میں سخت ترین ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا سفاک امر ہے کہ جس کی معافی ناممکن ہے۔ ہمارے مذہب میں قصاص و دیت کے معاملات بھی اسی معافی کے سلسلے میں ایک ایسی سہولت ہے جس کی ادائیگی کئی بار پورے خاندان کے لیے شدید ہوکر احساس دلاتی رہتی ہے کہ جرم کس قدر شدید اور وبال تھا۔ یہ سزا کا طریقہ بھی ہمارے مذہب کی خوبصورتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی مشہور کیس اسی قصاص کے ذریعے حل ہوئے ہیں، مثلاً امریکی ریمنڈ ڈیوس کا کیس اور شاہ زیب قتل کیس جس میں بھاری قصاص ادا کرکے جان چھڑوائی گئی۔
دراصل قتل وہ ہیں کہ جن کے بارے میں ملزم اور مقتول دونوں بخوبی واقف تھے ایک یہ کہ وہ کسی کو جان سے مار رہا ہے یا کوشش کر رہا ہے یعنی ظالم دوسرا وہ مظلوم جو اپنی جان بچاتے بچاتے بھی ہار جاتا ہے لیکن کئی قتل ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے مارنے والے اور مرنے والے ایک دوسرے سے واقف بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس امر سے واقف ہوتے ہیں کہ جو وہ کر رہے ہیں اس سے کسی کی جان جاسکتی ہے یا چلی گئی اور بظاہر سزا کے زمرے میں نہیں آتے لیکن اس سزا کا تعلق زمینی قانون کے حوالے سے ہے جب کہ ایک بڑی عدالت تمام مجرموں کے جرائم کو خوب دیکھ رہی ہے، چاہے ہم کتنے ہی انجان بنے رہیں۔
ان کے دو بچے ہیں، ایک مقامی دوائیوں کی کمپنی میں ملازم ہیں، اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں، کورنگی سے واپسی پر لیاقت آباد کے طویل فلائی اوور برج سے اپنی اسکوٹر پر سوار گزر رہے تھے، قوانین ٹریفک سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا سر پر ہیلمٹ بھی پہنا ہوا تھا۔ توجہ پوری طرح سے ٹریفک کی جانب تھی کہ اچانک انھیں اپنے گلے پر ہلکی سی چبھن کا احساس ہوا یہ چبھن مزید شدید ہوئی اور پھر جیسے گلے سے لے کر سینے تک اندر ہی اندر کپڑے بھیگتے محسوس ہوئے۔ یہ کپڑے بارش یا کسی اور طرح کے پانی سے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی خون سے بھیگ رہے تھے۔
شام ابھی اتنی گہری بھی نہ تھی کہ سرخ سرخ بہتا ہوا خون نہ نظر آسکے، پل کے کہیں اطراف سے آتی شیشے سے زیادہ تیز دھار والی ڈور ہیلمٹ کی حفاظتی باندھنے والی بیلٹ تک کاٹ کر اپنا کام دکھا چکی تھی، ماں کی دعائیں بچوں کی صدائیں عرش بریں تک پہنچیں۔ بھاگم دوڑی ہوئی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں زندگی منتظر تھی اور ڈاکٹروں کی بروقت امداد نے ڈوبتی زندگی کی ڈور کو خدا کے فضل سے دوبارہ جوڑ دیا۔ کئی ٹانکے لگے اور ایک انسان اپنے خاندان کے درمیان زندہ لوٹ آیا، لیکن جس درد جس کرب و اذیت سے ان کے پورے خاندان والے گزرے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس اقدام قتل کا مجرم کون ہے؟ کیا اس کی بھی کوئی سزا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اٹھتا رہا ہے قوانین سخت بھی کردیے گئے لیکن پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔
اس طرح کے نجانے کتنے واقعات ہمارے اردگرد پیش آتے رہتے ہیں لیکن ہم اسے صرف واقعے کی طرح ایک دوسرے سے بیان کردیتے ہیں اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ پتنگ بازی ایک دلچسپ مشغلہ ہے، اس کی تاریخ انسانی تاریخ کی طرح خاصی پرانی ہے، اسی طرح آسمان پر پتنگ اڑاتے اڑاتے انسان نے جہاز اڑا دیے لیکن ایک دلچسپ اور قدیم مشغلے کو چند منافع خور اور خودغرض انسان اس وقت خطرناک اور ہولناک بنادیتے ہیں جب وہ زیادہ مقبول اور سب کو پیچھے چھوڑ دینے کے مرض میں لوگوں کو کچھ اس طرح مبتلا کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح کی خطرناک ڈور کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔
سننے میں آیا ہے کہ اس طرح کی ڈور پر خطرناک قسم کے کیمیکل لگا کر اس کی تیزی یعنی دوسری ڈوروں کو کاٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے بچے سے جب ڈور کے بابت پوچھا تو اس نے نہایت معصومیت سے بتایا کہ لال ڈور ایسی ہوتی ہے کہ ایک بار پتنگ اڑاتے اڑاتے میری اپنی انگلی کٹ گئی تھی اور جب میں نے حفاظتی پلاستر جو عام طور پر بازار میں دستیاب ہوتا ہے لگا کر دوبارہ پتنگ اڑائی تو وہ پلاسٹر تک کٹ گیا، اسی طرح کالے رنگ کی ڈور بھی بہت سخت ہوتی ہے اس میں نائیلون کا باریک تار استعمال کیا جاتا ہے تاکہ کوئی دوسری پتنگ باآسانی کٹ جائے۔
ذرا تصور کریں کہ گلے کی باریک کھال اور ہاتھ کی کھال میں کتنا فرق ہے۔ یہ فرق اور بھی شدت اختیار کرلیتا ہے جب اس پر لمبائی اور ہوا کے دباؤ کے باعث صورتحال تلوار جیسی کاٹ اختیار کرلیتی ہے۔ ایک معصوم شخص کے گلے پر وار کرنے والی پتنگ کی ڈور کس جانب سے آرہی تھی۔ کسی گھر کی چھت سے، پل کے اطراف کے میدان سے یا شاید کہیں اور سے لیکن یہ سیدھا سادا اقدام قتل کا کیس ہے۔
ایک ایسے انسان کے خلاف جو بخوبی واقف ہے کہ اس طرح کی ڈور بنانا خلاف قانون ہے کہ جس سے کسی بھی انسانی جان کے ضیاع کا امکان ہے لیکن یہ مقدمہ درج کرنے والا کون ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ایک چھوٹے سے بچے کی گردن پر اسی طرح کی ڈور پھر جانے سے موت واقع ہوئی تھی، یہ بچہ اپنے ہی گھر کی چھت پر بظاہر تو محفوظ ہی تھا لیکن ایک انجانی سمت سے آنے والی ڈور نے اسے اتنا غیر محفوظ کردیا کہ اس کی جان ہی چلی گئی۔
ایک واویلہ اٹھا اور پتنگ بازی پر ممانعت بھی عائد کردی گئی۔ لیکن ہمارے اپنے اس باوقار معاشرے میں اتنا شور اٹھا کہ اب کھلے عام آسمانوں پر رنگ برنگی پتنگوں کا ایک میلہ سا نظر آتا ہے، ایک بڑے قد کے شاعر کے بڑے قد کے فن کار و استاد و داماد نے اس پر بڑی دلچسپ بات کہی تھی کہ اگر کوئی انجوائے کرنا چاہتا ہے اس (بسنت) خوبصورت موسم میں موج مستی کرنا چاہتا ہے تو کرنے دیں اور اگر ایک آدھ چھوٹا موٹا ایسا واقعہ ہوجائے تو ویسے بھی تو آئے دن اتنے حادثے ہوتے رہتے ہیں ان پر تو پابندی نہیں لگائی جاتی، لوگوں کو خوش ہونے دیں ان پر پابندی نہ لگائیں۔
جب میرے دل میں درد اٹھتا ہے تو ساری دنیا زہر لگنے لگتی ہے اور جب میں تنہائیوں میں گھر جاتی ہوں تو ساری دنیا کی خوبصورت چہچہاہٹیں بدصورت لگنے لگتی ہیں، لیکن جب ہم خوش ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے کیا سب کو بھی خوش ہونا چاہیے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اپنا درد ہی اپنا لگتا ہے، ان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ جن کے گھروں میں کہرام مچتا ہے، حکومت کو چاہیے یا نہیں لیکن ہم سب کو چاہیے تمام ریڈیو اور ٹی وی چینلز اور اخبارات و رسائل میں خاص کر بسنت کے موسم میں اشتہارات دیں لوگوں کو بار بار سنائیں احساس دلائیں کہ پتنگ اڑائیں لیکن تلواری دھاگوں والی ڈور نہ استعمال کریں، اتنا تو کم ازکم ہم کرسکتے ہیں۔