نریندر مودی کی داؤد ابراہیم سے ملاقات
انھوں نے کہا ہے کہ ان کا دورہ پاکستان بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور بھارتی عوام کی مرضی کے خلاف تھا
بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک وزیر، اعظم خان نے دعویٰ کیا بلکہ شرارت کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 25 دسمبر 2015 کو اپنے اچانک پاکستان کے دورے کے وقت لاہور میں نواز شریف کے گھر میں بھارتی حکومت کو انتہائی مطلوب مجرم داؤد ابراہیم سے ملاقات کی تھی۔
انھوں نے کہا ہے کہ ان کا دورہ پاکستان بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور بھارتی عوام کی مرضی کے خلاف تھا۔ مودی داؤد ابراہیم سے ملاقات سے لاکھ انکار کریں مگر ان کے پاس اس ملاقات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جنھیں وہ وقت آنے پر عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔ اعظم خان کے اس بیان یا شرارت نے بھارت میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
بھارتی جنتا پارٹی کے ترجمان نے اعظم خان کے دعوے کو لغو قرار دے کر اسے مسترد کردیا ہے ساتھ ہی سماج وادی پارٹی سے انھیں فوراً وزارت سے ہٹانے کی مانگ کی ہے جب کہ کانگریسی ترجمان نے کہا ہے کہ اعظم خان ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جب ان کے پاس باقاعدہ ثبوت موجود ہے تو پھر ان کے بیان میں ضرور سچائی ہوگی۔ اعظم خان پرانے رکن پارلیمنٹ ہیں وہ رامپور کے رہنے والے ہیں اور اپنے حلقے سے آٹھ مرتبہ اترپردیش اسمبلی کے لیے منتخب ہوچکے ہیں۔
وہ اب تک چار پارٹیاں بھی بدل چکے ہیں اس وقت یوپی کی حکمراں سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیر ہیں۔ ان کے بولڈ بیانات اکثر بھارتی میڈیا میں زیر بحث رہتے ہیں۔ انھوں نے ہی چند ماہ قبل یہ بولڈ بیان دیا تھا کہ کارگل کی جنگ میں ہندوؤں نے نہیں بھارتی مسلمان فوجیوں نے بھارت کو فتح دلوائی تھی۔ اعظم خان کے اس بیان کو میڈیا میں خوب اچھالا گیا تھا اور انھیں ہندوؤں سے نفرت کرنے والا انسان قرار دیا گیا تھا۔
بھارتی جنتا پارٹی کے کئی رہنماؤں نے بھی اعظم خان کے اس بیان کو بھارت دشمنی قرار دے کر اتر پردیش حکومت سے انھیں فوراً برخاست کرنے اور ان پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کے قتل عام پر حسب روایت بھارتی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے اس قتل میں ملوث بھارتی جنتا پارٹی کے دہشتگردوں کو فوراً گرفتار کرکے انھیں پھانسی دینے کا پرزور مطالبہ کیا تھا۔
ان کے اس مطالبے کو بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں نے ہندوؤں سے انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔ اب ان کے نواز شریف کے گھر میں داؤد ابراہیم سے مودی کی ملاقات والے بیان نے نریندر مودی کی شخصیت کو متنازعہ بنادیا ہے ۔دراصل گزشتہ بیس برسوں سے داؤد ابراہیم بھارت کے لیے انتہائی مطلوب مجرم بنے ہوئے ہیں۔ ہر بھارتی حکومت ان کے پاکستان میں چھپے ہونے پر اصرارکرتی رہتی ہے جب کہ ہر پاکستانی حکومت اس سے انکاری ہے۔
25 دسمبر 2015 کو جب نریندر مودی پاکستان کا اچانک دورہ کرنے آرہے تھے تو بھارت کی کئی سیاسی پارٹیوں نے ان کے اس اچانک دورے کو بلاضرورت قرار دیا تھا مگر ساتھ ہی انھوں نے اس دورے کی کامیابی کو داؤد ابراہیم کو بھارت واپس لانے سے مشروط کیا تھا۔ دراصل اس وقت بھارت میں داؤد ابراہیم ایک اہم موضوع بنے ہوئے تھے ہر جگہ ان کا ہی چرچا تھا۔ میڈیا سے لے کر بھارتی لوک سبھا تک میں ان کو کہیں سے بھی گرفتار کرکے بھارت لانے پر زور دیا جا رہا تھا۔
چنانچہ ایسے ماحول میں مودی کے اچانک دورہ پاکستان کے قصد کو بھارتی رہنما اور میڈیا داؤد ابراہیم کو بھارت واپس لانے کی ان کی ایک کوشش خیال کر رہے تھے۔ اس وقت راقم نے اپنے کالم میں نریندر مودی کے اچانک دورہ پاکستان کو ان کا اچانک چھاپہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ مودی کا اچانک میاں نواز شریف کے گھر آنا کہیں کسی بھارتی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر داؤد ابراہیم کی تلاش کا حصہ تو نہیں ہے؟
مزید یہ بھی لکھا تھا کہ اتفاق سے اسی شہر میں بھارت کو ایک اور موسٹ وانٹڈ پاکستانی حافظ سعید بھی رہتے ہیں ہوسکتا ہے مودی جی ان کی بھی ٹوہ لینے لاہور آئے ہوں مگر مودی جی اور بھارتی سیاسی پارٹیوں کو کون سمجھائے کہ نہ تو داؤد ابراہیم پاکستان میں رہتے ہیں اور نہ ہی حافظ سعید ممبئی حملوں میں کسی طرح ملوث ہیں وہ تو صرف کشمیریوں کی آزادی کے علمبردار ہیں اور بھارتی حکومت انھیں اسی جرم کی سزا ممبئی حملوں میں زبردستی گھسیٹ کر دینا چاہتی ہے۔
دراصل داؤد ابراہیم کے معاملے کو نریندر مودی سے اس لیے بھی زیادہ جوڑا جا رہا ہے کیونکہ مودی اپنے انتخابی جلسوں میں داؤد ابراہیم کو بھارت کا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر انھیں گرفتار کرکے بھارت لاکر قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کرتے رہے تھے۔
داؤد ابراہیم پر ہر بھارتی حکومت یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ انھوں نے 12 مارچ 1993 کو ممبئی اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ میں پے در پے کئی بم دھماکے کراکے نہ صرف عمارت کو تباہ کردیا تھا بلکہ بھارتی معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ اب مودی حکومت انھیں گرفتار توکرنا چاہتی ہے مگر آج تک کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس ملک میں موجود ہیں۔ چند دن قبل بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر ''را'' کی مدد کے لیے داؤد ابراہیم کے چار پتے لکھے تھے مگر یہ تمام کے تمام بوگس تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم کو تلاش کرنا ''را'' کی تو ایک ضرورت ہے مگر بی بی سی اس سلسلے میں آخر کیوں بے چین و بے قرار ہے۔ اسے داؤد ابراہیم سے کیا لینا دینا ہے۔ داؤد ابراہیم بھارت کے مجرم ضرور ہوسکتے ہیں مگر انھوں نے برطانیہ کا تو کوئی نقصان نہیں کیا۔ دراصل برطانوی میڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں ایک عرصے سے یہ شکایت آرہی ہے کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس کی ایم سکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کئی پاکستانی مطلوب افراد کو پناہ دی ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرکے آئی ایس آئی کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے اور ملک میں موجود بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور انھیں ملک سے باہر کرنے پر غوروغوض کیا گیا۔ آئی ایس آئی اپنے قیام سے ہی ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے بھرپور کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے مگر چند سالوں سے ملک میں بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بڑھنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اس وقت ملک میں دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔
اس بات کی تصدیق اس طرح بھی ہوجاتی ہے کہ ایک یورپی ملک کی قومی اسمبلی میں ایک ممبرکی جانب سے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کے افراد کی پاکستان میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ چنانچہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کو ملک کو غیر ملکی ایجنسیوں سے پاک کرنے کا نیا ٹاسک دے دیا ہے ساتھ ہی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشان دہی کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ آئی ایس آئی دنیا کی سب سے فعال اور کامیاب انٹیلی جنس ایجنسی ہے امید ہے کہ وہ غیر ملکی مداخلت سے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا روایتی کردار ادا کرکے سرخرو ہوگی۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ صحافیوں اور دانشوروں کے دشمن کے آلہ کار بننے کی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں ان لوگوں کو ٹی وی چینلز اور اخبارات تک رسائی حاصل ہے وہ دشمن ملک کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں کشمیر کو غیر اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں اور تعلیمی نصاب کو سیکولر بنانے پر زور دیتے رہتے ہیں۔
عوام نے ان لوگوں کی شناخت کرلی ہے اب حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان آستین کے سانپوں کا گھیرا تنگ کرے تاکہ وہ ہمارے قومی تشخص اور نظریے کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں۔ جہاں تک اعظم خان کے دعوے کا تعلق ہے اس نے بھارتی سیاست میں ضرور زلزلہ برپا کردیا ہے مگر یہ خالصتاً بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اس ضمن میں ہماری وزارت خارجہ کو کسی قسم کے بیان جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہماری جانب سے کسی بھی صفائی یا وضاحت کو وہاں بھارت دشمنی سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔