منزل مراد
طالبان اپنے فہم اسلام کے بارے میں کمزور حوالوں کو پیش کرتے ہیں اوربندوق کی زبان میں بات کرنا درست قرار دیتے ہیں۔
مذہبی انتہاپسندی،فرقہ واریت، متشدد رجحانات کا فروغ اور دہشت گردی کا عفریت، قومی یکجہتی، ملکی بقا و سالمیت اور معاشرے کے امن کے لیے سب سے بڑاخطرہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و ارض میں کہیں بھی دہشت گردی کی جب بھی کوئی ہلاکت خیز واردات ہوتی ہے تو نہ صرف تمام مکاتب فکر کی جانب سے اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اکابرین کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے حکومت پر دبائو بھی بڑھ جاتا ہے اور بیرون وطن سے بھی ''ڈو مور'' کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سوات کی 14 سالہ معصوم ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور تحریک طالبان کی جانب سے اس کی ذمے داری قبول کرنے اور دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکیوں کے بعد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے اس دلخراش سانحے کو بھرپور طریقے سے عوام الناس تک پہنچایا اور آج چہار جانب سے دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے باکو میں اقتصادی تعاون تنظیم کے 12ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ ''دہشت گرد عناصر کو مل کر شکست دینا ہوگی، ہمارے بچوں پر حملہ ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے، دہشت گردوں کا ملالہ یوسف زئی پر حملہ درحقیقت پاکستان پر حملے کی کوشش ہے، ملک میں بچیوں کی تعلیم کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔'' قبل ازیں وزیراعظم راجہ پرویز نے ملالہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کا اصل چہرہ قرار دیا اور کہا کہ انتہا پسندوں کو یہ چہرہ مسخ نہیں کرنے دیں گے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ملالہ پر حملے کی شدید مذمت کی اور فوج سے طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اب قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انھیں طالبان کا پاکستان چاہیے یا قائداعظم کا، ملک کے تمام اہم سیاسی و مذہبی رہنمائوں، تنظیموں اور عام لوگوں نے بھی ملالہ پر حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر حکومت کی جانب سے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے تناظر میں قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جانی تھی تاکہ عوامی نمایندوں کے اتفاق رائے سے اسے منظور کروا کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ممکن بنایا جاسکتا لیکن مسلم لیگ ن کے رویے کے باعث مجوزہ قرار داد پیش نہ کی جاسکی۔ دراصل مسلم لیگ ن شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ حالانکہ یہ قومی بقا، ملکی سالمیت اور امن کے قیام کا اہم معاملہ ہے جس پر دو رائے نہیں ہوسکتی۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں تو اس حوالے سے پوری طرح متحد و متفق ہیں لیکن ن لیگ کے رہنما تاویلیں پیش کرکے ایک اہم ترین قومی مسئلے پر اتفاق رائے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور واضح حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔
ملک کی عسکری قیادت بھی ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد دہشت گرد اور انتہاپسند عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کررہی ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈروں کے حالیہ اجلاس میں اس حوالے سے غوروخوض کیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مذکورہ فوجی اجلاس میں شمالی وزیرستان میں مجوزہ فوجی آپریشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کے بیرونی دبائو کو قبول نہ کرنے اور ہر قیمت پر ملکی مفاد کو مقدم رکھ کر فیصلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے جو یقیناً ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مجوزہ فوجی آپریشن پر عسکری و سیاسی قیادت میں ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد پر بھی غور کیا جارہا ہے جس کی صدارت وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کریں گے تاہم اس ضمن میں حتمی فیصلہ صدرآصف علی زرداری اور وزیراعظم کی وطن واپسی پر ہی کیا جائے گا۔
اگرچہ شمالی وزیرستان میں مجوزہ فوجی آپریشن کے حوالے سے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق رائے کے حصول کے لیے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ درست سمت میں مثبت اقدام ہے۔ ملک میں امن کے قیام اوردہشت گردی، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے خون ریز واقعات کی روک تھام کے لیے ہر وہ اقدام کیا جانا چاہیے جو قومی مفاد میں ضروری ہو اور جس پر ملک کے اکابر سیاسی و مذہبی رہنما متفق ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ بظاہر یہ ایک مشکل ٹاسک ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک واضح طور پر لبرل اور انتہاپسند دو واضح حلقوں میں تقسیم ہے۔ ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ایسے رجحانات کو فروغ ملا اورجہاد افغانستان نے متشدد مذہبی انتہا پسندی کو جلا بخشی اور طالبان کو جنم دیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
اگرچہ مذہبی حلقے بظاہر دہشت گردی، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتے ہیں لیکن جب ایسے سفاکانہ واقعات کے پس پردہ عناصر علی الاعلان ان واقعات کی ذمے داری قبول کرتے ہیں جیسا کہ تحریک طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمے داری قبول کی تو مذہبی رہنما ایسے لوگوں کے خلاف فوجی کارروائی کے اقدام کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کرتے ہیں اور مختلف تاویلوں اور دلائل کا سہارا لے کر اپنے موقف کو درست ثابت کرنے پر مصر رہتے ہیں جیسا کہ طالبان اپنے فہم اسلام کے بارے میں کمزور حوالوں کو جواز بناکر پیش کرتے ہیں اور اپنے احکامات کی ہر قیمت پر تعمیل کے لیے بندوق کی زبان میں بات کرنا درست اقدام قرار دیتے ہیں۔
ملالہ پر حملہ طالبان کی اسی سوچ کا عکاس ہے۔ ملالہ کا قصور کیا تھا، یہی نا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں تھی اور طالبان کے مذہبی عقائد و نظریات کی مخالفت کرتی تھی۔ ملک میں بائیں بازو کا حلقہ بھی طالبان کے نظریات کا مخالف ہے۔ مجوزہ کانفرنس میں بھی بائیں بازو کی جماعتیں تو ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے حق میں ووٹ دیں گی لیکن مذہبی جماعتوں اور مذہبی رحجانات رکھنے والی بعض سیاسی جماعتوں کو شمالی وزیرستان میں مجوزہ فوجی آپریشن کے لیے آمادہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا لیکن ملالہ کے ''یقین محکم'' اور حکومت و اتحادی جماعتوں اور پاک فوج کے ''عزم صمیم'' کی بدولت یہ قوم جلد ''منزل مراد'' (قائداعظم کا پاکستان) پائے گی۔ انشاء اﷲ۔