دوعملی
نفتالی حیران تھاکہ وہ تواپناکام ختم کرکے سویا تھا۔ پھر اسے رات گئے زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے
مینی نفتالی کواٹرمیں آرام سے سویا ہوا تھا۔سارادن وزیراعظم کے گھرمیں مہمانوں کوکھانااورچائے پلاپلاکر تھک چکاتھا۔اسے کئی دنوں کے بعد چندگھنٹے کی نیند دنوں بعد میسر آئی تھی۔رات3بجے اچانک دروازے پردستک ہوئی۔ ہڑبڑاکراُٹھا تو بتایاگیاکہ وزیراعظم کی اہلیہ سارہ نے طلب کیا ہے۔
نفتالی حیران تھاکہ وہ تواپناکام ختم کرکے سویا تھا۔ پھر اسے رات گئے زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے۔بہرحال کپڑے بدل کر حسب الحکم باس کی اہلیہ کے سامنے پیش ہو گیا۔ خاتون اوّل آگ بگولہ تھی۔ڈرتے ڈرتے نفتالی نے پوچھاکہ اس کے لیے کیاحکم ہے، سارہ اورغصے میں آگئی۔ اس نے گھریلوسرکاری ملازم نفتالی کوخوب گالیاں دیں۔ پوچھنے لگی کہ آج تم نے وزیراعظم ہاؤس کے لیے دودھ کہاں سے خریدا تھا۔سوال نفتالی کے لیے حیران کن اورغیرمتوقع تھا۔
جواب بہت سادہ ساتھا۔ مارکیٹ سے۔ خاتون انتہائی غصے سے نفتالی کو کچن میں لے گئی۔کہنے لگی کہ تم نے پلاسٹک کے ڈبے والا دودھ خریداہے۔ تمہیں گتے یاکاغذکے ڈبے والا دودھ خریدنا چاہیے تھا۔نفتالی ایک پڑھالکھاانسان تھا۔کہنے لگا کہ ان دونوں میں توکوئی فرق نہیں۔دودھ کامعیارتودونوں ڈبوں میں یکساں ہے۔گتے کے ڈبے والابھی اورپلاسٹک کے ڈبے والا بھی۔خیرخاتون اوّل کے لیے یہ جواب قابل قبول نہیں تھا۔ سارا غصہ ملازم پرنکال دیا۔
نفتالی کوایسے لگاکہ وہ ایک انسان نہیں بلکہ کیڑاہے اوراس کی کوئی وقعت نہیں۔ بیس ماہ سے وزیراعظم کی رہائش گاہ پرشدیدمحنت کررہاتھا۔ایسے محسوس ہواکہ اس کی ساری محنت رائیگاں چلی گئی ہے۔ واپس اپنے کمرے میں آیا اوردھاڑیں مارمارکررونے لگا۔ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ اپنے ساتھ ہونے والی بدتمیزی اور زیادتی کوکیسے برداشت کرے۔ کیا کرے۔کس سے فریادکرے۔کئی دن سوچتارہا۔ ذہن میں خیال آیاکہ اس کے ملک میں عدالتیں آزاد ہیں۔
ان پرکسی قسم کاکوئی دباؤنہیں۔ مینی نفتالی نے لیبرکورٹ جانے کافیصلہ کرلیا۔ایک عام سا وکیل کیا۔بلکہ وہ خودہی اپنا وکیل تھا۔ عدالت نے اس کاکیس سماعت کے لیے منظورکرلیا ۔ یہ مقدمہ ایک گھریلوملازم کااپنے ملک کے وزیراعظم اوراس کی اہلیہ کے خلاف تھا۔ایک عام ساآدمی اپنے ساتھ ہونے والی گالی گلوچ کے مداوے کے لیے عدالت پہنچ گیا ۔کیس کی سماعت شروع ہوگئی۔ جج کانام ڈیتاپروگنن (Dita Pruginin) تھا۔
وزیراعظم کی اہلیہ سارہ کوطلب کرلیا گیا۔اس نے اپنے دفاع کے لیے ذاتی خرچے پرایک مہنگا وکیل کیا اورعدالت کے سامنے پیش ہوگئی۔مقدمہ چلناشروع ہوگیا۔تمام اخبارات اورٹی وی میڈیاکی نظر اس کیس پرتھی۔ دوران سماعت سارہ کے جارحانہ رویے کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔وزیراعظم کے ایک ملازم نے شکایت کی کہ ایک دن خاتون اوّل نے پھولوں کاگلدستہ اس کے سرپردے مارا۔ مسلہ صرف یہ تھاکہ پھول تازہ نہیں ہیں۔
ایک اوربات بھی سامنے آئی کہ وزیراعظم ہاؤس میں ملازموں سے مقررہ اوقات سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ کام کے اوقات کاربھی مقرر نہیں ہیں۔ کسی بھی ملازم کوبغیرکسی وجہ کے رات کوجگاکرکام کرنے کے لیے کہہ دیاجاتاہے اورتمام احکامات خاتون اوّل کی طرف سے جاری ہوتے ہیں۔
وہ رات کودوبجے کافی پینے کی فرمائش کر دیتی ہیں۔ جج کے سامنے یہ بھی بات آئی کہ وزیراعظم ہاؤس میں کوئی ملازم زیادہ دیر نہیں ٹکتا۔اکثرملازمین کے کام چھوڑنے کی وجہ خاتون اوّل کا سخت رویہ تھا۔سارہ نے الزامات کی نفی کرتے ہوئے بیان دیا کہ وہ کسی سرکاری اہلکار پر سختی کرنے کاقانونی جوازنہیں رکھتیں اوروزیراعظم ہاؤس کے معاملات سے ان کاکوئی تعلق نہیں۔ گھریلومعاملات چلانے کے لیے سرکاری عملہ موجود ہے۔
مقدمہ پربھرپوربحث ہوئی۔ ایک طرف وزیراعظم کی اہلیہ اور بہترین وکیل اوردوسری طرف ایک غریب سا آدمی۔ ڈیتاپروگنن نے ایک دن پہلے اس مقدمہ کافیصلہ سنادیا۔فیصلہ نفتالی کے حق میں سنایا گیا۔ عدالت نے وزیراعظم کی اہلیہ کوبلاکریہ بھی حکم دیاکہ ان کے درشت رویہ کی وجہ سے ایک سرکاری ملازم کوبے جا تکلیف پہنچی ہے۔لہذااسے تیس ہزارپاؤنڈجرمانہ کیا جاتا ہے۔یہ تمام رقم نفتالی کودی جائے گی۔ واقعہ تاریخ کے ورق سے نکال کرپیش نہیں کیاگیا۔فیصلہ صرف اٹھارہ گھنٹے پہلے ہوا ہے۔
سارہ اسرائیلی وزیراعظم بنجیمن نتین یاہو(Benjmin Natenyahu) کی بیوی ہے۔وزیراعظم کی جرات نہیں تھی کہ اس فیصلہ کے خلاف کسی قسم کی لب کشائی کرسکے۔ اس کا تمام اختیار،طاقت اوردولت ایک عام سے شہری کے حقوق کے سامنے کمزورہی نہیں بلکہ بے معنی تھا۔ اس فیصلے کی مذمت کرنے کی جرات نہیں کرسکا۔اس کی کابینہ کے کسی وزیر یا مشیر نے عدالت پرحملہ نہیں کیا۔اس پورے معاملے کادلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ مینی نفتالی کاتعلق اسرائیل سے نہیں ہے بلکہ وہ کسی اور ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ شائد مراکش سے۔
فیصلے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پرمجبورکردیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ ہمارے ملک میں اسرائیل کے متعلق بات کرنا شجرممنوعہ ہے۔کجا یہ کہ ان کے عدالتی نظام میں سے ایک مثال نکال کرسب کے سامنے رکھ دی جائے ۔کئی نہیں بلکہ اکثرلوگوں کواس پراعتراض ہوسکتاہے ۔
مگرمیرا ایمان ہے کہ اگر بہتراوراچھی مثال کہیں سے بھی مل جائے تو سیکھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ میں یہ عرض نہیں کروںگاکہ ہماری اکثر حکومتوں اوراسرائیل کے درمیان خفیہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ مگرمیں اس پرکچھ نہیں لکھناچاہتا۔ صرف اورصرف ملک کے عدالتی نظام کاذکرکررہاہوں جہاں ملک کا وزیراعظم اور ایک ملازم عملی طورپربرابرکے حقوق رکھتے ہیں۔
اپنے اردگردنظردوڑائیے۔محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے انتہائی درداورتکلیف سے ایک عدالتی کارروائی کے دوران کہاہے کہ اگروہ کسی پولیس اسٹیشن چلے جائیں اور اپنے چیف جسٹس ہونے کاذکرنہ کریں،توانھیں بھی ایف آئی آرکٹوانے کے لیے رشوت دینی پڑے گی۔اس سے زیادہ سنجیدہ بات اورکیاہوگی کہ ملک کاقاضی یہ کہہ رہاہے کہ ہمارانظام شکستہ توہے ہی، مگراس کے ساتھ ساتھ اس میں عام آدمی کے لیے انصاف نہیں ہے بلکہ تکلیف ہی تکلیف ہے۔ کیا محترم چیف جسٹس کے عہدے پرفائزانسان غلط بات کہہ رہا ہے۔
ہرگز نہیں۔ میں ان کے عدالتی ریماکس کومکمل سچ گردانتا ہوں۔ صورتحال شائد اس سے بھی گھمبیرہے۔ یہاں انصاف لینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔خیراب میں وہ نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو مرکزی بھی ہے اوراہم بھی۔آپ کسی شخص سے بات کرکے دیکھیے۔اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی داستان سنائے گا۔
اگرسرکاری ملازم ہوا تو ٹرانسفر پوسٹنگ کے ذاتی مسائل کو قومی المیہ بتانے کی کوشش کرے گا۔اگرنجی شعبہ میں ملازمت کرتاہے توبتائے گاکہ اس کا سیٹھ کتنا ظالم اورسفاک ہے۔ لیکن ایک اَمرکاذکر کبھی نہیں کرے گا۔ جب بھی اس کے پاس کسی قسم کا اختیار آیا تو اس نے اس کا استعمال کیسے کیا۔میں اکثر ریٹائرڈ سرکاری افسروں سے سنتاہوں کہ ان کے زمانے میں حالات بہت اچھے تھے۔اب تو ''بیڑاغرق''ہوچکا ہے۔
اگر آپ ان سے تھوڑا سابھی پوچھ لیں کہ حضرت،آپ تواپنے دور میں ہروہ کام کرتے تھے، جو آج آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے تویقین فرمائیے، وہ آپ سے نہ صرف ناراض ہوجائیں گے بلکہ شائد بات چیت کرنا بھی چھوڑدیں۔افسوس سے لکھنا پڑتاہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کسی کوتھوڑا یا زیادہ یا مکمل اختیارملا تواس طاقت کوخلق خداکے فائدے کے لیے بہت کم استعمال کیاگیا۔وہ طاقتوروں کے لیے تو''جام شیریں''بن گیا مگر کمزوراوربے وسیلہ لوگوں کے لیے ایک عذاب۔آپ صرف یہ دیکھ لیجیے کہ آج بھی ہمارے اکثرگھروں میں ملازموں کے برتن الگ ہیں۔
انھیں جوکھانا دیا جاتاہے،مالک اسے چکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ آج بھی اکثرگھروں میں ملازمین ننگے پیر آتے ہیں۔انھیں گھرمیں چپل پہن کرکام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔آپ گھریلوملازم کوصرف ایک استعارے کے طور پر استعمال کریں۔کیاہمارے ملک میں کسی غریب آدمی کی کوئی وقعت ہے۔لفاظی بہت مگرعملی طورپرسب کوپتہ ہے کہ طاقت ورکے سامنے ایک عام آدمی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ہم تمام لوگ ایک عجیب سے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم بیک وقت ظالم بھی ہیں اورمظلوم بھی۔ ہم دوسروںکی برائیاں اورکوتاہیاں بتاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ تمام کمزوریاں توہمارے اپنے اندر بھی موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم اپنی ملکی کمزوریوں کو بھی خارجی عوامل میں تلاش کرتے ہیں۔یہ خاصی حد تک درست بھی ہے۔مگرمکمل سچ نہیں۔شخصی اورعملی رویوں کی دوعملی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ہم خوداپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔مگراس سچ کوتسلیم کرنا بہت مشکل ہے۔ شائدناممکن!