پاک فوج کا ’’دانشور‘‘جرنیل

صاحب زادہ یعقوب خان کا تذکرہ ِحیات جنھوں نے عسکری و سفارتی،دونوں محاذوںپر ملک وقوم کی خاطر مثالی خدمات انجام دیں


سید عاصم محمود February 14, 2016
صاحب زادہ یعقوب خان کا تذکرہ ِحیات جنھوں نے عسکری و سفارتی،دونوں محاذوںپر ملک وقوم کی خاطر مثالی خدمات انجام دیں ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: ہوورڈ شیفر (Howard Schaffer) ممتاز امریکی سفارت کار رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بطور سفیر طویل عرصہ گزارا۔ جب 1984ء میں ''سارک'' کی بنیاد بنگلہ دیش میں رکھی گئی' تو وہ وہیں بہ حیثیت امریکی سفیر متعین تھے۔

ہوورڈ شیفر اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں:''سارک کے افتتاحی اجلاس میں پاکستان سے جنرل محمد ضیاء الحق اور وزیر خارجہ ' صاحب زادہ یعقوب خان شریک ہوئے۔ اس موقع پر پاکستانی سفیر ' تنویر احمد خان نے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا جس میں بنگلہ دیشی حکومت کا ہر اعلیٰ'سول اور فوجی اہلکار موجود تھا۔اس تقریب میں میری ملاقات ایسے بنگلہ دیشی فوجی افسر وں سے ہوئی جنہوں نے پاکستانی فوج میں شامل ہوکراپنے کیریئرکا آغازکیا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ صاحب زادہ یعقوب خان کی ایسے عزت کر رہے تھے جیسے وہ دیوتا ہوں۔ مجھے کئی افسروںنے بتایا کہ وہ فلاں سن میں صاحب زادہ کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل کر چکے۔ صاحب زادہ حقیقتاً بنگالیوں میں بہت مقبول تھے۔''

بنگلہ دیش میں پاکستانی وزیر خارجہ کو اپنی سچائی اور جرأت کے باعث مثالی عزت و احترام ملا۔ وہ 1969ء تا 1971ء مشرقی پاکستان میں اعلیٰ فوجی افسر رہے' مگر انہوں نے کبھی طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا۔ وہ پاکستانی حکمران طبقے پر زور دیتے رہے کہ مشرقی پاکستان کا مسئلہ جنگی نہیں سیاسی بنیاد پر حل کیا جائے۔

جب حکمران طبقے کے کا نوں پر جوں تک نہ رینگی ' تو صاحب زادہ یعقوب خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا یہ قدم درست ثابت ہوا اور وہ بھارتی جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچ گئے۔ یہی نہیں' اپنی جرأت اظہاراور سمجھ بوجھ کے باعث بنگلہ دیشیوں میں محترم قرار پائے حالانکہ وہ اکثر پاکستانی جرنیلوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ پاک فوج کے یہ منفرد جرنیل' سفارت کاری کے نبض شناس اور دانشور 26جنوری2016ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

٭٭

محمد علی یعقوب خان 23دسمبر1920ء کو بھارتی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحبزادہ سر عبدالصمد خان بہادر کا تعلق ریاست کے شاہی خاندان سے تھا۔ اس خاندان کی داغ بیل 1748ء میں یوسف زئی پٹھان' فضل اللہ خان نے ڈالی تھی۔ ریاست رام پور کا شمار ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں ہوتا تھا۔ عبدالصمد خان رام پور کے وزیراعظم بھی رہے۔ ان کے نام میں صاحب زادہ' سر اور خان بہادر القابات ہیں۔

یعقوب خان کی پرورش نازو نعم سے ہوئی ۔گھر میں علمی و ادبی ماحول تھا' اس لیے لڑکپن سے علم و ادب کی کتب پڑھنے لگے۔ یوں اعلیٰ ادبی ذوق پروان چڑھا۔ تاہم والد انہیں بطور فوجی افسر دیکھنا چاہتے تھے۔

سعادت مند بیٹے نے سر تسلیم خم کر دیا۔ڈیرہ دون کے عسکری کالج سے تعلیم پا کر 1940ء میں یعقوب خان برطانوی ہند کی فوج کا حصہ بن گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شمالی افریقہ بھجوائے گئے۔ وہاں آپ نے جرمنوںکے خلاف لڑتے ہوئے مشہور محاصرہ طبرق (لیبیا) میں حصہ لیا۔ جرمنوں کی قیادت ''صحرائی لومڑی'' جنرل رومیل کر رہا تھا۔مئی 1942ء میں جرمنوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ڈیڑھ سال بعد یعقوب خان نے فرار ہونے کی کامیاب کوشش کی مگر جرمن فوجیوں نے انہیں پھر گرفتار کر لیا۔ اپریل 1945ء میںجنگ کے اختتام کے ساتھ انہیں رہائی نصیب ہوئی۔

1947ء میں ہندوستان دو مملکتوں میں بٹ گیا۔ تب آپ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے۔ یعقوب خان نے پاکستان جانے کو ترجیح دی اور نوخیز پاک بری فوج کا حصہ بن گئے۔ آپ نے پاک فوج کی تعمیر و ترقی میںنمایاں کردار ادا کیا۔ خود بھی ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔1966ء تا 1969ء چیف آف جنرل سٹاف رہے۔ 23 اگست1969ء کو مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے کمانڈر انچیف بنائے گئے۔ بعدازاں یہ عہدہ وائس ایڈمرل محمد احسن نے سنبھال لیا۔ لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان مشرقی پاکستان میں بری فوج کے کمانڈر بن گئے۔

پاکستان کے فوجی حکمران' جنرل یحییٰ خان باغی مشرقی پاکستانیوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنا چاہتے تھے۔۔ ایڈمرل احسن اس حکمت عملی کے خلاف تھے۔ چناںچہ جب ان کی نہ سنی گئی' تو انہوں نے 7 مارچ 1971ء کو استعفیٰ دے دیا ۔اسی دن یعقوب خان کو صوبے کا مارشل لاایڈمنسٹریٹر اور گورنر بنا دیا گیا۔جنرل یعقوب خان کا شمار سوچ بچار کرنے والے (Thinking) جرنیلوں میں ہوتا تھا۔ وہ بے سوچے سمجھے' جذبا ت میں آ کر کوئی فیصلہ کرنے سے گریزکرتے تھے۔ مشرقی پاکستان پہنچ کر انہوں نے کوشش کی کہ مقامی لوگوں سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ اس غرض سے انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے بنگلہ زبان بھی سیکھی ۔ اپنی نرم اور مہذب شخصیت اور نفیس انداز و اطوار کی وجہ سے وہ جلد ہی مشرقی پاکستان کے سیاسی و عسکری حلقوں میں چاہے جانے لگے۔

لیکن ہزاروں میل دور بیٹھے جنرل یحییٰ خان اور دیگر جرنیل مشرقی پاکستانیوں کے مسائل سمجھے بغیر باغیوں کو سختی سے کچلنا چاہتے تھے۔ جنرل یعقوب خان انسانی اور عسکری' دونوں لحاظ سے اس حکمت عملی کی مخالفت کرنے لگے۔ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام ہمارے اپنے ہیں' ان پر فوجی حملہ کرنا سخت غلطی ہو گا۔ عسکری طور پر ان کا نقطہ نظریہ تھا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا' تو پاک فوج مقامی آبادی کی مدد کے بغیر اس سے نہیں لڑ سکے گی۔ لہٰذا مقامی آبادی سے لڑائی مول لینا کسی بھی طرح افواج پاکستان کے لئے سود مند نہیں۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ دور اندیش یعقوب خان کی سوچ ہی درست تھی۔

یعقوب خان اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت پاک بری فوج کے قابل ترین اعلیٰ فوجی افسر تھے۔ اب وہ علمی و ادبی کتابیں پڑھ کر وقت گزارنا چاہتے تھے۔ وہ غالب و اقبالؒ کے دلدادہ تھے۔ ان کی گفتگو معنی خیز اشعار اور زندگی افروز اقوال سے سجی ہوتی۔ تاہم نئے وزیراعظم، ذوالفقار علی بھٹو کو یقین تھا کہ یعقوب خان کامیاب سفارت کار بن سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی سعی سے یعقوب خان سفیر بن گئے۔ انہوں نے فرانس، سوویت یونین اور امریکا جیسے اہم ممالک میں اپنی سفارتی ذمے داریاں انتہائی ذمہ داری، تدبر اور خلوص سے انجام دیں۔

مارچ 1982ء میں غیر وابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کا رکن بننے کے معاملے پر جنرل ضیاء الحق اور وزیر خارجہ آغا شاہی کے مابین اختلاف ہوگیا۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ آغا شاہی نے استعفیٰ دے دیا۔ تب جنرل ضیاء الحق نے صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ پاکستان مقرر کیا۔ وہ پھر 1991ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ بعد ازاں معین قریشی کی نگران حکومت میں بھی کچھ عرصہ یہ عہدہ سنبھالے رکھا۔

صاحبزادہ یعقوب خان نے بہ حیثیت سفارت کار اور وزیر خارجہ وطن عزیز کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ وہ جرمن، اطالوی، انگریزی، جاپانی، بنگالی، فرانسیسی اور روسی سمیت دس زبانیں جانتے تھے۔ پھر اردو اور بین الاقوامی ادب سے واقفیت نے ان کی گفتگو اور شخصیت میں منفرد جازبیت و کشش پیدا کر دی تھی۔ 1983ء میں انہوںنے ایک امریکی تھنک ٹینک میں ایک لیکچر دیا۔ حاضرین میں سابق امریکی صدر، رچرڈ نکسن بھی شامل تھے۔لیکچر سننے کے بعد نکسن نے انھیں ''اس دور کا ہوشیار ترین جیوپولیٹیکل دانشور'' قرار دیا۔

مرحوم ایسے زمانے میں پاکستانی وزیر خارجہ رہے جب سوویت یونین ہمارے پچھواڑے بیٹھا تھا۔ تاہم یعقوب خان نے فن سفارت کاری بروئے کار لاتے ہوئے ''سرخ ریچھ'' کو پاکستان پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ 1987ء میں انہوں نے روسیوں کو واپس جانے پر مجبور کردیا۔ تاہم جنیوا معاہدے سے قبل وزیراعظم محمد خان جونیجو نے صدر ضیاء الحق سے اختلافات کے باعث یعقوب خان کو برطرف کردیا۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اگر سوویت یونین سے مذاکرات کے وقت یعقوب خان وزیر خارجہ ہوتے، تو شاید افغانستان بعدازاں شدید خانہ جنگی کا شکار نہ ہوتا۔

2002ء میں جب امریکی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تو یعقوب خان نے ایک لیکچر کے دوران ہمارے پڑوسی ملک کے حالات مختصر الفاظ میں نہایت عمدگی سے یوں بیان کیے: ''سوویت فوج کی واپسی کے بعد جو خلا پیدا ہوا، اسے انتہا پسند افغانوں نے پُر کیا۔ دنیا والوں نے افغان عوام کو ''وار لارڈز'' کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ بعدازاں طالبان کو اعتدال پسند بننے کا موقع نہیں دیا گیا اور وہ انتہا پسند القاعدہ کی آغوش میں جاگرے۔ یوں امن کے بجائے تنازعات میں الجھے رہنا افغانوں کا تمدن بنتا چلا گیا۔''

فوجی حکومت سے وابستہ رہنے کے باوجود سبھی اس امر پر متفق ہیں کہ صاحبزادہ یعقوب خان محب وطن، عاقل، اپنے پیشے سے مخلص اور نہایت مہذب رہنما تھے۔ وہ طویل عرصہ حکمران طبقے میں شامل رہے لیکن انہوں نے کبھی اپنے اختیارات سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایک پائی رشوت کا کوئی سیکنڈل مرحوم کی ذات سے وابستہ نہیں۔ انہوں نے طاقتور ہوکر بھی اپنے دامن کو کرپشن سے داغدار نہیں کیا اور اسے اجلا و چمکیلا رکھا۔ یہ خصوصیت انہیں مثالی اور قابل تکریم پاکستانی رہنما کا روپ دیتی ہے۔ مرحوم کی حیات و خدمات نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مرحوم کا علمی مقام
بچپن سے علمی و ادبی کتب کا مطالعہ کرنے کے باعث صاحب زادہ یعقوب خان عالم فاضل شخصیت تھے۔ وہ عموماً اپنی گفتگو میں شعراء، ادبا اور دانش وروں کی باتوں کے حوالے دیتے اور اسے نہایت پُرکشش بنادیتے۔ ان کی بہن، بیگم جہان آرا حبیب اللہ کی نواسی، کاملہ شمسی مشہور انگریزی ناول نگار ہیں۔ ایک بار وہ انگریزی لفظ ''آئیڈیا'' کے معنی پوچھنے نانا کے پاس آئیں۔ یعقوب خان نے لفظ کی جو تشریح کی، وہ آپ بھی پڑھیے:

بیٹی! آئیڈیا لفظ قدیم یونانی لفظ آئیڈین (Idein) سے نکلا ہے۔ آئیڈین دو معنی رکھتا ہے:دیکھنا اور ہوشیاری۔ عربی میں اس کے لیے دو الفاظ ''نظر'' اور ''بصر'' بیان ہوئے ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے معنی دیکھنا ہے۔ تاہم آنکھ کو بصر بھی کہا جاتا ہے۔

قرآن پاک میں یہ دونوں الفاظ بطور اسم (Noun) اور فعل (Verf) آئے ہیں۔ تاہم بصر بیس مقامات پر بصیر یا بصیراً کی حیثیت سے بطور صفت بھی استعمال ہوا ہے۔ بصیر اللہ تعالیٰ کا نام ہے جس کے لغوی معنی ہیں: دیکھنے والا، بینا اور مجازی معنی ہیں: ہوشیار، ماہر۔ان دونوں الفاظ سے مزید الفاظ وجود میں آئے۔ مثال کے طورپر آپ روزمرہ معاملات کو جس نظر سے دیکھیں، وہ آپ کا ''نظریہ'' بن جاتا ہے۔ جب آپ قدرتی مناظر کو دیکھیں تو یہ عمل ''نظارہ'' کہلاتا ہے۔

بصر لفظ نے بھی نئے الفاظ کو جنم دیا۔ مثلاً بصارت یعنی بینائی، آنکھ کی روشنی۔ بصر کے ایک معنی روشنی کے بھی ہیں۔ ظاہر ہے ہم روشنی ہی میں دیکھ سکتے ہیں اور جس جگہ چمکتے پتھر ہوں، وہ ''بصرہ'' کہلاتی ہے۔ عراق کے شہر بصرہ کا نام اسی طرح پڑا۔ بصیرت لفظ کا منبع بھی بصر ہے جو دانائی، عقل مندی اور دل کی بینائی کا ہم مترادف ہے۔

آمروں سے قربت
صاحبزادہ یعقوب خان پر ایک اہم الزام یہ لگتا رہا کہ وہ آمروں کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔ تاہم ان کے حامی کہتے ہیں کہ مرحوم نے صرف پاکستان کی خاطر خدمات انجام دیں اور وہ ہر معاملے میں ملک و قوم کو مقدم رکھتے تھے۔

اسی لیے وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بہترین نمائندے بن کر ابھرے۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے یعقوب خان کو امریکا و یورپ بھجوایا تاکہ وہ عالمی سطح پر نئی پاکستانی حکومت کی خوبیاں بیان کرسکے۔ امریکا میں میڈیا نے یعقوب خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور فوجی حکومت کا نمائندہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی صحافیوں نے پوچھا ''آخر کیا وجہ ہے کہ ہر دس سال بعد پاکستان میں مارشل لاء لگ جاتا ہے؟''

صاحبزادہ نے جواب دیا ''سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں۔ دراصل ہمارے سول حکمران اب تک اپنی خامیاں اور کمزوریاں دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ چناں چہ فوج کو حکومت سنبھالنا پڑتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجمہوری حکومتوں کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔ صرف اسی صورت جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے۔'' مرحوم اکثر یہ بھی کہتے تھے کہ ایسی جمہوریت کس کام کی جو عوام کو فائدہ نہ پہنچا سکے اور خواص کی باندی بن جائے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں