پیسے کا کھیل

ہمارے ملک میں بھی بہت سےلوگ ہیں جنھوں نےدنیا کمانےکےساتھ آخرت بھی کمائی لیکن اکثریت جنھیں Filthy Rich کہا جا سکتا ہے


Hameed Ahmed Sethi February 14, 2016
[email protected]

FAISALABAD: ماسوائے ان متعلقہ اداروں کے جن کے ذمے حکومت نے یہ کام بذریعہ قوانین سپرد کر رکھا ہے کسی دوسرے کا حق نہیں بنتا کہ وہ کھوج لگاتا پھرے کہ فلاں کے پاس کتنی دولت ہے اور کہاں سے آ گئی۔

یہ ضرور ہے کہ واضح اور حتمی ثبوت کے ساتھ بیان حلفی کے ہمراہ ناجائز کاری اور بدعنوانی کے مرتکب کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف متعلقہ محکمے کے پاس شکایت درج کرانا ہر شہری کا فرض بنتا ہے۔ کافی عرصہ سے یہ عادت ایک فیشن بن چکی ہے کہ ہر صاحب اقتدار اپنی ہر نااہلی اور عوام کی ہر مصیبت کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی روش اپنا رہا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے مخالفین ان پر جوابی الزامات کی بوچھاڑ کر کے زبانی جمع خرچ کی پالیسی پر عمل پیرا رہ کر اپنے فرض سے گویا سبکدوش ہو جاتے ہیں۔

عمران خان اس نورا کشتی کو 'مک مکا' کا نام دیتے ہیں جب کہ واقفان احوال کہتے ہیں کہ اقتدار کے قابضین کے پاس جانے والے حکمرانوں کی مصدقہ فائلیں اور چلے جانے والے حکمرانوں کے پاس نئے آنیوالے حکمرانوں کی سیاہ کرتوت کی فائلیں پہلے سے موجود و محفوظ ہوتی ہیں اور ان دونوں جمہوریت پسندوں کی بداعمالیوں کا ریکارڈ تیسری قوت کی مقفل الماریوں میں پایا جاتا ہے اور ہر سہ کو ایک دوسرے کی غلط کاریوں کا مکمل علم ہوتا ہے۔ یہ تینوں فریق اس مک مکا پالیسی پر جسے اہل دانش Religiously فالو کرنا کہتے ہیں کاربند رہتے ہیں۔

دوسرے بہت سے ممالک میں بھی ہم جیسا تناسب ہو گا کہ آبادی کی اکثریت خط غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کرتی ہو گی اور ان سے اوپر سفید پوش عوام ہوں گے جب کہ ایک معقول تعداد طبقہ امراء کی ہو گی۔ امیر اور صاحب ثروت ہونا کوئی بری بات ہے نہ گالی لیکن بے تحاشہ امراء کی دو اقسام ہیں ایک وہ جو پشتینی امیر ہیں اور اب اپنی محنت یا کاروباری وسعت کے نتیجے میں مزید مالدار ہو گئے ہیں۔

ان ہی کی ایک شاخ ایسی ہے جنھوں نے درمیانے درجے کا بزنس کیا اور کاروباری دور میں ان کا فلوک لگ گیا اور ان کی امارت کا گراف ان کی مہارت سے نہیں کاروباری زیروبم سے یکدم اوپر چڑھ گیا۔ اس کو عرف عام میں چھپر پھاڑ دولت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ دولت مندوں کی ایک دوسری قسم عرصہ سے بتدریج ابھر رہی ہے جن کی دولت کے ذرایع کرپشن، ناجائز کاری، بدعنوانی، کمیشن، بدمعاشی، غنڈہ گردی ہوتے ہیں اور اس کیٹیگری میں حکمرانوں اور ان کے مختلف لیول کے ٹاؤٹوں اور دلالوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ بہت اوپر تک پہنچ جاتے ہیں۔

سہولت کار ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے بیڈ رومز تک رسائی رکھتے ہیں۔ ان پر کسی ایجنسی کی گرفت نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کا سارا کھاتہ ہوائی ہوتا ہے۔ ان کے اکاؤنٹ بیعنامی یا بیرون ملک ہوتے ہیں۔

یہ حکمرانوں کے اکاؤنٹ ہولڈر بھی کہے جا سکتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ الزام اور جوابی الزامات کی تو بھر مار ہے لیکن انھیں ثابت کر کے فریق مخالف کے چہرے پر سیاہی ملنے کے لیے عملی اقدام اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے ایسے ایسے سنگین الزامات جلسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں مخالفین پر لگائے جاتے ہیں کہ ان میں سے ایک الزام بھی عدالت میں ثابت ہو جائے تو الزام علیہ نہ صرف کال کوٹھڑی کا مہمان ہو جائے بلکہ پبلک لائف ہی سے ہمیشہ کے لیے آؤٹ ہو جائے لیکن جب الزام ثبوت کے ساتھ منظر عام پر نہیں لایا جاتا تو عوام بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے اس لیے بہتر ہو گا کہ سیاستدان اور لیڈر حضرات یہ چور سپاہی کا کھیل ترک کر دیں اور صرف اپنی کارکردگی پر سیاست کریں۔ عوام کے جذبات سے کھیلنا بند کر دیں۔

میرے ایک کرم فرما نے جو عرصہ دراز سے روزانہ صبح دو گھنٹے کے لیے لائبریری جاتا ہے اور اخبار کھنگالتا ہے کئی سال کے عرصہ پر محیط سیاسی اور سماجی شخصیات کے ان بیانات کا Data مرتب کر رکھا ہے جن میں مذکورہ افراد نے اپنے مخالف دھڑوں کے بااختیار لوگوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کو تفصیل کے ساتھ بے نقاب کیا ہے اور پھر جو الزامات دوسری طرف سے فریق اول پر تھونپے گئے ہیں ان کی تفصیل بھی اپنی ڈائری میں درج کر رکھی ہے۔

انھوں نے یہ ڈائری مجھے مطالعے کے لیے دی جس میں ملک کے نامی گرامی افراد کے نام اور کئی جگہ ناجائز حاصل کردہ رقوم اور اراضی کی تفصیل بھی تھی۔ جن افراد کے نام تھے وہ تمام جانے پہچانے تھے۔

بدکرداریوں کی تفصیل بھی تھی لیکن یہ تمام کا تمام Data غیر مصدقہ ہونے اور الزامات کی زد میں لائے گئے اشخاص کا جانا پہچانا ہونے کی وجہ سے اس کا نشر کرنا مناسب نہ ہو گا۔ میں نے صرف مبینہ ناجائز دولت کی تفصیل تیار کروائی ہے۔ ایک ماہر حساب دان نے مجھے یہ ضرور بتایا ہے کہ اگر یہ غیر مصدقہ Data پچیس فیصد بھی درست مان لیا جائے تو ملک پر تمام کے تمام قرضے مع سود واپس کیے جا سکتے ہیں جب کہ کافی رقم قومی خزانے کے لیے بچ بھی جائے گی۔

طبقہ امرا کی بات سے دولت کے استعمال کا خیال آتا ہے کہ دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے بہت سوں نے اپنی دولت کا کثیر حصہ فلاحی کاموں کے لیے وقف کر کے نیک نامی کمائی اور انھوں نے اس نیک نامی ہی کو اپنی اصل کمائی سمجھا۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کمانے کے ساتھ آخرت بھی کمائی لیکن اکثریت جنھیں Filthy Rich کہا جا سکتا ہے ایسوں کی ہے جو اپنی دولت وراثت میں چھوڑ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کچھ لوگ البتہ اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے رائے قائم کرنے میں ان کی خدمت خلق کے کارناموں کے باوجود کچھ دقت ہوتی ہے۔ اپنی اس مشکل کی وضاحت کے لیے میں ساڑھے چھ سال قبل لکھے ہوئے کالم کا پیرا گراف جو اخبار کے بعد میری تیسری کتاب میں بھی چھپا ہے تحریر کرتا ہوں۔

''ساڑھے تین سال قبل میں سابق گورنر خالد مقبول کے ہمراہ لاہور سے روانہ ہو کر گیارہ بجے گھوڑا گلی کے لارنس کالج کے وسیع ہال میں بیٹھا تھا۔ ایک معروف شخصیت نے ہال میں 105 جوڑے بلا کر صوفوں پر بٹھا رکھے تھے۔ مسلم کرسچین اور ہندو رسوم کے مطابق 105 ایجاب و قبول ہوئے۔ گورنر نے بتایا کہ ان اجتماعی شادیوں کے لیے مستحق جوڑوں کا انتخاب جس مخیر شخصیت نے کیا ہے ان کی رخصتی کے ساتھ ہر ایک نوبیاہتا غریب فیملی کے لیے جہیز کا سامان جو ٹرکوں میں لدا ہوا ہے شادی ہال سے سیدھا ان کے گھروں میں اتارا جائے گا۔

یہ بہت احسن اقدام تھا۔ گورنر کی بیگم کے دست مبارک سے ہر دلہن نے سونے کا ایک ایک سیٹ بھی وصول کیا۔ اس فیاضی کی زبردست پذیرائی اور فنکشن کی بھر پور کیمرہ کوریج ہوئی۔ اختتام پر کالج کے پرنسپل نے ہم آٹھ دس مصاحبین اور گورنر کی اپنے کمرے میں ریفریشمنٹ سے تواضع کی ملٹری سیکریٹری ٹو گورنر ایک منسٹر اور میں کھڑے چائے پی رہے تھے۔

فنکشن کے سپانسر اپنے ایک پراجیکٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے جذباتی ہو رہے تھے اور پھر اس اسکیم میں شامل گالف کورس کا بڑے فخر سے ذکر کرنے لگے۔ خود گولفر ہونے کی وجہ سے مجھ سے نہ رہا گیا اور ان سے کہا جناب لاہور میں گالف کھیلنے کا پروگرام بنے تو لاہور جمخانہ کلب میں آپ میرے مہمان ہونگے۔ ان کا جواب آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ انگریزی میں عجب سے انداز میں بولے ''Sethi Sahib, I do not play golf, I play with Money'' میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ ان کے جواب میں تمسخر تھا، رعونت تھی، حقیقت تھی، پیسے کا نشہ تھا یا سب کچھ ملا جلا۔''

ان صاحب سے میری صرف ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ ان کی غریب پروری اور کامیابیوں کے قصے زبان زدعام ہیں البتہ ان کا انگریزی میں دیا ہوا جواب مجھے سچ معلوم ہونے لگا ہے کیونکہ بہت سے لوگ دیکھنے کو ملے ہیں جو سچ مچ پیسے میں یا پیسے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں